گشتی! — حسن کرتار

کاکروچ ایسے ہی بدنام ہیں
یہ دیوتا ہیں جن نے ہمیشہ ڈرا کے رکھا
کبھی اپنی کہہ کر کبھی پرائ سمجھ کر
اپنی انا کے جال میں رکھا
انا بہت پرانی الٹی پلٹی ہے
کون کرے اب اسے سیدھا!
چلو تمہیں پھر سے ٹیڑھی کہہ لیتے ہیں
آخر دیوتا ہیں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں
تھک چکی ہو
پھر سے ڈر چکی ہو تو تم بھی مان لو
وہی سوچو جو دیوتا سوچتے ہیں۔۔۔
جانتی بھی ہو دیوتا کیا سوچتے ہیں!

Advertisements
julia rana solicitors

جانے تم کیا سوچ جلتی کڑھتی رہتی ہو
جانے تم کیا سوچ بنتی سنورتی رہتی ہو
جیون بس گڈے گڈی کا کھیل نہیں
جیون وہ بھی نہیں جو تم نے سنا
جیون وہ بھی نہیں جو ہم نے سنا
چھوڑو جیون کیا ہے
اتار بھی دو اب یہ بے جان لباس
کون سنے اب اور بکواس
دکھا بھی دو جو دیکھنے کو دیوتا ترستے ہیں
پر کہنے سے ڈرتے ہیں
دیوتا ہو کر بھی کیوں جانے اتنا ڈرتے ہیں!
جانے تم کیا سوچ بنتی سنورتی رہتی ہو
جانے تم کیا سوچ لکھتی رہتی ہو!
جانتی بھی ہو دیوتا کیا چاہتے ہیں!
تم بھلے پوجو یا کچھ اور ہی بوجھو
یہ دیوتا بس اندر باہر اندر باہر چاہتے ہیں
ھاں اکثر
بس یہی چاہتے ہیں
اندر ہو یا باہر باہر ہو یا اندر
بس یہی بار بار چاہتے ہیں
پیار سے کبھی مار سے کبھی چال سے
کبھی اپنی کہہ کر کبھی پرائ سمجھ کر
دیوتا بس یہی بار بار چاہتے ہیں۔۔۔
جانے تم کیا سوچ سوچتی رہتی ہو!
اس عجب کھیل میں
جیت گئے تو تم بھی اپنی وہ تو ہے ہی اپنی
جو ہار گئے تو۔۔۔
تم ساری جھوٹی سالی گشتی گشتی گشتی
جانتی بھی ہو دیوتا کیا سوچتے ہیں
کاکروچ ایسے ہی بدنام ہیں۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply