جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کا گمنام داعی۔۔۔۔اشفاق پرواز

اللہ تعالیٰ کا نظام بڑا ہی عجیب ہے۔ وہ وقتاً فوقتاً ایسے افراد کو پیدا کرتا ہے جو اصلاح و رشد کا مینارہ نور، اخلاق و کردار کا کوہِ ہمالہ، شریعت و طریقت کا حسین سنگم، دعوت و ارشاد اور تبلیغ کا دُرِ نایاب ہوتے ہیں۔ ایک فرد کا سوز ِدل اور روح کی بے قراری ہزاروں اور لاکھوں انسانوں کے لیے انقلاب کا ذریعہ بن جاتا ہے اور وہ الحاد و بے دینی اور خدا فراموشی کے تیرہ و تاریک ماحول میں چراغِ ہدایت بن کر جگمگاتا ہے، آفتاب کی طرح اس کی کرنیں پوری دنیاء انسانیت پر چھا جاتی ہیں۔ دیوانہ وار لوگ اس کے گرد پروانوں کی طرح جمع ہوجاتے ہیں۔ اس کی اداؤں پر فریفتہ اور اس کے ایثار و اخلاق کے گرویدہ ہوجاتے ہیں۔ اس کی زبان سے نکلنے والا ایک ایک جملہ دل پر اثر کر جاتاہے اور قلب کی دنیا میں تموج برپا کر دیتا ہے۔ محبت اور ہمدردی میں ڈوبی گفتگو زندگی کے رخ کو بدل دیتی ہے، سادگی و بے نفسی، تواضع و انکساری اس کی عظمت کو مزید دوبالا کر دیتی ہے۔ اور تنہا ایک انسان وہ حیرت انگیز کارنامہ انجام دیتا ہے جو بڑی بڑی جامعات بھی انجام دینے سے بسا اوقات قاصر رہتی ہیں ۔

چنانچہ ان ہی شخصیات میں تحریک اسلامی تحصیل ٹنگمرگ کی ایک مثالی اور انفرادی شخصیت شہید عبدالسلام ملک تھے۔ جو نگاہ بلند کے حامل، سخنِ دلنواز کے مالک اورجاں پرسوز سے مالا مال تھے۔ جنہوں نے تحصیل ٹنگمرگ میں تحریک اسلامی کی صدا کو بلند کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے حق پرستوں اور دین کے متوالوں کا ایک ایسا قافلہ تیار ہوگیا جو اعلاء  اسلام کے جذبے سے سرشار ہو کر، اقامت دین کی جدوجہد کے لیے تن من کی بازی لگانے والا بن گیا۔ خوبیوں اور کمالات کے پیکر شہید سلام صاحب نے نہایت منظم اور مستحکم طور پر دعوت دین پر محنت شروع کی ۔

شہید عبدالسلام ملک کی تاریخ پیدائش  اسکول کے  ریکارڈ کے مطابق ۱۵ نومبر ۱۹۴۵ ہے۔ آپ کی ولادت تحصیل ٹنگمرگ کی نامور بستی دیوبگ کنزرمیں ایک دین دار گھرانے میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام غلام قادر ملک تھا جو پیشہ کے اعتبار سے زمیندار تھے۔ سلام صاحب کی شادی دیوبگ کے ایک ہمسایہ گاؤں کٹی بگ میں ہوئی تھی۔ دور شباب میں شہید سلام صاحب کا شمار علاقے کے نامور کرکٹ کھلاڑیوں میں ہوتا تھا۔ انہیں بلا بنانے میں کمال حاصل تھا۔ راقم کو اپنے والد محترم اورسابق امیر تحصیل ٹنگمرگ محترم غلام رسول پرواز صاحب سے معلوم ہوا کہ شہید عبدالسلام ملک کو تحریک اسلامی کا تعارف پہلے سے ہی تھا لیکن تحریک کے تئیں آپ کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھاتے تھے ۔ پھر۱۹۸۰ میں ان کی ملاقات اُس وقت کے امیر تحصیل پٹن محترم عبدالغنی موحد سے ہوئی۔ امیر محترم نے شہید سلام صاحب کو سوپوربارہمولہ سے شائع ہونے والا ماہنامہ رسالہ ’’ طلوع‘‘ مطالعہ کرنے کے لیے دیا ۔ اس رسالے کے مدیر محترم سید علی شاہ گیلانی صاحب تھے۔

اسی رسالے نے شہید سلام صاحب کی زندگی بدل ڈالی اور ان کو صلاح و تقویٰ کے راستے پر گامزن کردیا ۔اور اس طرح آپ کے تحریکی سفرکی شروعات ہوگئی، اور یوں ان میں منکرات سے نفرت اور معروف کی رغبت اور اس پر عمل آوری کا جذبہ پیدا ہوگیا۔ وقت گزرتا گیا اور سلام صاحب تحریک اسلامی کے دامن کو مضبوطی سے پکڑتے گئے۔ ان کے گاؤں میں اُس وقت کے امیر ضلع بڈگام محترم شہید محمد اسماعیل ؒ صاحب نے حلقہ قائم کیا اور انہیں ناظم حلقہ کے فرائض سونپ دیے۔ سلام صاحب جب جماعت کے طریقہ کار اور نصب العین کو دیکھ کر متاثر ہوئے تو انہوں نے جماعت اسلامی کے استحکام اور توسیع کے لیے خود کو وقف کردیا ۔ وقت گزرتا گیا اور ضلعی نظم نے سلام صاحب کی تحریک کے تئیں لگن ،خلوص اور جذبے کو دیکھ کر انہیں ۱۹۸۴ء میں ناظم تحصیل ٹنگمرگ مقرر کیا۔

صف اول کے رکن جماعت محترم پرواز صاحب کو شہید سلام صاحب نے ہی تحریک اسلامی کی دعوت پیش کی۔ زمانہ طالب علمی میں اپنے دوستوں کے حلقوں میں اسی جہت سے محنت بھی شروع کر دی تھی ۔ بے حیائی کی روک تھام اور خدا بیزاری کے خلاف سینہ سپر ہو چکے تھے۔ پڑھنے لکھنے کا شوق شہید محترم میں کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا تھا۔ ۱۹۶۵ ء میں آپ نے دسویں جماعت کا امتحان گورنمنٹ ہائی اسکول چندی لورہ ٹنگمرگ سے اول درجے میں پاس کیا۔ وہ ایک ذہین اور محنتی طالب علم تھے اور ان کی تعلیمی زندگی بے شمار کامیابیوں سے مزین ہے۔ انہوں نے اپنی تعلیمی زندگی کے تمام امتحانات میں نمایاں پوزیشن حاصل کی ۔اور پرائمری سے لے کر بی ایڈ تک ہر امتحان میں مختلف وظائف جیتے۔ آپ ۲۵ دسمبر ۱۹۶۶ء کو آپ محکمہ تعلیم میں بہ حیثیت مدرس متعین ہوئے۔ دوران ملازمت شہید سلام صاحب نے پڑھائی جاری رکھی۔ انہوں نے کشمیر یونیورسٹی سے پہلے گریجویشن اور بعد میں بی ایڈ بھی کیا۔

یہ وہ دور تھا جب پورے تحصیل میں صرف شہید سلام صاحب تحریک اسلامی کے ساتھ منسلک تھے۔ آپ محترم کو تحریک اسلامی تحصیل ٹنگمرگ کا پہلا کارکن ہونے کا شرف حاصل ہے۔ آپ تحریک اسلامی کے تئیں کافی وفادار تھے۔ آپ نے انتہائی ناموافق حالات میں بھی جماعت کے ساتھ اعلاناً اپنی وابستگی قائم رکھی۔ راقم الحروف کے والد محترم پرواز صاحب شہید سلام صاحب کے قریبی دوست رہے ہیں۔ دونوں نے محکمہ تعلیم میں کئی بار ایک ساتھ فرائض انجام دیے ہیں۔ تحریکی زندگی کے تقریباً ۳۵ سال دونوں نے ایک ساتھ گذارے ہیں۔

یہ مضمون قلم بند کرتے وقت راقم کے والد محترم نے کہا کہ ’’تحصیل میں تحریک اسلامی کی دعوت کو گھر گھر پہنچانے میں شہید سلام صاحب نے بے مثال کردار ادا کیا ہے۔ ان کی شخصیت میں دین و شریعت کا حسین امتزاج پایا جاتا تھا۔ وہ جہد مسلسل اور عمل پیہم کا نام تھے۔ دن کے اوقات میں ڈیوٹی سے واپس لوٹنے کے بعد عوام اور اپنے رفقا کی اصلاح و تربیت ، عقائد و افکار کی درستی کے لیے اجتماعات کرتے تھے۔ رات کی تنہائیوں میں خدائے تعالیٰ سے راز و نیاز اور آہ وزاری کا معمول تھا ۔ موجودہ امیر ضلع بڈگام (ب) محترم علی محمد شیخ صاحب نے راقم سے شہید سلام صاحب کی تحریکی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ’ یہ دسمبر ۱۹۸۲ کی بات ہے جب ’میری پہلی ملاقات شہید سلام صاحب سے تحصیل بیرہ کے سالانہ دعوتی اجتماع بمقام رازون بیروہ میں ہوئی‘۔ امیر محترم نے کہا کہ ’میں شہید سلام صاحب کے دور میں نو عمر تھا البتہ پھر جب میں تحریک اسلامی میں مکمل طور ضم ہوگیا تو مجھے معلوم ہوگیا کہ شہید محترم تکلفات سے پاک اور ظاہری شان و شوکت کی تمام آلائشوں سے بے نیاز تھے۔ اپنی محنت پر پورا یقین رکھنے والے اور اسکے نتائج سے مطمئن رہنے والے تھے۔ خطیبانہ شان بھی خدائے تعالیٰ نے عطا کی تھی۔ آواز میں قدرت نے کچھ ایسا سوز رکھا تھا کہ سامعین متعدد بار بے ساختہ اشک بار ہوجاتے تھے۔ حسن تدبُر، خوش خلقی، نفس کی پاکیزگی اور انسانیت کا درد، غرض یہ کہ میر کارواں کی تمام تر صفات خدائے تعالیٰ نے شہید محترم میں جمع کر رکھی تھیں،ایک کامیاب قائد و رہبر کے اوصاف مجتمع تھے۔

شہید سلام صاحب نے اپنے رفقا میں یہ صاف اعلان کردیا تھاکہ یہ راستہ پُرخارہے۔ کانٹوں سے گذر کر منزل کی جانب جانا پڑے گا۔ حق پرستوں کو تو روز اول سے ہی خاردار راہوں سے گزرنا پڑا ہے ۔ ہم نے چونکہ اسی راستے کا انتخاب کیا ہے اسی لیے رفقا و کارکنان کو ہمیشہ کسی بھی قسم کی آزمائش کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔ تحریک اسلامی سے وابستگان نے سلام صاحب کی باتوں پر لبیک کہہ کر ان کا استقبال کیا۔ ابتر حالات اور مشکلات نے ان کے قدموں میں تزلزل آنے نہیں دیا۔ تکلیفوں اور مصیبتوں کے پہاڑ توڑے گئے لیکن یہ تمام استقامت کا کوہِ گراں بن کر کھڑے رہے اور ہر باد مخالف کااپنی ایمانی حمیت کے ساتھ رخ موڑنے میں لگے رہے اور ثابت قدمی کے ساتھ تمام آزمائشوں کا مقابلہ کیا۔

شہید محترم اقامت دین کے لیے آخری سانس تک ابتلا و آزمائشوں کی بھٹیوں میں جلتے رہے۔ اسلام کی تبلیغ کے لیے ہر ممکن تگ و دو کرتے رہے۔ اور جب آپ کا لگایا ہوا پودا تناور درخت بن گیا، برگ و بار ظاہر ہوئے، حق پرستوں کی ایک مضبوط جماعت شریک سوز و ساز ہوگئی، اور پورے تحصیل میں مختلف جگہوں پر حلقے، دارالمطالعہ جات اور درسگاہیں قائم ہوئیں۔ تحصیل میں تحریک اسلامی کے اس ناظم کے پاکیزہ جذبات اور ایمانی خیالات کی وجہ سے ہر طبقہ میں تحریک اسلامی کے تئیں ہمدردی پیدا ہوگئی۔ لوگوں نے ایمان کی چنگاری کو شمع بنانے اور حمیت ایمانی سے تازہ دم رہنے کے لیے جماعت اسلامی کے حلقوں اور خطبات میں شرکت کرنی شروع کی۔ دشمنانِ دین کو محترم سلام صاحب کی یہ داعیانہ سرگرمیاں راس نہیں آئیں اور انہیں سنٹرل جیل بارہمولہ میں پابند سلاسل کردیاگیا۔ تقریباً چھ ماہ کے بعد شہید محترم کو رہا کیا گیا لیکن باطل کی نظروں میں وہ ہمیشہ ایک کانٹے کی طرح کھٹکتے رہے، اور ۹مارچ ۱۹۹۷ ء کومنحرف بندوق برداروں نے رات کی تاریکی میں ان کو گھر سے اغوا کر لیا اور کٹی بگ راون پورہ کے راستے پر ان کے جسم کو گولیوں سے چھلنی کر کے انہیں شہید کر دیا۔

رات کی ظلمتوں سے جس نئی صبح نے جنم لیا، وہ کوئی معمولی صبح نہ تھی۔ یہ وہ دن تھا جب ہر دل عزیز شہید سلام صاحب کی شہادت کی خبر پورے تحصیل میں جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی اور لوگوں نے جوق در جوق ان کے آبائی گاؤں کی طرف پیش قدمی شروع کی۔ ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں شہید سلام صاحب کو پرنم آنکھوں کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ پورے تحصیل میں یاس و الم کا عالم برپا تھا۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہ تھی۔ جو شخص ظلم و جور سے ٹکرائے، دین کے صحیح مفہوم کو عام کرے اور حالات سے لڑے اس کی موت تو ایسے ہی انوکھے، خوفناک اور انتہائی دردناک صورت میں آنی چاہیے۔ اس طرح سلام صاحب تحریک اسلامی سے وابستگان کو ہمیشہ کے لیے داغِ مفارقت دے گئے۔ ان کی پوری زندگی جدوجہد سے مالامال تھی۔ شہادت کے وقت انہوں نے اہلیہ کے علاوہ چار بیٹیاں اور ایک اکلوتا بیٹا اپنے پیچھے چھوڑ دیا۔ چاروں بیٹیوں کی شادی خانہ آبادی ہوئی ہے۔ بیٹا ہوش سنبھالتے ہی مسلح جدوجہد میں شامل ہوگیا تھا اورگوشہ بُگ پٹن کے مقام پر سال ۲۰۰۳ء میں اپنی عزیز جان کا نذرانہ پیش کر کے جام شہادت نوش کرگیا۔ اس طرح آج شہید محترم کے گھر میں صرف ان کی اہلیہ، ایک بیٹی اور خانہ نشین داماد ہیں۔

شہید سلام صاحب کی شہادت پر ذرا غور فرمائیں۔ جس رات کو شہید کی بےگور و کفن لاش ان کے آبائی گاؤں کے باہر چورا ہے پر پڑی رہی، اس گاؤں کے باشندوں کا کہنا ہے کہ جب ہم میں سے کچھ لوگ صبح سویرے وہاں سے گزرے تو کیا دیکھتے ہیں کہ محترم لاش سے تھوڑا ہٹ کر گاؤں کے کتے لاش کے چاروں طرف گھیراؤ کر کے رات بھر اس کی حفاظت کرتے رہے ہیں۔ جب کتوں نے باشندوں کو دیکھا تو سارے کے سارے اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کر بستی کی طرف لوٹ گئے۔

نوے کی دہائی کی ابتدا میں تحریک اسلامی سے وابستگان کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں قتل و غارت، ظلم و تشدد، محاصرہ، آتش زنی اور گرفتاریاں روز کا معمول بن گیا تھا۔ تحریک اسلامی روز اول سے ہی دشمنوں کی نگاہ میں کھٹکتی رہی ہے۔ اسی دن سے اس کے سادہ دل جا ں نثاروں اور حق کے علمبرداروں پر آلام و مصائب کے پہاڑ توڑے گئے۔ تحریک اسلامی سے وابستگان نے اپنے خونِ جگر سے اس گلشن کو سیراب کیا اور حق کے میدان کو ہموار کیا۔ جیل کی سلاخوں میں بھی رہے، بدنوں کو لہولہاں بھی کیا گیا، بندوقوں کے نشانے پر بھی رہے اور مختلف وقتوں پر سنگ دل حکمرانوں نے جماعت سے وابستگان پر ظلم کی انتہا کر دی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شہید سلام صاحب کے ساتھ اپنے تحریکی سفر کی کہانی سناتے ہوئے راقم کے والد محترم نے کہا کہ ’اِس گھر کو آگ لگی اپنے ہی چراغ سے‘ کے مصداق ایک دفعہ ناظم تحصیل ٹنگمرگ شہید سلام صاحب، محترم جبار صاحب گوکہامہ، محترم محمد یاسین شیخ پورہ محترم غلام احمد میر اوچلی پورہ اور والد صاحب کو اُس وقت کی ایک نام نہاد جہادی تنظیم نے اغوا کر لیا اور اپنے ٹھکانے میں یرغمال بنایا۔ انتہائی ذہنی ٹارچر کرتے ہوئے بندوق برداروں نے اپنے ایک ساتھی جس کو کوئی عسکری تنظیم اغوا کر کے لے گئی تھی کو چھڑانے میں مدد کرنے کی فرمائش کی۔ چنانچہ شہید سلام صاحب اور دیگر ساتھیوں نے اس سلسلے میں اپنی کسی عسکری تنظیم سے وابستگی کو خارج کرتے اور نکارتے ہوئے معذوری ظاہر کی۔ لیکن انسان دوستی اور مذہبی رابطہ استعمال کرنے کی شہید محترم نے یقین دہانی کی۔ اس پر وہ راضی ہوئے اور یوں پانچوں مردانِ حق شنا س کو گوکہامہ کنزر پہنچا کر محترم جبار صاحب کے والد محترم کے حوالے کر دیا۔ شہید سلام صاحب نے اپنی زندگی اسلام کی سربلندی کے لیے قربان کردی۔وہ ان خوش بخت انسانوں میں شامل تھے جو رب کی دھرتی پر رب کا نظام دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ نے تحریک اسلامی کی دعوت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا ۔ حق تعالیٰ ان کی تحریک کے تئیں خدمات کو شرفِ قبولیت بخشے، ان کی شہادت قبول فرمائے اور انہیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس عطا فرمائے۔ یہ مرد درویش عظمت کا نشان اور عظیمت کا کوہِ گراں تھا۔

Facebook Comments

اشفاق پرواز
اشفاق پرواز معروف کتاب "تعمیر معاشرہ اور اسلام " کے مصنف ہیں ۔ آپ مقبوضہ کشمیر کے جواں سال قلم کار ہیں۔ ۔سال ٢٠١٢ سے لکھ رہیں۔ آپ کے مضامین برصغیر ہند و پاک کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔ درس و تدریس کے ساتھ منسلک ہیں۔ ان کی تحاریر اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ اردو ان کا وضیفہ حیات ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply