پیرس اور بیگم…!

میٹرک کے دوران تارڑ صاحب کا شاہکار “پیار کا پہلا شہر” پڑھا تو کئی ہفتوں تک آئفل ٹاور، دریائے سین اور اُن کے دامن و سائے میں زندگی سے لبریز کئی محبت کرنے والوں کے عہد و پیمان اور خدشات بھری سرگوشیاں سُنائی دیتی رہیں۔ یورپ آمد کے بعد خود کو “سنان” سمجهتے ہوئے پاسکل کی تلاش میں کئی مرتبہ پیرس یاترائیں کیں، لیکن کبهی لنگڑی لولی تو کیا کوئی اَندهی بهی نہ مِلی۔ اب کی مرتبه علامہ مرحوم کا مصرعہ “اپنی پاسکل آپ پیدا کر، گر زندوں میں ہے” سامنے رکها، چھوہارے پڑهوائے اور پیار کا هاتھ پکڑ کر “پیار کے پہلے شہر” کی طرف عازمِ سفر ہوا..!

وجہ کُچھ یوں بَنی کہ گُذشتہ چار ماه سے خاتونِ خانہ کی “پیرس، پیرس” کی ضد کو میں میاں صاحب بن کر اپوزیشن کے TORs کی طرح لٹکائے ہوئے تها کہ پیرس، وه بهی بیگم کیساتھ؟ پِچهلے دوروں کی ساری حسین یادیں تو تیل ہی ہو جانی ہیں مگر وه بهی نِکلیں PTI کی سابقہ همدرد اور جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں “انصافیوں” کا جوش و جزبہ بلا کا هوتا ہے۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن، تو گُذشتہ ہفتے ہتھیار ڈالے اور حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے سوئٹزرلینڈ کے فَلک بوس پہاڑوں سے بذریعہ “فِلکس بس” نیچے اُترے، اور بیگم کا ہاتھ تهامے فرانس کے سبزه زار میدانوں کی طرف روانہ ہوئے..!

پیرس …. شمال وسطی فرانس میں دریائے سین کے کنارے واقع ایک ایسا دارالحکومت ہے جو بلحاظ آبادی (22,29621) ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اور جس کی انتظامی سرحدیں 1860ء سے تبدیل نہیں ہوئیں۔ یہاں جہاں ایک طرف نیلی، بهوری، کتهئی نینوں اور سُنہری زُلفوں والی حسینائیں آپکی توجہ اپنی طرف کهینچتی ہیں، وہیں دِلفریب صُبحائیں، پُر رونق شامیں، جدید و قدیم کا حسین امتزاج لیئے مرکزِ شہر میں موجود تاریخی عمارتیں آپ کو سحر زده کر دیتی ہیں. لوورے میوزیم، ایفل ٹاور، شانزے لیزے، آرک ڈی ٹرمپ (طاقِ فتح)، نوٹرے ڈیم کیتهڈرل، کنکورڈ ٹاور اسمبلی هال، یا بَسلیکا آف اَسکیئرڈ ہارٹ( رومن کیتهولک چرچ) ان سب کے ساتھ ساتھ دریائے سِین میں ڈولتی ناؤ اور دریا کے اوپر، تالوں سے وزنی ہوتے پُل؛ دو کلو میٹر قطر (یہ قطری شہزادےوالا قطر نہیں) کے دائرے میں محیط شاید ہی کوئی دوسرا مرکزِ شہر سیّاحوں کو اتنی ورائٹی مُہیا کرے.

تو چلیں شروع کرتے ہیں اپنا سفر یو فون کے کهمبے سے… ( ایفل ٹاور “تُمهی تو ہو”)

ایفل ٹاور سالانہ 344 ارب برٹش پاؤنڈز (435 یوروز) کی آمدنی فراہم کر رہا ہے۔ ﯾﮧ ﭘﯿﺮﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﯾﺎﺋﮯ ﺳﯿﻦ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﮯ۔ ﺍﺳﮑﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﺳﮑﻮ ﮈﯾﺰﺍﺋﻦﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮔﺴﺘﺎﻑ ﺍﯾﻔﻞ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ﯾﮧ ﺍﯾﻔﻞ ﻭﮨﯽ ﺍٓﺩﻣﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻧﯿﻮﯾﺎﺭﮎ ﮐﮯﻣﺠﺴﻤﮧ ﺍٓﺯﺍﺩﯼ ﮐﯽ ﺗﮑﻤﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﯾﮉﺭﮎ ﺍﮔﺴﭧﺑﺎﺭﺗﮫ ﻟﮉﯼ ﮐﯽ ﻣﺪﺩﮐﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮈﯾﺰﺍﺋﻦ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻟﻮﮨﮯ ﮐﯽ ﺍﺱ ﻓﻠﮏ ﺑﻮﺱ ﻋﻤﺎﺭﺕ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﻣﯿﮟ7300 ﭨﻦ ﻟﻮﮨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﭩﯿﻞ ﺻﺮﻑ ﮨﻮﺍ۔ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩﻭﮞ ﻣﯿﮟ 40 ﻓﭧ ﺗﮏ ﭘﺘﮭﺮ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮨﺎ ﺑﮭﺮﺍ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ 12 ﮨﺰﺍﺭ ﻟﻮﮨﮯ ﮐﮯ ﺷﮩﺘﯿﺮ ﮐﺎﻡ ﻣﯿﮟﻻﺋﮯ ﮔﺌﮯ۔ ﯾﮧ ﭼﺎﺭ ﺷﮩﺘﯿﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﮯ۔ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ 279 ﻣﺮﺑﻊ ﻓﭧ ﺭﻗﺒﮧ ﮔﮭﯿﺮﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﻃﺮﻑ ﺳﺘﻮﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺍﯾﮏ ﻣﺤﺮﺍﺏ ﺑﻨﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ۔ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺗﯿﻦ ﭘﻠﯿﭧ ﻓﺎﺭﻡ ﮨﯿﮟ۔ ﭘﮩﻼ ﭘﻠﯿﭧ ﻓﺎﺭﻡ 189 ﻓﭧ، ﺩﻭﺳﺮﺍ 380 ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺴﺮﺍ ﺳﻄﺢ ﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯ 906 ﻓﭧ ﺑﻠﻨﺪ ﮨﮯ۔ ﺱ ﮐﯽ ﭼﻮﭨﯽ ﭘﺮ ﻣﻮﺳﻤﯿﺎﺗﯽ ﺭﺳﺪﮔﺎﮦ ﺍﻭﺭ ﺭﯾﮉﯾﻮ ﭨﯿﻠﯽ ﻭﯾﮋﻥ ﮐﮯ ﺍﻧﭩﯿﻨﮯ ﻧﺼﺐ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺳﮯ 1889ﺀ ﻣﯿﮟ ﻣﮑﻤﻞ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ۔ ﯾﮧ ﺟﺐ ﺳﮯ ﺑﻨﺎ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ 200،000،000 ﺳﮯ ﺯﺍﺋﺪ ﻟﻮﮒ ﺩﯾﮑﮫ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﺤﺎﻅ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﮨﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﻳﺎﺩﮦ ﺳﯿﺎﺡ ﺁﭼﮑﮯ ﮨﻴﮟ۔ﺍﺱ ﻣﯿﮟ 1660 ﺳﯿﮍﮬﯿﺎﮞ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮱ ﻟﻔﭧ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ۔ 9 یورو (پاکستانی تقریبََا 1000 ) کا ٹکٹ لینے پر یہ لفٹ آپکوایفل ٹاورکے اوپر لے جائے گی. آن لائن ٹکٹ لے کر آپ اپنے ایک سے دو گهنٹے اور لائن میں کهڑے هونے کی خفت سے بچ سکتے ہیں. 320 ﻣﯿﭩﺮ ﺑﻠﻨﺪ ﺍﯾﻔﻞ ﭨﺎﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﯿﻤﺖ، ﺻﻼﺣﯿﺖ ﺍﻭﺭ ﺍٓﻣﺪﻧﯽ ﮐﮯ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻢ ﻋﺼﺮ ﻋﺎﻟﻤﯽ ﭨﺎﻭﺭﺯ ﺳﮯ ﮐﺌﯽ ﮔﻨﺎ ﺍٓﮔﮯ ﮨﮯ۔ ﭨﺎﻭﺭ ﮐﯽ ﺍٓﻣﺪﻧﯽ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﺍﺱ ﺍﻣﺮ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﭨﻠﯽ ﮐﯽ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﺳﯿﺎﺣﺘﯽ ﻋﻤﺎﺭﺕ “ﺍﻟﮑﻮﻟﯿﺰﯾﻮﻡ” ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﭻ ﮔﻨﺎ ﮐﻢ ﺍٓﻣﺪﻧﯽ ﻓﺮﺍﮨﻢ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﻟﮑﻮﻟﯿﺰﯾﻮﻡ ﮐﯽ ﺳﺎﻻﻧﮧ ﺍٓﻣﺪ ﺻﺮﻑ 72 ﺍﺭﺏ ﮈﺍﻟﺮﺯ ﮨﮯ۔ ﻓﺮﺍﻧﺲ ﮐﮯ ﺩﺭﺍﻟﺤﮑﻮﻣﺖ ﭘﯿﺮﺱ ﮐﮯ ﺷﻤﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﯾﺎﺋﮯ “ﺴﯿﻦ” ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﺱ ﺑﻠﻨﺪ ﺗﺮﯾﻦ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﮐﻮ ﻓﺮﺍﻧﺴﯿﺴﯽ ﻗﻮﻡ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﺰﺕ، ﺍﻓﺘﺨﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﺍٓﺯﺍﺩﯼ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﺎﺣﺘﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﯾﮩﯽ ﻭﺟﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﺳﮯ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ 80 ﻻﮐﮫ ﺳﯿﺎﺡ ﺍﯾﻔﻞ ﭨﺎﻭﺭ ﮐﯽ ﺳﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﯾﻔﻞ ﭨﺎﻭﺭ ﺍﻧﻘﻼﺏ ﻓﺮﺍﻧﺲ ﮐﯽ 100 ﺳﺎﻟﮧ ﺗﻘﺎﺭﯾﺐ ﮐﮯ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻧﻤﺎﺋﺶ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ (عددی معلومات ویکیپیڈیا سے لی گئیں ہیں)

کہتے ہیں کے اِک جنوب ایشیائی مُلک سے دو لوهار برادران ایفل ٹاور پر گئے تو “نِکّے بهاه” نے تهوڑی هاتھ پر جماتے، انگشتِ شہادت سے گال تهپتهپاتے ہوئے “وَڈّے بهاه” سے فرمایا… “بهاه میٹرو”۔
وَڈِّے بهاه اپنی مخصوص کشمیری مُسکراهٹ کیساتھ اسٹائل میں بولے Cooooll۔ اتنے میں فرانسیسی وزیرِ خارجہ نے دونوں بهائیوں کی نیت کو بهانپتے ہوئے کان سے پکڑ کر گاڑی میں بِٹها دیا….! (دروغ بَہ گردنِ راوی، وہ راوی جو خشک ہو گیا ہے)

میٹرو سے یاد آیا، پیرس گهومنے کا سب سے سستا، اچها اور تیز رفتار طریقہ میٹرو ہی ہے، جسکا زِیرِزمین جال پورے شہر میں پهیلا ہوا ہے۔ اگر آپ پہلی مرتبہ پیرس آئے ہیں تو کسی بهی انفارمیشن آفس سے زمین دوز میٹرو کا نقشہ لیں اور دس پندره منٹ اس پر لگانے اور ایک دو مرتبہ کے غلط اُتار چڑهاؤ کے بعد آپ پرفیکٹ ہو جائیں گے. ویسے تو آپ 14 یورو میں ڈے کارڈ بهی لے سکتے ہیں جو مڈ نائٹ سے مڈ نائٹ 24گهنٹے کیلیئے هوتا هے پر اگر آپ لنڈورے (سنگل، کنواره نہیں لکھ سکتا) ہیں اور پیدل چلنے میں کوئی دُشواری محسوس نہیں کرتے،تو زیاده تر مقامات ایسے ہی نمپٹا سکتے ہیں.

ایفل ٹاور سے آٹھ سو میٹر دور، دس منٹ واک (بیگم کے بغیر) پر دریائے سین کے دوسری طرف ہی پیرس کی مشہور شاهراه “شانزے لیزے” واقع ہے، جو آرک ڈی ٹرمپ (طاقِ فتح) سے اسمبلی هال تک جاتی ہے. ا س شاهراه کے اطراف میں بنی تاریخی عمارتوں میں دنیا کے تمام مشہور برانڈز کے آؤٹ لیٹ، گاڑیوں کے شو روم اور ملٹی نیشنل کمپنیز کے دفاتر بنے ہوئے ہیں، شانزے لیزے کا شمار پیرس کی مہنگی ترین جگہوں میں ہوتا ہے. قطر کے بعد پاکستان واحد ایشیائی مُلک ہے جسکا سفارت خانہ شانزے لیزے پہ موجود ہے (اہل فکر کیلیے غور طلب بات ہے) اور سفارت خانے کی اس مہنگی ترین عمارت پر گُزشتہ ادوار کے کئی جمہوری اور غیر جمہوری حُکمرانوں کی رالیں ٹپکتی رہیں ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors

شانزے لیزے کے دوسرے سِرے پر سَدا بہار مُسکراهٹ بَکهیرنے والی “مونا لیزا” اِک تکونی شیش محل میں میں براجمان ہے. “لاروے”، دُنیا کا سب سے بڑا میوزیم…! جہاں مونا لیزا، وینس ڈی میلانو سمیت ۳۵۰۰۰ هزار آرٹ کے نمونے دیکهنے سے تعلق رکهتے ہیں. اگر آپ کے پاس 5 گهنٹے سے کم وقت هے تو پهر اندر داخل نہ ہوں. لاورے میوزیم سے کُچھ ہی فاصلے پر نوٹرےڈیم کیتهڈرل ہے، وہ ہی “هنچبیک آف نوٹریڈم” والا کیتهڈرل…. کمال کی عمارت ہے.
اگر آپ پورے پیرس کو اپنے قدموں میں بچھا هوا دیکهناچاهتے هیں تو اُس کیلیئے صرف ایک ہی جگہ ہے، “بَسلیکا آف اَسکیئرڈ ہارٹ( رومن کیتهولک چرچ)”، پیرس کا سب سے اونچا مقام . بَسلیکا سے بیٹھ کر پیرس کا منظر آپ بتا نہیں سکتے صرف محسوس کر سکتے ہیں.
تو مجهے آپ یہیں بیٹھا رہنے دیں، مِلتے ہیں اگلی قسط میں

Facebook Comments

محمد ثاقب عباسی
کسی بچے کے کھلونے جیسا, میرا ہونا بھی نہ ہونے جیسا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”پیرس اور بیگم…!

  1. مصروفیت کی وجہ سے مطالعہ کا وقت بہت مشکل سے ملتا تھا ۔مکالمہ نے یہ مشکل آسان بنا دی کہ آفس میں کام کرنے کے دوران دو چار منٹ سستانے کے لئے ہی سہی کچھ نا کچھ پرھنے کو مل جاتا تھا۔زیر نظر مضمون میں برادرمحمدثاقب عباسی نے پیرس کا جو نقشہ کھینچا ہے قاری خود بخود ایک تخیلاتی منظر کا حصہ بن جاتا ہے۔
    “فونٹ مکالمہ کا بہت خوب، عبارے بہت اچھی”
    اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

Leave a Reply