• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • “گدھے کا بچہ” ایک جلالی بزرگ کا جلالی کالم ۔۔۔ معاذ بن محمود

“گدھے کا بچہ” ایک جلالی بزرگ کا جلالی کالم ۔۔۔ معاذ بن محمود

الحذر الحذر۔۔ قصر سلطانی کی بنیادیں لرزنے لگتی ہیں، زمیں پھٹ جاتی ہے اور آسمان ٹوٹ کر گرنے لگتا ہے جب چاہ یوسف سے صدا آتی ہے “جانی تو کال ای لیک کر دیتی؟”

 اکتوبر کی ایک دلگداز صبح ہے جس میں فقیر کو بدن کچھ ٹوٹتا محسوس ہوتا ہے۔ بندہ احقر اٹھتا ہے تو بستر جکڑ لیتا ہے۔ نیستی پن اس قدر بڑھ چکا کہ حلق میں چائے انڈیلنے واسطے بھی بھولے کو یاد کرنا پڑتا ہے۔ بھولے کے بارے میں بلو ناہنجار کا ماننا ہے کہ یہ سات سالہ شیطان ہمارے محلول سے حصہ لے کر بوتل کی کمی کلی سے پوری کرتا ہے۔ کئی بار بلو ناہنجار درویش کی توجہ شیواز ریگل میں تیرتے گوشت کے ٹکڑوں کی جانب مبذول کرا چکا جن میں بھولے کے منہ کی مشک اپنے وجود کا احساس دلاتی۔ بلو ناہنجار بھولے کے منہ سے کیسے بلد ہوا یہ سوال بندہ پوچھنا بھول جاتا ہے۔ 

بھولے نے فقیر کے حلق میں چائے انڈیلی مگر چس نہ آئی۔ بھولے کو محلول لانے کا کہہ ڈالا۔ بھولا کچھ دیر بعد نحوست سے بھرپور، بالکل بلو ناہنجار والے چہرے کے ساتھ واپس آکر مژدہ سناتا ہے کہ تمام بوتلیں ختم ہو چکی ہیں۔ دل کا بہت اچھا ہے درویش کا بھولا۔ عرض کرتا ہے خلیفہ اے ٹرائی کر۔ اور ساتھ ہی بھری سگریٹ سامنے کر دیتا ہے۔ درویش بلا تامل و تاسف تین رقیق دھوئیں سے بھرپور کش مارتا ہے مگر سکون ندارد۔

اب درویش کی آنکھیں نم ہونے لگتی ہیں۔ محلول کے نایاب ہونے پہ سر ہی نہیں بہت کچھ پھٹا جا رہا ہے۔ بلو ناہنجار رات سے کسی بوائے فرانڈ کے ساتھ غائب ہے۔ فون کرو تو پیغام بھیجتا ہے “ڈانٹ ڈسٹرب پلیز، آئی ایم ان میٹنگ”۔ گاڑی فقیر کو چلانی نہیں آتی۔ کیا کیا جائے؟ 

تھک ہار کر ایک پرانا واقف کار ذہن میں آتا ہے۔ ندیم۔ ندیم عباس۔ درویش کال ملاتا ہے۔ رنگ ٹون صدا دیتی ہے “میں تو پنجتن کا غلام ہوں”۔ رنگ جاری رہتی ہے اور پھر کال نہ اٹھانے پر بند ہو جاتی ہے۔ احقر ایک بار پھر کال ملاتا ہے۔ “فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر۔۔۔”

یا خدایا، محلول فروش اور اس قدر متقی پرہیزگار؟ یقیناً مجھ سے متاثر ہوگا۔ تیسری کال پر ندیم مسیحا جواب دیتا ہے۔ فقیر جلال میں آکر کہتا ہے “گدھے کے بچے کال چک لیا کر ناں”۔ ندیم پلٹ کر مجھے سگ کا سگہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ آخر محنت انسان کو چڑچڑہ بنا ہی ڈالتی ہے۔ درویش ساری باتیں سن کر فقط محلول کی بابت سوال داغ دیتا ہے۔ جواب میں بلیک لیبل، شیواز اور جیک ڈینئیلز پر بات ختم ہوتی ہے اور کل دو گھنٹے میں ترسیل کا وعدہ ہوتا ہے۔ الحمد للّٰہ۔ انا اللہ مع الصابرین۔ 

مگر حاسدین کو مجھ ضعیف کی خوشی برداشت نہ ہوئی۔ ندیم عباس جیسے متقی پرہیزگار معصوم مگر معروف کو راستے میں پولیس والے روک لیتے ہیں۔ استفسار کرنے پر ذلیل مگر معصوم ندیم محلول خاص کی ترسیل درویش کے غریب خانے پر لے جانے کا پتہ دیتا ہے۔ ایک کال غریب کو بھی کر دیتا کے کہ انتظار کی ساعتیں غضب اور جلال میں بدل جائیں۔ درویش جلال میں آکر پولیس کو کال کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ 

فقیر عرض کرتا چلے کہ گدھا ایک محنت کش اور معصوم جانور ہے۔ شاعر کیا خوب کہہ گیا ہے کہ

ابتداءً میں بہت معصوم ہے عشق

کوئی کھوتی کا بچہ ہو جیسے 

بس ویسے ہی، ہر محنت کش میں درویش کو ایک گدھا دکھائی دیتا ہے۔ پس “گدھے کا بچہ” اسی جواز سے تکیہ کلام سا بن چکا ہے۔ فقیر اکثر بلو ناہنجار کو بھی “اؤئے کھوتی دیا پتراں” کے نک نیم سے مخاطب کرتا ہے۔ تو کیا تھا جو فقیر نے ریحان صاحب سے ان کے والد محترم کے محنت کش ہونے کا اظہار کر ڈالا؟ ایک درخواست ہی تو تھی، اور کیا تھا کہ یا اللہ یا رسول ندیم عباس بے قصور۔ ایک فون کال، اس قدر درویشانہ گفتگو اور اتنا بڑا بھونچال؟

الحذر الحذر۔۔ قصر سلطانی کی بنیادیں لرزنے لگتی ہیں، زمیں پھٹ جاتی ہے اور آسمان ٹوٹ کر گرنے لگتا ہے جب چاہ یوسف سے صدا آتی ہے “جانی تو کال ای لیک کر دیتی؟”

Advertisements
julia rana solicitors

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply