زبانوں کی باتیں۔ فہد احمد

زبان  جسے انگریزی میں لنگوئج ، ہسپانوی میں ، ادیوم ،  عربی میں لغت ، ترکی   میں دلی چینی میں “یواے ” برصغیر میں بولی اور فارسی میں “زبان ” کہتے ہیں۔یا پاکستان میں  اسے عام زبان میں بولی   کہ لیں یا     معذرت ، عام بولی میں زبان  کہہ لیجیئے۔چلیے لفظوں کی موشگافی سے آگے بڑھتے ہیں۔  زبان کا بنیادی مقصد رابطہ قائم کرنا اور رابطہ قائم رکھنا ہے ۔   زبانیں صدیوں میں وجود پاتی ہیں  محبت  رشتہ داری  ، تجارت و جنگوں سے فروغ پاتی ہیں۔  یہ انسانوں کے لیئے احساسات کے اظہار کا ذریعہ ہیں ۔رسول پاکﷺ  نے اپنے صحابہ کرام رض کو  عبرانی و دیگر زبانیں سیکھنے کا حکم دیا،چین سے لیکر برصغیر انڈونیشیا تک اسلام کی ترویج میں ایک بڑا کردار زبان دانی سے واقف تاجر صحابہ و متاخرین کا تھا ، جنہوں نے عالمی سیاست و معیشت کا نقشہ بدل دیا۔ہر ملک ہر قوم اپنی علاقائی زبان سے محبت کرتی ہے ۔  بعض زبانیں  اپنے اسلوب ،چاشنی ، وسعت   الفاظ ، یا مقتدر حلقوں کی پسند و نا پسند یا  ضرورت کے لحاظ سے  دوسری زبانوں پہ سبقت لے جاتی ہیں ۔ اور  کچھ وقت کے ساتھ معدوم ہو جاتی ہیں۔قیام پاکستان سے ہی ہم نے زبان کے معاملے پہ توجہ نہیں دی ۔نہ ہم اردو کو وہ جائز مقام دلانے میں کامیاب ہو سکے  جو متحدہ  پاکستان میں  ناگزیر تھا نہ اس  کے بعد اس ضمن  میں سنجیدہ کوششیں کی گئیں ۔

مقتدر حلقے  جب جس زبان  بولنے والے علاقے سے آئے دیگر زبانوں کو روندتے ہوے اپنی زبان کو ترجیح پہ رکھا۔ رہی سہی کسر  انگریزی زبان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے پوری ہو گی۔    انگریزی جسے ایک زبان کی طرح  پڑھایا جانا تھا اسے  نصاب لازم  و ثقافت  قوم حاکم  کی طرح ہم محکوم دماغوں کو پڑھایا گیا۔جس کے نتیجے میں بیک وقت ہم مقامی زبانوں ،  اردو اور انگریزی  کا ایک  شوربہ بنانے  میں کامیاب ہوے  ۔ یعنی گھر میں مقامی زبان ، سکول میں  اردو و انگریزی اور عملی زندگی میں کسی ایک پہ بھی مکمل  دسترس سے محروم۔

خیر  ! مضمون کا اصل مقصد پاکستان میں اردو و مقامی زبانوں کی اہمیت  سے متعلق ہے ۔بر صغیر زبانوں کی کثرت کے لحاظ سے دنیا کا ذرخیز ترین حصہ ہے  ۔ جس کا سب سے بڑا نقصان علاقوں کے ایک  ہی ملک میں ہونے کے با وجود ایک دوسرے کی ثقافت رسوم و رواج  و فطرت کو سمجھنے کی ناکامی ہے ۔ اور لوگوں کا اپنے ہی ملک کے دیگر علاقوں سے نا واقف ہونا ہے۔  سندھ کے دیہات  میں  موجود  سندھی پشتو سے اتنا ہی نا واقف ہے ۔جتنا  خیبر  میں موجود پشتون  بچہ  بلوچی سے بلوچی  شینا سے شینا سرائیکی سے سرائیکی بلتی سے اور بلتی پنجابی سے  اسی  طرح کم و بیش  بیس سے زائد زبانیں(ممکن ہے اس سے زیادہ ہیں جن سے فی الوقت آگاہ نہیں ،  پیشگی معافی مانگتا ہوں تمام  قارئین سے)  جو پاکستان  میں بولی جاتی ہیں۔ ہم ایک ملک رابطے کی ایک زبان ہونے کے با وجود ایک دوسرے  کے کلچر سے نا واقف ہیں جس کا فائدہ نفرت انگیز و شر پسند عناصر اٹھاتے ہیں اور عوام کے دلوں میں بد گمانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ کسی بڑی تحریک کے جڑ پکڑنے اور میڈیا پہ  آنے تک نقصان ہو چکا ہوتا ہے کیوں کہ پراپیگنڈہ کے اس دور میں  جب تک حقائق  کا پتہ چلتا ہے معاملات خراب ہو چکے ہوتے ہیں اور تصدیق و تردید کرنے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس موجود نہیں ہوتا۔   عام عوام اپنی  پریشانی و شکایات کا اظہار ملک کے دیگر   حصوں تک نہیں  کر سکتی۔  اور  حکمران بھی ان سے لا علم رہتے ہیں۔

جس کی درد ناک ترین مثال بنگلہ دیش سے شروع ہو کر بلوچستان و سندھو دیش  سے پشتون تحریکوں ، کراچی کے اردو  بولنے والوں سے  سرائیکی مسائل سے پنجابی قوم پرستی  و  ہزارہ تک پہنچی۔  جن میں سب سے بڑا عمل دور دراز علاقوں کی عوام کا ایک دوسرے کی زبان و ثقافت سے آگاہ نہ ہونا ہے ۔ جہاں یہ مسئلہ ملکی  اتحاد کو دیمک کی طرح چا ٹ رہا ہے ۔ وہیں اسکا ایک اور پہلو بھی ہے۔ دوسرا پہلو  بیک وقت شدت پسندی و اپنی روایات سے  نا بلد خوفناک  مغربیت کا پھیلنا ہے۔زبانیں کسی بھی علاقے کی ثقافت  اقدار ، تاریخ   و لوک ورثے کی امین ہوتی ہیں ۔  ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ اسکا ماحول اسکا  ، وسیب ،  اسکے اولین استاد ہوتے ہیں۔    ہماری مقامی ثقافتیں بچوں کو پیدائش کے ساتھ ہی  محبت امن بھائی چارے  ملک سے محبت،  بزرگوں کے احترام ، خواتین کی عزت بھایوں خاندانوں میں اتحاد کا درس دیتی ہیں۔

مروجہ  نظام  تعلیم  و اپنے ملک کی مختلف ثقافتوں  و اپنی ہی زبانوں سے نا واقفیت نے جہاں  ایک ہی وقت میں مذہبی شدت پسندی کو پیدا کیا وہی  دوسری طرف سیاسی  و   اخلاقی پستی میں بھی دھکیلا ہے ۔ ہم تقسیم در  تقسیم ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ ایسی صورت میں  واحد حل نوجوان نسل کے لیئے ایک ایسے درسی نصاب کی تیاری ہے  جو  ملکی ثقافت زبانوں اور  پر امن ، محبت بانٹنے والے روایات  کا امین ہو اور پہلی جماعت سے  بچوں کو اپنے ہم وطنوں اپنی تاریخ اپنی زمین اپنی قوم اپنے مذہب اپنے ملک اپنی اخلاقیات سے قریب رکھے۔      میں یہاں پہ برابر شکوہ کرنا چاہتا ہوں  ساتھ ایک دردمند اپیل بھی  اپنے ہم وطن قوم پرست  تنظیموں کی اکثریت سے ۔ جو  مقامی زبانوں کی ترویج کے نام پہ   اپنے ہی ہم وطنوں میں نفرت کے جذبے ابھار رہی ہیں۔ قوم کے تصور کو جو ملک جیسی وسعت رکھتا ہے گھٹا کر چند ضلعوں تک کی الگ قومیتیں  بنا رہی ہیں۔ میں زبان کی بنا پہ قومیت  بنانے اور دیگر زبانوں کو دیگر قومیں قرار دے کر ان سے نفرت کا درس دینے سے  سخت اختلاف کرتا ہوں ۔ ہم سب پاکستانی ہیں ،  پاکستان کی ہر زبان ہماری ہے ۔ ہر شہری ہمارا ہے ۔   وہ تنظیمیں  جو زبان  کے نام پہ نفرت  احساس کمتری و احساس برتری پیدا کر رہی ہے ، بھائیوں کو بھائیوں سے لڑا رہی ہیں۔ خدارا ، زبانیں تعلق جوڑنے اور محبت پھیلانے کا نام ہے ، اس نفرت کی سودے بازی  کو بند کیجیئے ،  زبانیں انسانوں کو جوڑنے کے لیئے ہیں توڑنے کے لیئے نہیں۔ ایک دوسرے کی زبان سے محبت و عزت  کیجیئے  ،  ایک دوسرے  کی ثقافت کو سمجھیے۔  اپنی زبان کو حاکم و  برتر و دوسری زبان کو کمتر و اس کے وجود سے انکار ی مت ہوں۔

ایسے صورت حال میں  مسئلے کا حل  میری نظر میں درج ذیل ہے

1.انگریزی کو  لازمی مضمون کی حیثیت کی بجائے  کے حساب سے پڑھایا جاے ( Language Study ) ایک زبان یا  اور  اسی لحاظ سے رفتا رفتا نصاب میں تبدیلی کی جائے  کہ سمجھنا اآسان ہو۔

2۔اردو کو ابتدائی جماعتوں سے ہی  عالمی معیار کے  اصولوں کے تحت سمھایا پڑھایا جائے اور مشکل انگریزی اصطلاحات و روز مرہ استعمال کے لیئے  متبادل ترکی، فارسی، عربی  اصطلاحات  بھی متعارف کرائی جائیں ، اردو کو دفتری  و سرکاری  و تعلیمی زبان کا درجہ دے کر بڑے پیمانے پہ عالمی کتب کے تراجم اردو میں کیے جائیں۔

3-سب سے اہم اور مندرجہ بالا نکات کے ساتھ ،  مقامی زبانوں  کی تہذیب کے تحفظ  و ہم آہنگی کے لیئے ہر  صوبے بشمول کشمیر و گلگت بلتستان  میں دو زبانیں اضافی  پڑھائی جائیں۔ ہر صوبے میں علاقائی زبانوں کی کثرت ہے ، ہر گروہ اپنی زبان کے صوبے  میں نفاذ کا خواہاں ہے ۔ اس کی بجائے اس صوبے کی مقامی زبانوں میں سے ایک کو    چننے کا اختیار دے کر لازمی قرار دیا جائے ،  ساتھ ہی پاکستان کی ایک دیگر صوبے یا کشمیر و گلگت کی ایک زبان   چننے کا   مکمل اختیار دیا جائے ۔  اور یہ دو زبانیں  لازمی پڑھائی جائیں۔ زبانوں کے ساتھ  ان علاقوں کی ثقافت   و مذہبی اقدار سے آگاہ کیا جائے۔

4-پرائمری میں پہلے پانچ سال صوبائی زبانیں سیکھنے کا  مضمون شامل کیا جائے ،  جس کے امتیازی نمبر سہی مگر بچوں کو کم از کم ایک زبان چاہے وہ انکی مادری ہو یا انکے ہی صوبے کی دیگر زبان سے  اگاہی و سیکھنے   پہ قائل کیا جائے  ۔

5-ماڈل و میٹرک تک ایک زبان دوسرے صوبے کی چننا لازمی قرار دیا جائے ۔ اور    یاB1عالمی معیار کے مطابق کم از کم  میٹرک میں  لازمی قرار دی جائے ۔ A2ایف ایس سی اور گریجوایشن میں ملکی زبان چاہے مقامی صوبے یا  دوسرے صوبے کی زبان    لازمی  مضمون  کے طور پہ پڑھائی جائے ۔

6-گریجوایشن تک طلباء کو اردو انگلش پہ  بطور زبان مکمل عبور اور   دو صوبائی زبانوں پہ قابل کلام و روز  مرہ گفتگو و معاملات کے قابل بنایا جائے ۔

7-او لیول اے لیول کی طرح ،لسانیات و مقامی و بین الاقوامی زبانوں کے لیئے ایک پروگرام ترتیب دیا جائے ، جس میں طالب علم مقامی و بین الاقوامی زبانوں یعنی  انگریزی ،  عربی ، ترکی ، فارسی ، روسی ، چینی ،  فرانسیسی ، ہسپانوی جرمن ، ڈچ ، ملائیشین و انڈونیشن ، بنگالی زبانوں میں  ماسٹرز کرنے کا موقع ملے ۔ ایسا طالب علم مقامی زبانوں کا بھی ماہر ہو گا اور ایک یا دو  بین الاقوامی زبانوں کا بھی ۔ جہاں ملک و بیرون ملک روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے وہیں سیاحت کو بھی فروغ ملے گا ۔

8-نئی نوکریاں پیدا ہوں گی۔ گریجوایشن و ماسٹرز کر چکے طلباء کے لیئے بی ایڈ  طرز کے دو سالہ پروگرام  شروع کیے جایں تا کہ  وہ اپنے ہی مقامی زبان  B.Ed سمیت دوسرے کم از کم دو صوبوں کی زبانوں  سمیت انگریزی  و طریقہ تدریس پہ عبور حاصل کریں اور انہیں مختلف صوبوں میں نوکریاں دی جایئں بطور اساتذہ ۔

9-مقامی و بین الاقوامی زبانوں کی تعلیم غیر ملکی طلباء کے آنے کا راستہ بھی ہموار کرے گی جو ملک میں امن کے ساتھ زر مبادلہ و بین الاقوامی سافٹ امیج کا باعث بنے گا۔

مندرجہ بالا تجاویز  امید ہے  کہ ملک میں  جہاں  امن بھائی چارہ ہم آہنگی کو فروغ دیں گی وہیں صوبوں کے مابین کاروبار بڑھے گا اور اس کے ساتھ مقامی و سرکاری نوکریاں پیدا ہوں گی اور نفرتوں و غربت کا خاتمہ ہو گا۔عین ممکن ہے کہ اقتدار میں موجود محب وطن درد مند لوگ ان تجاویز میں بہتری کے ساتھ انکا نفاذ کر سکیں۔

میری یہ گزارش  ہے کہ اس پیغام کو  زیادہ سے زیادہ  ہم وطنوں تک پہنچائیں ،  اپنے الفاظ میں لکھیں، جو کر سکتے ہیں کریں اس معاملے کی حساسیت کو سمجھیں۔آپ فوری  طور پہ  ملک کی  انتہای کم شرح خواندگی کے ساتھ سب کو  تعلیم   و روزگار نہیں دے سکتے ، مگر اس طریقے سے  آپ  روزگار پیدا کرسکتے ہیں ۔اگر اپ میں سے ایک بھی آواز ایوان اقتدار تک پہنچ گئی  تو اپ  پیارے پاکستان میں امن خوشحالی و روزگار کا سبب ہوں گے  کروڑوں دلوں کو جوڑنے کا سبب  ہوں گے ۔    اگر اس مسئلے پہ اج غور نہ کیا گیا تو یہ وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں ہماری تہذیب سے ناآشنا ، کھوکھلا اور ایک دوسرے سے متنفر کر دے گا  آنے والے  چند سال میں ۔

اپنے ملک اپنے ہم وطنوں ، اپنی  قوم زبان اردو، اپنی علاقائی زبانوں سے اپنی تہذیب سے محبت کیجیے ۔

ؒاس پرچم کےسائے تلے ہم ایک ہیں

جدا جدا ہیں لہریں ساری سرگم  ایک ہیں

ہم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

ُپاکستان زندہ باد۔ پاکستانی  قوم پائندہ باد ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply