ہمارے ہی خداؤں کے خونی رنگ ۔۔۔نذر محمد چوہان

قرآن پاک میں رب تعالی فرماتے ہیں کے میں نے تم کو قبائل میں پیدا کیا تاکہ شناخت رہے ۔ Yale کی قانون کی پروفیسر ایمی چاوؤ آج کل امریکہ میں اپنے قبائلی دنیا کے بیانیہ کی وجہ سے بہت مقبول ہے ۔ چاؤو کے نزدیک نہ دنیا ڈیجیٹل ہے نہ سرمایادارانہ اور نہ ہی جمہوری یا کیمونسٹ بلکہ دنیا قبائیلی ہے ۔ حضرت محمد ص نے بھی قبائل کے  ذریعے ترقی ، تمدن اور تہذیب کا بیانیہ پیش کیا ۔ ہمیں قبائل میں رہ کر ہی ابھرنا ہے ، زندگی گزارنی ہے اور پیار اور محبت کی شمعیں جلانی ہیں ۔

تمام مذاہب ایک خدا کی بات کرتے ہیں ۔ ہندو مذہب بھی ایک خدا سے شروع ہوا اور پھر پنڈت کی بھینٹ چڑھ کر نہ صرف ہزاروں خدا بنے بلکہ ذات پات کا نظام بھی برپا کیا گیا ۔ اس ذات پات والے نظام کو قبائیلی نظام بالکل نہ سمجھا جائے ۔ قبائلی نظام میں تو تمام قبائل ریاست کے معاملات میں مساوی حقوق رکھتے تھے جبکہ ہندو طبقاتی نظام تو خداؤں کی تقسیم ہے حکمرانی کے لیے ۔ عیسائیت میں بھی کالے گورے کا مسئلہ کھڑا کیا گیا ۔
آج ۲۱ صدی میں تقسیم پیسہ اور مال و دولت کی بنیادوں پر ہے ۔ آج پیسہ خدا ہے اور اب قومیت جو اسی کے ساتھ نتھی کر دی گئی ہے ۔ ریاستوں نے سوچا کہ  اب قومیت کی بنیاد پر باقی لوگوں کو دفع  دور کیا جائے جو دراصل پیسہ اور مادہ پرستی کا کھیل ہے ۔

حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ کے کالمنسٹ جمال خاشگوچگی کے سعودی قونصلیٹ استنبول میں ٹکرے ٹکرے کر دیے گئے جب کہ  اس کی منگیتر رات گئے تک اپنے ہونے والے شوہر کا انتظار کرتی رہی ۔ اس قتل کا خدا سعودی شہزادہ محمد بن سلمان تھا۔
سکندر اعظم خدا بنا ، چنگیز نے خدائی کے چکر میں لاکھوں لوگوں کا قتل کیا اور تیمور نے تو کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کر دیے ۔ یہ آخر ماجرا کیا ہے ۔ کیوں ایسا ہو رہا ہے ؟

اصل خدا تو ایک ہی ہے ۔ اور وہ تو خالق ہے وہ کیسے اپنی مخلوق کی جان لے سکتا ہے ؟ میں جب سندھ کے ضلع ٹھٹھہ میں اسسٹنٹ کمشنر تھا تو ڈپٹی کمشنر کا نائب قاصد اسے خدا کہتا تھا ۔ میں اس سے وجہ پوچھتا تھا تو وہ بتاتا تھا کہ  اصل خدا تو اوپر ہی ہے صاحب ، کیا ہے ، ہمارے نیچے کے معاملات یہ خدا سنبھالتا ہے ۔ یہی رزق دیتا ہے یہی زندگی موت کا فیصلہ کرتا ہے ۔ میں اسے یہ کہتا تھا کہ  بابا یہ سب اس لیے کہ  تم اسے یہ سب کچھ کرنے دیتے ہو لہٰذا یہ کرتا رہے گا وگرنہ یہ ساری طاقت اصل ایک خدا کے پاس ہے جو تمہارا خالق بھی ہے اور ذمہ دار بھی ۔ اور وہ تو تمہارے اندر بستا ہے ۔

پاکستان میں مجھے پڑھے لکھے ڈاکٹر نے ایک دفعہ کہا کہ  میں بہت کمزور ہوں مجھ سے میرا خدا نہ چھینو ؟ میں نے کہا کون چھین سکتا ہے ۔ جناب آپ کی مرضی ہے جتنے مرضی خدا بنائیں ۔ جو مرضی کریں ۔ خدا ایک ہی ہے اور وہ ہر شخص کے اندر بستا ہے اور اس کی خدائی  پوری کائنات پر حاوی ہے ۔ اس کی مرضی کے بغیر ایک پتا نہیں ہلتا ۔

امام حسن کو جب کُوفہ والوں نے بُلا کو اکیلا کر دیا تو اس وقت یزید خدا تھا ۔ حسین نے کسی چیز کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس کی خدائی  ختم کر دی جیسے سقراط نے حسین سے کئی  سال پہلے زہر پی کر اور حسین کے بعد منصور اور سرمد نے ۔
دیکھا جائے تو معاملہ بہت ہی آسان ہے ۔

سوال یہ ہے کے ہم اتنے سستے بِک کیوں جاتے ہیں ؟ ایمان کی کمزوری یا طاقت اور دولت کا نشہ ۔ آج عمران خان بغیر سوچے سمجھے بیگ اُٹھا کرقاتل شہزادہ محمد بن سلیمان کے پاس بھیک مانگنے چلا گیا جب کہ  بڑے بڑے کارپوریٹ ورلڈ کے خدا اس سے بھاگ گئے ۔  ۔ لیکن ۲۲ کروڑ کا خدا تو وہ ایک ہی  ہے ، جو رحمان بھی ہے اور رحیم بھی ۔ انہوں نے تو آپ کو ووٹ ان کی امانتیں سنبھالنے کا دیا ۔ قرآن پاک میں رب تعالی فرماتے ہیں کہ  ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ۔ عمران جمال خاشگوچگی کا چالیسواں تو ہونے دیتا ۔ ابھی کل ہی تو سعودی حکومت نے مانا کہ  واقعی جمال زندہ نہیں ہے ۔ مارا گیا قونصلیٹ کے اندر ہاتھا پائی  کے دوران ۔

ان خداؤں سے ہمیں جان چھڑوانی ہو گی اگر ہم نے چین کی زندگیاں گزارنی ہیں ۔ یہ عمرانی معاہدہ نہیں ہے بلکہ ان کا خدائی  کا دعویٰ  ہے جو ہمیں بدلنا ہو گا ۔  کو اپنے تابع لانا ہو گا وگرنہ یہ ہم سب  ایسے خداؤں کو ماننے والے  جمال ، ڈینیل اور شہزاد سلیم کی طرح قتل کر دیں گے ۔ یا ان کی خدائی کو نیست و نابود کر دیں یا پھر اپنی باری کا انتظار کریں ۔ سحر محمود لکھتے ہیں ۔
ہم قتل کب ہوئے یہ پتا ہی نہیں چلا
انداز تھا عجب کہ وہ خنجر عجیب تھا

Advertisements
julia rana solicitors london

جیتے رہیں ۔ خوش رہیں ۔ اللہ نگہبان

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply