مودی نوشتہ دیوار پڑھ لیں: رشید انصاری

یوان جمہوریت کا ایک اہم ستون ’’ذرائع ابلاغ‘‘ (میڈیا)ہے۔ میڈیا میں ٹی وی چینلز کے ساتھ اخبارات بھی شامل ہیں لیکن آج کل ٹی وی چینلز کو ہی میڈیا کہا جاتا ہے کیونکہ ٹی وی دیکھنے والے اخبارات پڑھنے والوں سے بہت کم ہیں۔ ٹی وی چینلز کو الکٹرانک میڈیا کہنا چاہئے۔ تاہم کیونکہ اس وقت ہمارا موضوع ٹی وی چینلز ہی ہیں اس لئے ہم بھی الکٹرانک میڈیا کو صرف میڈیا ہی کہتے ہوئے گفتگو کریں گے۔ ٹی وی چینلز کی صحافت اور طریقہ کار کا صحافت کے مروجہ سنہرے اصولوں سے آج کل دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ کسی خبر میں اپنے یا اپنے اخبار یا ٹی وی چینلز یا کسی مخصوص گروپ یا جماعت یا مکتب فکر کے خیالات شامل کرنا صحافتی جرم ہے اور صحافتی جرم مہذب معاشرہ میں کسی اخلاقی یا قانونی جرم سے بھی بدتر جرم خیال کیا جاتا ہے اور ہمارے 95% سے بھی زیادہ ٹی وی چینلز صحافتی جرائم کے ہر دن ہی تقریباً اپنے ہر پروگرام میں مرتکب ہوتے ہیں۔ اس کی ایک عام مثال یہ ہے کہ کسی مسلمان کو اگر پولیس نے اپنی روایات کے مطابق محض مسلم دشمنی میں یا شبہ میں بھی گرفتار کیا ہے تو میڈیا پولیس کے بیان یا الزامات کو یوں پیش کرے گا کہ جیسے پولیس کے الزامات کو عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) کے حتمی فیصلے کی طرح پیش کریں گے جو سراسر بے ایمانی ہے۔ اس سے بڑھ کر بے ایمانی یہ ہے کہ جب غلط طور پر ملزم قرار دئیے گئے مسلم نوجوان کو عدالت یا عزت بری کردیتی ہے تو ایسی خبریں ٹی وی پر بہت کم یا دکھائی ہی نہیں جاتی ہے۔ ایسی بددیانتی ہر چینل پر بار بار کی جاتی ہے یہ تو ایک مثال تھی۔
ٹی وی چینلز کی جانبداری یا بددیانتی کی ایک عام وجہ تو بعض ٹی وی صحافیوں کی فطری یا ان کی رگ رگ میں بسی مسلم دشمنی یا فرقہ پرستی مثلاً سدھیر چودھری، روہت سردانا، ارنب گوسوامی ، رجت شرما امیش دیوگن، انجنا کیشپ اور روبیکا لیاقت وغیرہ وغیرہ لیکن زیادہ تر چینلز کے مالک از خود بی جے پی سے وابستہ ہیں۔ مثلاً زی نیوز ٹی وی کے مالک سبھاش چندرا، کئی ٹی وی چینلز مثلاً ٹی وی 18 گروپ یا ای ٹی وی گروپ امبانی کی ملکیت ہیں۔ امبانی تو آج کل بی جے پی اور مودی کے سرپرست، مشیر اور مالی مدد گار (فینانسر) اور نہ جانے کیا کیا ہیں؟ مختصر یہ کہ ٹی وی چینلز یا الکٹرانک میڈیا پر پرسنگھ پریوار کا مکمل قبضہ ہے بلکہ اجارہ داری ہے۔ ہم بڑے اعتما سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ 2014ء میں بی جے پی اور مودی کی کامیابی میں سب سے اہم کردار میڈیا نے ادا کیا ہے۔ مودی نے جتنی بھی انتخابی تقاریر کی ہے ان کی تمام تقاریر راست دکھائی گئیں بلکہ ایک ہی تقریر دن میں کئی بار دکھائی جاتی رہی ہیں۔ میڈیا نے جتنا وقت مودی کو دیا تھا اس کا دس فیصد بھی مودی کے تمام حریفوں کو مجموعی طور پر نہیں دیا گیا ہوگا۔ پانچ سو اور ہزار کے کرنسی نوٹوں کی منسوخی سے جو صورت حال سامنے آئی ہے اس میں بھی میڈیا کا رول انتہائی مذموم اور شرمناک ہوتا جارہا ہے مودی کی حالیہ عوامی دشمنی میں میڈیا حتمی الامکان مودی کاساتھ دے رہا ہے لیکن اس کی تفصیل سے قبل دو اہم باتوں کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ جو دو تین چینلز جو مودی کے زیر اثر زیادہ نہیں ہیں ان میں این ڈی ٹی وی کے انگریزی اور ہندی چینلز ہیں۔ اسی لئے این ڈی ٹی وی ہندی کے چینل پر مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات نے ایک دن کی پاندی عائد کردی تھی۔ چینل والے عدالت عظمیٰ سے رجوع ہوئے تو اس سز کو موخر کردیا ہے۔ حکومت کی یہ کارروائی بلاشبہ قابل مذمت ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ مذمت ذی نیوز گروپ آف چینلز کے مالک سبھاش چندرا کی کرنا ضروری ہے۔ قومی سلامتی کی جھوٹی دہائی دے کر این ڈی ٹی وی پر دائمی پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ وہی چینل ہے جس نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طالب علموں کے بارے میں ایسی جھوٹی و جعلی ویڈیو دکھائی تھی جس میں جے این یو طلباء کو پاکستان زندہ باد، آزادی آزادی اور بھارت کی بربادی کے نعرے لگاتے ہوئے دکھایا گیا تھا اس جعلی ویڈیو اور من گھڑت فرضی خبروں کے ذریعہ نہ صرف تنازع کھڑا کردیا تھا اور کچھ طالب علموں کو غدارقرار دینے کی کوشش کی تھی۔ لیکن حکومت نے ذی نیوز چینل کے خلاف کوئی کارروائی تو بڑی بات ہے اس کی سرزنش بھی نہیں کی تھی ۔ ہاں زی نیوز کے مالک سبھاش چندرا کو راجیہ سبھا کی رکنیت اور اعزازات سے نوازا گیا۔ اسی طرح مسلمانوں کے خلاف زیادہ تر نشریاتی پروگراموں میں نفرت کا پروپیگنڈہ اور غلط بیانیاں کرنے والے چینل سدرشن ٹی وی کے خلاف حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ اسی طرح مسلم دشمنی کا پرچار کرنے والے علاقائی زبانوں کے کئی چینلز بھی مسلم دشمنی اور مخالف مسلم پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کیونکہ ان کو اپنے خلاف کسی کارروائی کا قطعی کوئی خوف نہیں ہے۔
اب یہ بھی جان لیں کہ مودی حکومت کے محکمہ اطلاعات و نشریات نے ہی ایک ایسا مرکز قائم کررکھا ہے جہاں چوبیس گھٹے کئی سوافراد مختلف زبانوں کے تمام چینلز کے ہر پروگرام کی نگرانی (مانیڑنگ) کرتے ہیں ۔ یہاں سے زی نیوز، سدرشن جیسے چینلوں کی رپورٹ کرنے کے بجائے صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ وزیر اعظم کی تعریف و توصیف کون سے چینل کرتے ہیں اور وزیر اعظم کے ناقد کون سے چینل ہیں۔ کون کون سے چینلز حکومت کے کارناموں (نام نہاد) کی تشہیر، وزیر اعظم مودی کی مدح سرائی کیلئے اور وزیر اعظم کے فرمودات اور تقاریر دکھانے کے لئے کتنا وقت دیتے ہیں۔ کون حکومت اور وزیر اعظم کو نظر انداز کرتا ہے جب حکومت کا ہی رویہ ایسا رہے تو کس سے شکایت کریں؟ حکومت کی یہ پالیسی کسی جمہوری حکومت کے شایان شان ہے یا نہیں اس سے مودی سرکار کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ بی جے پی اور مودی کے پسندیدہ صحافی ارنب گوسوامی کو حکومت نے زیڈپلس سیکوریٹی فراہم کررکھی ہے۔ غیر جانبدار اور حق پرست صحافی روش کمار ٹی وی چینلز کے صحافیوں میں منفرد مقام رکھتے ہیں اور بے باکی میں اپنی مثال آپ ہیں اور راج دیپ دیسائی اور برکھادت جیسے اعتدال پسند اور بے باک صحافیوں کی صیانت و سلامتی کی فکر سب کو رہتی ہے۔
آئیے اب دیکھتے ہیں کہ بڑے نوٹوں کے چلن کو روک کر ملک بھر کے عوام کو مصیبت اور آزار میں مبتلا کرنے کے مودی کے اقدامات اور اس کے نتائج اور اس کی وجہ سے عوامی تکالیف اور حکومت کی بدانتظامی، نااہلی اور عدم کارکردگی کے بارے میں تمام ٹی وی چینلز کا مجموعی رویہ کس قدر شرم ناک حدتک موافق مودی اور موافق حکومت ہے۔
اس میں شک نہیں ہے کہ عوام کو درپیش مشکلات اور حکومت کے جبر اور بے حسی کو ٹی وی والے خاصی حدتک مناسب انداز میں پیش کررہے ہیں لیکن جب اور جہاں تک ممکن ہوتا ہے مودی کی تعریف و تحسین کی جاتی ہے۔ زی نیوز اور گروپ 18 کے چینلز کے تبصرے ومباحثے تو خیر ہوتے ہی مودی اور ان کی حکومت کی پالیسیوں کی قصیدہ گوئی کیلئے ۔ مباحثوں کو بعض ٹی وی چینلز نے ایک مذاق یا مچھلی بازار بنارکھا ہے۔ ان مباحثوں میں مودی اور بھاجپا کی ترجمانی صرف بی جے پی نہیں کرتی ہے بلکہ آر ایس ایس بھی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ کبھی ہندو مہاسبھا یا وشوا ہندوپریشد کے ترجمان بھی ہوتے ہیں لیکن ٹی وی چینل کے میزبان (اینکرس) مودی حکومت کے سب سے بڑے ترجمان و مدد گار ہوتے ہیں جو اپنی طرف سے حکومت کے موقف کی تائید کرتے ہیں مخالف جماعتوں کے نمائندوں سے بحث کرتے ہیں۔ بی جے پی آر ایس ایس والوں کو بے تحاشہ وقت دیتے ہیں۔ اس کے مخالفوں کو کم سے کم وقت یتے ہیں اور مخالف بی جے پی ترجمانون کو بی جے پی و آر ایس ایس کے بدتمیز اور آداب محفل وگفتگو سے نا آشنا ترجمان مخالفوں کی بات نہ خود سنتے ہیں اور نہ ہی سننے دیتے ہیں۔ مخالف کے ساتھ ساتھ اونچی آواز میں بولتے ہیں اور اینکر عام طور پر بدترین جانبداری کا ثبوت دیتے ہیں ان مباحثوں کا ایک اور شرم ناک پہلو یہ کہ دہلی میں تیار کئے گئے تمام مباحثوں میں مسلمانوں کی نمائندگی (دہلی کے ہی متوطن دو نام نہاد عالم دین لیکن دراصل پکے ملت فروش اور سنگھ پریوار کے غلام اور ایک اردو ہفتہ وار کے ایڈیٹر) تقریباً ہر موقعہ پر ہر چینل پر کرتے رہتے ہیں اور چینل کی مرضی کے مطابق بول کر نمک حلالی تو کرتے ہیں لیکن خود کو ملت کا غدار ثابت کرتے ہیں اور ان پر تنقید کی جائے تو دھمکیاں دیتے ہیں جس میں یہ کالم نویس بھی شامل ہے۔
مودی جی کی تائید و حمایت کرنے والے ٹی وی چینلز کے رویہ کا ایک اور شرم ناک پہلو یہ ہے کہ عوام کی تکالیف تو خیر وہ دکھارہے ہیں لیکن عوام کی تکالیف کی ذمہ دار حکومت کی باالراست یہ کہہ کر وہ تائید کررہے ہیں کہ ملک کی خاطر، ملک کو کالے دھن سے نجات دلانے کے لئے یہ تکالیف برداشت کرنی چاہئے۔ مودی جی جو کچھ کررہے ہیں وہ ملک کی خاطر کررہے ہیں۔ اسی لئے جذباتی بلیک میلنگ کرنے والی مودی کی قدیم تھیٹر کے اداکاروں کے انداز میں کی گئی تقاریر بار بار دکھارہے ہیں۔ مودی جی کی تقریر کا انداز کسی مدبر وزیر اعظم کا نہیں ہوتا ہے لگتا ہے کہ کوئی طالب علم قائد یا مزدور قائد تقریر کررہا ہے اس عامیانہ تقاریر کو بار بار دکھانے کا کوئی جواز تو خیر نہیں ہے لیکن مودی جی کے ستم ظریفانہ خیالات کہ امیر جاگ رہا ہے۔ نیند کی گولیاں کھارہا ہے اور غریب چین کی نیند سورہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اسی قسم کی مسخرہ پن کی باتیں بار بار دکھانا صرف اور صرف غیر ضروری وفاداری کااظہار ہے بلکہ ایک طرح سے عوام کی دلا آزاری ہے۔ سنگھ پریوار نیند خراب کرکے بھوکے و پیاسے رات رات بھر جاگ کر قطاروں میں کھڑے ہونے والے عوام کی اذیت کا سرحد پر جان دینے والے سپاہیوں سے مقابلہ کرنا سپاہیوں کی اور ان کے جذبہ کی توہین ہے۔ وطن کی خاطر جان دینے والے کی اپنی مرضی قربانی ہے اور سرکاری جبر سے اذیت اٹھانا ظلم سہنا ہے۔
قطاروں میں پریشانیوں یں مبتلا افراد میں ٹی وی والوں کو مودی کے مداح اور بھیانک اذیتوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنے والے ہی نہیں بلکہ ان کو ملک کی خاطر برداشت کرنے کی تلقین کرنے والے ٹی وی والوں کو نہ جانے کیسے اور کہاں سے مل جاتے ہیں۔ باور کیا جاتا ہے کہ بھاجپا کے مودی بھکتوں کے مکالمے اور ڈائیلاگ چینل کے اسٹوڈیو میں تخلیق ہوتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اپنی نااہل بدانتظامی اور بصیرت سے محروم منصوبہ بندی کی وجہ سے بھاجپا اور مودی مقبولیت کا گراف بے حد گرچکا ہے اپنی اس بدترین کارکردگی اور پورے ملک کو اذیت میں مبتلا کرنے کا انجام بلکہ خوفناک سزا پنجاب اور یو پی کے ووٹرس ضرور دیں گے۔ کالے دھن کا خاتمہ شائد ہی ممکن ہو لیکن ملک کے عوام کے لئے اچھے دن کا وعدہ کرنے والے مودی نے سارے ملک کو جس طرح برے دنوں میں مبتلا کردیا ہے اس کی وجہ سے اپنے سیاہ مستقبل یا سیاہ دن کا نوشتہ دیوار مودی نے اگر اب بھی نہیں پڑھا تو کانگریس سے بدترانجام کیلئے مودی کو تیار رہنے کی تیاری کرلینی چاہئے۔ بڑی مچھلیوں بلکہ مگرمچھوں کو بچاکر چھوٹی مچھلیوں کو پکڑنے کیلئے 125 کروڑ عوام پر مظالم کا انجام برا ہوگا۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply