کے پی کے حکومت خواجہ سرائوں کو تحفظ فراہم کرے

کے پی کے حکومت خواجہ سرائوں کو تحفظ فراہم کرے
طاہر یاسین طاہر
ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں اس معاشرے کا ایک پہلو صنفی امتیاز بھی ہے اور یہ پہلو ہر لحاظ سے بہت گہرا ہے۔ہم لاکھ اپنی جدت پسندی اور ترقی کی مثالیں دیتے رہیں، یہ جدت و ترقی مگر ہمارے مزاج اور سماج کا حصہ البتہ ابھی تک نہیں بن پائی۔ہم نام نہاد غیرت اور نام نہاد سماجی روایات کے امین بنے ہوئے ہیں، یوں ہمارا ایک قدم جدت پسندی کے لیے بڑھتا ہے تو دو قدم ہم رجعتی مراد کے لیے اٹھاتے ہیں۔ آئے روز ہم اخبارات میں پڑھتے اور ٹی وی چینلز پر دیکھتے اورسنتے ہیں کہ غیرت کے نام پر عورتوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔یہ ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔قتل کی دیگر وجوھات بھی ہوتی ہے مگر ہم جس پہلو پہ بات کر رہے ہیں وہ سماج کا صنفی پہلو کے حوالے سے دوغلا اور منافقانہ رویہ ہے۔الزام آج بھی عورت کے سر آتا ہے اورجرگوں میں ونی بھی وہی ہوتی ہے تو کبھی اسے کاروکاری کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔یہ عورت ہی ہے جو اکثر نا کردہ گناہوں کی سزا بھی بھگتتی ہے۔سادلفظوں میں عورت بے چاری کو اپنے رشتہ داروں کے گناہوں کی سزا بھی دی جاتی ہے۔
بالکل اسی طرح خواجہ سرائوں کو بھی سماج میں کم تر، حقیر اور نفرت و جنسی ہوس کا حقدار سمجھا جاتا ہے۔جس طرح عورتوں اور بچوں کے حقوق کے لیے کئی تنظیمیں کام کرتی ہیں بالکل اسی طرح خواجہ سرائوں کے حقوق کے لیے بھی چند ایک تنظیمیں اور این جی اوز کام کر رہی ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا خواجہ سرائوں کو معاشرے کا،کار آمد فرد سمجھا جاتا ہے؟جہاں عورتیں غیرت کے نام پر شوہر،بھائی، باپ یا دیگر رشتہ داروں کے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں، وہاں خواجہ سرا،اپنے گرو،اور سماج کے جرائم پیشہ افراد کے استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ان بیچاروں سے باقاعدہ بھتہ بھی لیا جاتا ہے اور جنسی کام بھی۔خواجہ سرائوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی بعض تنظیموں نے ہوش ربا اعداد شمار اور تفصیلات جمع کی ہوئی ہیں، جو گاہے گاہے میڈیا کو جاری کی جاتی ہیں۔
ہماری اس تمہیدی گفتگو کا محرک یہ خبر ہے، جس کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں مسلح افراد نے ایک خواجہ سرا کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا ہے۔پولیس کے مطابق یہ واقعہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب نوشہرہ کلاں کے علاقے خیشگی میں پیش آیا۔نوشہرہ کلاں پولیس سٹیشن میں نوجوان خواجہ سرا سفید عرف عدنان کے والد ہارون رشید کی طرف سے درج کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کا بیٹا گذشتہ دو سالوں سے نوشہرہ کے دو باشندوں عامر اور عابد کے ہاں مقیم تھا۔ایف آئی آر کے مطابق گذشتہ رات ان کو اطلاع دی گئی کہ ان کے بیٹے کی لاش ہسپتال لائی گئی ہے جہاں پہنچ کر معلوم ہوا کے اسے تشدد کرکے مارا گیا ہے۔
پولیس نے خواجہ سرا کے والد کی نشاندہی پر دو افراد عامر اور عابد کو گرفتار کر کے ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ادھر پشاور میں خواجہ سرا تنظیم کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ 24 سالہ خواجہ سرا سفید عرف عدنان تقریباًتین سالوں سے مبینہ ملزمان عامر اور عابد کے ہمراہ مقیم تھا۔انھوں نے کہا کہ گذشتہ روز ان کے درمیان کسی بات پر تلخ کلامی ہوئی جس پر خواجہ سرا کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا۔پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق مقتول پر پہلے تشدد کیا گیا اور بعد میں اس کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔خواجہ سرا تنظیم کی طرف سے ذرائع ابلاغ کو مقتول کی چند تصاویر بھی جاری کی گئی ہیں جس میں اس کے چہرے پر وحشیانہ تشدد کے نشانات واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ چند مہینوں سے خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کے خلاف تشدد کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔تقریباً ایک ہفتہ قبل مردان میں بھی ایک خواجہ سرا کو فائرنگ کر کے مارا گیا تھا۔خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم بلیو وین کے سربراہ قمر نسیم کا کہنا ہے کہ صوبہ بھر میں رواں برس اب تک خواجہ سراؤں کے خلاف تشدد کے 120 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں انھوں نے کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ خواجہ سراؤں کے خلاف معاشرتی دباؤ زیادہ ہے اور ان کا پوچھنے والا بھی کوئی نہیں جس کی وجہ سے ان کے خلاف وارداتیں کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ برس صوبے کے دارالحکومت پشاور میں بھی جرائم پیشہ مسلح افراد نے ایک خواجہ سرا علیشا کو گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔اس واردات کے بعد خواجہ سرائوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم بلیو وین کے سربراہ نے کہا تھا کہ پشاور میں جرائم پیشہ افراد کا ایک منظم گروہ خواجہ سرائوں سے بھتہ لیتا ہے اور ان کی قابل اعتراض ویڈیوز بنا کر انھیں بلیک میل بھی کرتا ہے۔اس سے قبل گذشتہ برس ہی صوبہ پنجاب کے صنعتی شہر سیالکوٹ میں خواجہ سرا کو تشدد کر کے ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا اور اس واقعے کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی۔یعنی خواجہ سراوں پر معاشرتی دبائو اگرچہ پورے پاکستان میں ہے، مگر کے پی کے میں اس حوالے سے واقعات جو رپورٹ ہوتے رہتے ہیں ان کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ عمران خان صاحب، کہ جن کی پارٹی کی مذکورہ صوبہ میں حکومت ہے،وہ انسانی بنیادوں پر خواجہ سرائوں کے مسائل اپنی ترجیحات میں رکھیں۔اگر ان میں کوئی جسمانی تقص یا ان کا جنسی رحجان معاشرتی رویوں سے میل نہیں کھاتا تو اس میں ان کا اپنا کیا قصور ہے؟ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس حوالے سے کے پی کے حکومت نہ صرف خواجہ سرائوں کے خلاف سرگرم منظم گروہوں کے خلاف کارروائی کرے،بلکہ سماج میں خواجہ سرائوں کے حقوق اور انھیں بھی اللہ کے پیدا کردہ بندے تسلیم کرانے کے لیے سیمینارز بھی منعقد کرائے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply