• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اذان دینے والا دراصل معاشرے میں گڑ بڑ پھیلا رہا ہے۔۔۔۔۔اسد مفتی

اذان دینے والا دراصل معاشرے میں گڑ بڑ پھیلا رہا ہے۔۔۔۔۔اسد مفتی

لندن میں مقیم میرے ایک دوست حال ہی میں سری لنکا کے دورے سے واپس آئے تو انہوں نے بتایا کہ مسلمانوں کو سری لنکا میں ہر قسم کی مذہبی آزادی حاصل ہے ۔مسلم باشندے مقامی عام شہریوں کے مقابلے میں زیادہ خوشحال ہیں اور آزادانہ  مذہبی فرائض انجام دیتے ہیں ۔مسلمانوں کی تو سیاسی پوزیشن بھی دوسری اقلیتوں سے بہتر ہے۔کئی مسلم اہم وزارتوں اوراعلی عہدوں پر فائز ہیں ۔حتٰی کہ ایک زمانے میں وزیر خارجہ تک مسلمان تھے۔جیسا کہ میں نے ابھی بتایا کہ مسلمانوں کو آزادانہ مذہبی فرائض اور اپنی مذہبی سرگرمیاں جاری رکھنے کی آزادی حاصل ہے،لیکن یہ  دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ وہاں اذان لاؤڈ سپیکر پر نہیں دی جاتی ،میں نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ اگر ہم چاہیں تو اجازت مل جائے گی لیکن ہم نے خود مطالبہ اس لیے نہیں کیا کہ دوسرے مذاہب والے بھی اس کا مطالبہ کریں گے۔ہماری پانچوں اذانیں تو دس منٹوں میں ختم ہوجائیں گی لیکن دوسرے مذاہب کی مناجاتیں ،گیت،بھجن،اور کیرتن تو گھنٹوں چلیں گے۔میں نے سوچا کہ  کاش یہ دور اندیشی اور زیادہ نقصان کے پیش نظر تھوڑے نفع سے دستبرداری کی توفیق ہم سب کو بھی ہو جائے ۔انہوں نے ٹھنڈی سانس بھر کر بتایا

مذہب میں عموماً عقل و خرد کی باتیں برداشت نہیں کی جاتیں ،مسلمانوں کے خود ساختہ  اعتقادات ،محدود ذہنیت اور کوتاہ نظری سے آزاد ہونا ہی اسلام کی باز یافت ہے۔او ر بازیافت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ کوئی چیز پیش کی جارہی ہے بلکہ یہ ہے کہ اس میں جو معنی چھپے ہوئے ہیں ان کو ظاہر کیا جائے جیسا کہ جہاد اور تعداد ازواج میں ایسا کونسا پہلو ہے جس  پر فخر کیا جاسکے۔میرے دوست بتا رہے  تھے کہ  اب اذان کے مفہوم کو ہی لیجیے ،اذان دینے والا دراصل معاشرے میں گڑبڑ پھیلا رہا ہے۔موذن دوسرے لفظوں میں کہہ رہا ہے کہ میں کسی اور دنیاوی ا قتدار  اعلی ،کسی فرمانروا کو نہیں مانتا ،کوئ حکومت میں تسلیم نہیں کرتا ،کسی قانون کو میں نہیں مانتا ،کسی عدالت کے حدود و اختیارات مجھ تک نہیں پہنچے،کسی کا حکم میرے لیے حکم نہیں ہے،اس کی متفنہ کا قائل نہیں ہوں ۔عوام کی اکثریت میری نظر میں کیڑۓ مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہے،کوئی رسم و رواج و قانون مجھے تسلیم نہیں ہے،کسی کے حقوق ،کسی کے تقدس ،کسی کے اختیارات میں نہیں مانتا ۔ایک اللہ کے سوا سب سے باغی،سب سے منحرف اور سب کا  انکار ی ہوں ۔ اگر مغرب آپ کی اذان  کا مفہوم پالے تو خواہ آپ کسی سے لڑنے اور جنگ کرنے جائیں یا جزیہ کا تقاضا کریں یا نہ کریں یا اسلام کے قبول کرنے کی دعوت دیں یا نہ دیں دنیا خؤد آپ سے لڑنے کے لیے آجائے گی۔یہ تو سراسر آبیل مجھے مار والی بات ہے۔یہی بیل کے مارنے کا خوف  بر حق تھا کہ پاکستان عالم وجود میں آنے سے پہلے مسلمان خطرے میں تھا ،پھر تقسیم ملک کے بعد اسلام خطرے میں گھر گیا ،پھر دوقومی نظریہ خطرے میں آ پڑا۔ پھر جوہری اثاثوں کو خطرہ لاحق  ہو گیا ۔پھر پاکستان خطرے کی زد میں آگیا اور یادش بخیر ان دنوں بلوچستان خطرے میں ہے۔ ادھر اٹلی میں مسلمانوں کی ایک نمائندہ تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ یورپ میں اسلام خطرے میں ہے  کیونکہ  اٹلی کی ایک عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ ایک امام صاحب کو فوری طور پر ملک بدر کردیا جائے ،برطانیہ میں ایک امام کو جنوری سے حراست میں رکھا گیا ہے اور آئندہ ہفتے اسے عدالت میں مختلف الزامات کے تحت پیش  کیا جانے والا ہے ،فرانس میں کئی اماموں کو ملک بدر کردیا گیا ہے۔وہیں کی حکومت قانون میں تبدیلی لا چکی ہے،تاکہ تمام امام فراسیسی زبان روانی سے بولنا لکھیں اور فرانسیسی قانون،ثقافت اور تاریخ کا مطالعہ کرکے واقفیت حاصل کریں ادھر میرے ملک ہالینڈ میں ایسے قوانین نافذ کردیے  ہیں اور مسلم اماموں پر ڈچ زبان سیکھنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے ،اور ان کے لیے یہ ضروری ہے کہ ڈچ تہذیب و تمد ن اور ثقافت سے روشناس ہونے کے لیے نصاب پڑھیں ،مسلمان ان تمام متذکرہ اقدامات کو اسلام پر حملہ سمجھتے ہیں اور یورپ میں اسلام کے لیے اسے خطرے کی گھنٹی قرار دیتے ہیں ،اور وہ سمجھتے ہیں کہ مغرب میں اسلام پر حملے کیے جارہے ہیں ۔

اس طرح کی رائے کا ظہار غلطی پر مبنی ہے۔مساجد اور دینی مدارس پر حملے کرنا بلا شبہ اسلام سے وقت کا نتیجہ ہے لیکن یہ چند بھٹکے ہوئے افراد کی حرکتیں  ہیں ،نہ کہ حکومتوں کی پالیسی۔۔۔ میرے حساب سے فرانس ،بیلجئم،اٹلی اور ہالینڈ میں جو حکومتیں اقدامات کررہی ہیں ،ساری دنیا کے مسلمانوں کو ان اقدامات کا خیر مقدم کرنا چاہیے ،سارے یورپ میں اسلام کو وہاں کے حالات سے مطابقت پیدا کرنے کی ضرورت ہے،مغرب میں مقیم مسلمان امام حضرت مقامی زبان نہیں بولتے اور مقامی تہذیب ،ثقافت  کو سمجھ نہیں سکتے۔امام حضرت لوگوں سے میل جول نہ بڑھائیں ان سے روابط نہیں پیدا کریں گے تو مقامی آبادی پر  امن اسلام کے بارے میں کیسے واقفیت حاصل کر سکے گی۔ہم لوگ (مسلمان )اب یہاں کی اکثریت کا حصہ ہیں ،اسلام کے لیے ضروری  ہے کہ وہ اپنا پر امن چہرہ اکثریت کو دکھائے، اپنا بھائی چارے اور رواداری کا پیغام اکثریت تک پہنچائے اس لیے فرانسیسی اور ڈچ اقدامات مثبت نوعیت کے اقدامات ہیں ،انہیں منفی نہیں کہا جاسکتا ،اس لیے ہالینڈ کے مسلمانوں کی اکثریت نے قانون میں لائی گئی تبدیلی کا خیر مقدم کیا ہے،جہاں تک بعض اماموں کی گرفتاری اور انہیں ملک بدر کرنے کا تعلق ہے ان کے تعلق سے حقیقت یہ ہے کہ نفرت،تشدد،اوار اسلام کے بر عکس نظریات کا پر چار کرنے والے ایسے اماموں کو مسلم ملک میں بھی یقیناً گرفتار کر لیا جائے گا یہ مذہبی اور نسلی بنیادوں پر نفرت اور   تشدد کی مسلسل حوصلہ افزائی کرتے رہے تھے ۔یہ لوگ اپنے مفادات کے لئیے مذہب کو تو مانتےہیں لیکن مذہب کی بات کو نہیں مانتے ۔

لے گیا نوچ کے مجھے صاحب

Advertisements
julia rana solicitors

جس کو جتنی میری ضرورت تھی

 

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply