اجالے یادوں کے۔۔۔۔اجمل اعجاز/افسانہ

میں نے گاڑی پارک کی اور ایک منزلہ عمارت پر نظر ڈالی۔ پلاستر سے بے نیاز اینٹوں سے تعمیر شدہ دیوار کی بجری جگہ جگہ سے جھڑ رہی تھی۔ سیمنٹ کی چادروں کے پہلو میں ایستادہ اس کا کمرہ نما گھر میں ایک عرصے کے بعد بھی پہچان گیا تھا۔ گلی میں مڑتے ہی اوپر جانے کے لیے پلاستر سے بے نیاز سیڑھیاں مجھے اوپر جانے کی دعوت دے رہی تھیں۔ دو سیڑھیاں چڑھتے ہی ایک نوجوان مجھے سیڑھی پر اکڑوں بیٹھا ہوا نظر آیا۔ دھلے ہوئے صاف کپڑوں میں ملفوف اس کا دبلا پتلا وجود، کھنچے ہوئے چہرے کے ساتھ میرے سامنے تھا۔ اس کے پچکے ہوئے گالوں کے عقب سے نقب لگاتی، ابھری ہوئی ہڈیاں اس کی زوال پزیر صحت کی عکاسی کررہی تھیں۔ اس کے قدموں میں رکھی ہوئی پلیٹ میں موم بتی کی لو جھلملا رہی تھی اور اس کے سامنے والی سیڑھی پر چند سگریٹ بکھرے پڑے تھے۔ اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور سگریٹوں کو ہاتھ میں سمیٹتے ہوئے میرے لیے اوپر جانے کا راستہ بنایا۔ میں اسے نظر انداز کرتا ہوا باقی سیڑھیاں چڑھ گیا۔ کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ میں نے گاڑی کی چابی سے ٹین کے دروازے پر دستک دی۔
“کون ہے؟” یہ اسی کی آواز تھی۔
“میں ریاض ہوں” میں نے جواب دیا
” اندرآجائیں” مجھے نہیں معلوم اس نے میری آواز پہچانی تھی یا نہیں۔ میں نے آخری سیڑھی پر قدم رکھا۔ اب میں کمرے میں تھا اور وہ میرے سامنے تھی۔ تیس پینتیس سال کے عرصے میں مجھے اس میں صرف ایک واضح تبدیلی نظر آئی، وہ اس کے کھچڑی نما بال تھے جن میں سفیدی کی آمیزش قدرے زیادہ تھی۔ اب وہ پہلے جیسے صحت مند جسم کی جگہ کمزور وجود کے ساتھ نظر آئی۔
“شکر ہے آپ کو ہماری یاد تو آئی” اس کے افسردہ چہرے پر مسکراہٹ چمکی۔
“کیا حال ہیں؟” میں نے خیریت پوچھی۔
” میں نے شادی کے بعد حالات سے سمجھوتہ کرلیا تھا، کبھی کسی سے حالات کا شکوہ نہیں کیا۔” وہ خاموش ہوگئی۔ لگتا تھا اس کا ماضی اپنے اندر درد اور مصائب کا بحر بے کراں لے کر گزرا تھا، جس کے آثار اس کے بے ترتیب گھر اور وجود سے آشکار تھے۔” بیمار ہوں، ایک عرصے سے جوڑوں کے درد نے مجھے اس کمرے کا قیدی بنا دیا ہے۔ نہ میں چل سکتی ہوں، نہ سیڑھیاں سے اترنے چڑھنے کے قابل۔۔۔۔۔۔” مایوسی اس کی آنکھوں میں تیر رہی تھی۔
“مجھے تمہاری حالت کا پتا چلا تھا اس لیے خیریت  معلوم کرنے چلا آیا ۔۔۔۔۔”
وہ تخت پر بچھی ہوئی بوسیدہ لیکن صاف چادر پر دیوار کا سہارا لیئے بیٹھی تھی۔
“گھر کا کام کون کرتا ہے۔؟” میں نے پوچھا۔
“یہ جو کھڑکی ہے۔۔۔۔۔” اس نے عقب میں موجود کھڑکی کی طرف اشارہ کیا جو نیچے بازار میں کھلتی تھی۔۔۔۔۔ “میں اس کھڑکی سے دنیا کو دیکھتی ہوں۔۔۔۔۔۔ یہی کھڑکی میری بیساکی بھی ہے، کیونکہ میں اس پکڑ کر کھڑی ہوتی ہوں اور پھر دیوار کے سہارے چل پھر کر اپنے کام جیسے تیسے کرہی لیتی ہوں۔۔۔۔۔”
“علاج تو ہورہا ہوگا؟” میرے سوال میں بے یقینی کی کیفیت موجود تھی۔
“ہر طرح کا علاج کرلیا، کچھ دن کے لیے افاقہ ہوجاتا ہے لیکن دواؤں کا اثر زائل ہوتے ہی پھر وہی چلنے پھرنے میں معذوری در آتی ہے۔ آپ کو حیرت ہوگی میں پچھلے ڈیڑھ سال سے اس کمرے سے نیچے نہیں اتری۔۔۔۔۔” وہ کہتے کہتے رکی، پھر اچانک بولی، “چائے بنادوں آپ کے لیے؟”
“ابھی چائے پی کر ہی آر ہا ہوں۔۔۔۔۔” میں نے دانستہ جھوٹ بولا کیونکہ اس کے وجود کو کمرے میں فرش پر گھسٹتا ہوا دیکھنے کی ہمت مجھ میں نہیں تھی۔
“ناصر صاحب کا کیا حال ہے؟” میں نے اس کے شوہر کی خیریت دریافت کی۔
“وہ ۔۔۔۔۔۔” وہ مسکرائی۔ “وہ تو، آپ جانتے ہیں کہ ہمیشہ سے بیمار اور بے کار ہیں۔۔۔۔۔”
مجھے اس کے شوہر کی بیماری کے بارے میں علم تھا اسے دمے کا عارضہ تھا۔ جس کے سبب وہ ایک عرصے سے گھر کی معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کا اہل نہیں تھا۔
“اور سراج کا کیا حال چال ہے، وہ کیا کررہا ہے؟” میں نے ان کے بیٹے کے بارے میں میں جاننا چاہا۔
“کیا نیچے سیڑھیوں پر آپ کی اس سے ملاقات نہیں ہوئی؟” اس کی مسکراہٹ میں تلخی جھلک رہی تھی۔
“تو کیا یہی ہے سراج؟” میں نے حیرانی سے پوچھا۔
” جی ہاں، یہی ہے ہماری کل کمائی۔۔۔۔۔” وہ اب مسکرا رہی تھی۔
“کیا نشہ کرتا ہے؟” میرے منہ سے بے ساختہ سوال اچھل پڑا۔
“جو کچھ تھوڑا بہت کماتا ہے، نشے میں اڑا دیتا ہے۔” اس کی آواز میں محرومیوں کا دکھ تھا۔
“لیکن مجھے یاد ہے آپ نے اسے اسکول میں داخل کرایا تھا۔۔۔۔۔” میں نے پوچھا۔
“ہماری خواہش اور کوشش یہی تھی کہ یہ پڑھ لکھ جائے، لیکن باپ نے توجہ نہیں دی اور اب نتیجہ سامنے ہے۔۔۔۔۔۔” وہ روہانسی ہوگئی۔
اس کی بے کیف گفتگو اور دکھ میں لتھڑے ہوئے کمرے کے بوجھل ماحول نے مجھے آزردہ کردیا اور میں پرانی یادوں کی بانہوں میں جھولتا ہوا ماضی کے حسین وخوبصورت جزیرے میں جا پہنچا۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اس وقت کالج سے واپس آیا تھا۔ اپنی موٹر بائیک کھڑی کرکے جونہی کمرے میں داخل ہوا وہ امی جان سے خوش گپیوں میں مصروف نظر آئی۔ گندمی رنگ چہرے کے متناسب خدوخال یعنی اس کی آنکھیں، بھنویں، پلکھیں، پیشانی، لب و رخسار، ناک و کان، یہ ساری چیزیں قدرت نے نہایت فن کاری اور ہنر مندی سے اس چہرے پر سجایا تھا جس سے اس کا چہرہ جاذب نظر اور توجہ طلب بن گیا تھا۔
“السلام علیکم ریاض بھائی” اس نے دلکش مسکراہٹ کے ساتھ میرا استقال کیا۔
“وعلیکم السلام کیا حال ہیں بھئی۔۔۔۔۔۔؟” میں نے اس پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالی۔
“اچھی ہوں، اللہ کا شکر ہے۔” اس نے اپنے وجود کو جسم پر پہنے ہوئے کالے برقعے میں سمیٹنے کی کوشش کی۔
وہ اکثر پڑوس میں اپنی بڑی بہن سے ملنے آتی تھی اور جاتے  ہوئے امی جان سے گپ شب کرنا کبھی نہ بھولتی تھی۔ اس سے ہمارا کیا رشتہ تھا، میں یہ جاننے کی کبھی کوشش نہیں کی کیونکہ بعض رشتے اتنے پیچیدہ ہوتے ہیں کہ ان گتھیوں کو میں سلجھا نہیں پاتا۔
“بیٹا اچھا ہوا تم  آگئے، نگار تمہارا انتظار کررہی تھی۔۔۔۔۔۔” امی جان کی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی۔
“خیر تو ہے ناں؟” میں حیرانی سے امی جان کو دیکھا۔
“بس تو جلدی سے ہاتھ دھو کر کھانا کھالے۔۔۔۔۔۔۔” امی جان باورچی خانے کی طرف بڑھ گئیں۔
“ریاض بھائی! ایک چھوٹا سا کام ہے آپ سے۔۔۔۔۔۔” اس نے بڑی بڑی سیاہ آنکھوں کے در کھول دیے۔
“فرمایئے کیا حکم ہے؟” میں سرتا پا عاجزی کا مجسمہ بن گیا۔
“بیٹا جلدی سے کھانا کھا کے بچی کو اس کے گھر چھوڑ آ۔۔۔۔۔۔۔” امی جان نے میری الجھن دور کردی۔
اس کا گھر موٹر بائیک کے سفر کے مطابق تقریباً پندرہ منٹ کی مسافت پر ہوگا۔
اس طرح مجھے آنے جانے کے لیے تقریباً نصف گھنٹہ درکار تھا۔ میں نے موٹر بائیک باہر نکالی، کک لگا کر اسٹارٹ کی اور اس سے پہلے کہ میں اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتا وہ میرے کندھے کا سہارا لے کر بیٹھ گئی۔
“چلیں؟” میں نے پوچھا۔
“جی بالکل۔۔۔۔۔۔” اس نے کہا۔ موٹر بائیک آہستہ خرامی سے چلتی ہوئی گلی سے نکل کر بڑی سڑک پر آگئی۔
“کہاں چلنا ہے؟” میں مذاق کے موڈ میں تھا۔
“جہاں آپ لے چلیں۔۔۔۔۔۔” جواب کی بے باکی پر میں حیران تھا۔ شاید یہ بھی مذاق ہو۔
“کلفٹن چلیں؟” میں نے اس کو ٹٹولا۔
“بے شک چلیں۔۔۔۔۔۔” جواب جیسے اس کے ہونٹوں پر پہلے سے موجود تھا۔ مجھے لگا جیسے میں موٹر بائیک نہیں چلا رہا بلکہ ہوائی جہاز چلا رہا ہوں۔
دھوپ تیز تھی، گرمی بھی تھی، اس کے باوجود ہم دیر تک ساحل سمندر پر گھومتے رہے۔ ہم کچھ دیر ایک باغیچے کے ہرے کنج میں بیٹھے اور پھر واپسی کی راہ لی۔ میں اسے اس کے دروازے پر اتار کر واپس آگیا۔ امی جان نے دیر سے آنے کی وجہ بھی نہیں پوچھی اور اگر وہ پوچھ بھی لیتیں تو میرے پاس اپنے دفاع میں بے شمار ہتھیار موجود تھے۔ اس زمانے میں گھروں میں ٹیلی فون تھے نہ ابھی موبائل فون کا چلن عام ہوا تھا کہ گھر سے غائب رہنے کا سبب فوری طور سے معلوم کیا جاسکے۔

وقت نے کروٹ بدلی اور پھر میں اپنی پڑھائی میں مصروف ہوگیا اور یہ ملاقات ذہن سے محو ہوگئی لیکن تقریبا چھ ماہ بعد پھر یہی صورت حال پیش آگئی۔
اس مرتبہ جب وہ بائیک پر بیٹھی تو میں نے پھر وہی سوال دہرایا۔
“کہاں چلنا ہے؟”
“جہاں  آپ لے جائیں۔۔۔۔۔۔۔” وہی انداز، وہی جواب تھا۔
اس وقت دوپہر کے دو بج رہے تھے میٹنی شو ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا۔ یوں ہمارے پڑوس میں ہی کئی سینما گھر موجود تھے لیکن فلم دیکھنے کے لیے میں نے ایسے سینما گھر کا انتخاب کیا جو گھر سے دور بھی تھا اور جس میں پڑھے لکھے لوگ فلم دیکھنا پسند کرتے تھے۔
یہاں اچھا ماحول میسر تھا اور اس بات کا امکان بھی کم تھا کہ کوئی شناسا ٹکرا جائے۔
ہاف ٹائم گزر چکا تھا اور اس فلم کا منظر یقیناً ایسا تھا جس سے مغلوب ہوکر میں نے بے اختیار اپنی بائیں جانب بیٹھی نگار کے دائیں گھٹنے پر اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی آہستہ آہستہ سے بچھا دی۔ اس نے نہایت آہستگی سے اپنا دایاں ہاتھ میری ہتھیلی پر رکھ دیا۔ زندگی میں وہ پہلا تجربہ تھا جب جنس مخالف کی اس قدر قربت ملی، جس سے روح سرشار ہوگئی۔
فلم ختم ہونے پر ہم نے ایک قریبی ریسٹورنیٹ سے کباب پراٹھے سے شکم سیری کی اور پھر میں اسے ڈراپ کرتا ہوا گھر پہنچ گیا۔

وقت نے ایک اور کروٹ بدلی۔ زندگی اتنی مصروف ہوگئی کہ یہ دو ملاقاتیں قصہ پارینہ اور خواب وخیال بن گئیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت کے حصول کی جدوجہد، ملازمت کا حصول، ترقیاں، کامیابیاں اور پھر ایک دوسرے شہر میں تبادلہ، شادی چار بچوں کی پیدائش، ان کی ذمے داریاں، پھر ان کی شادیاں اور پھر نوکری سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے شہر واپسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے اس کی بیماری اور معذوری کی خبر ملی تو میں ہمدردی کے جذبے کے تحت اس کی خیریت لینے اس کی اقامت گاہ پہنچ گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

“اچھا اب میں چلتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔” میں نے اٹھتے ہوئے اس سے اجازت طلب کی۔
“خدا حافظ۔۔۔۔۔۔۔۔” اس نے دایاں ہاتھ مصافحے کے لیے میری جانب بڑھا دیا۔
میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا۔ ہاتھوں کے ملاپ میں نہایت گرم جوشی تھی۔
“مجھے ابھی تک  آپ کے ساتھ گزرا ہوا وقت یاد ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔” اس نے یادوں کے ٹھہرے ہوئے پرسکون سمندر میں پتھر پھینکا۔۔۔۔۔۔۔” مجھے ابھی تک آپ کے ساتھ فلم دیکھنا یاد ہے، میں چاہوں بھی تو بھلا نہیں سکتی۔” ایک طویل عرصے پر محیط لاتعلقی کے خاموش سمندر میں یادوں کی لہریں جوار بھاٹے کا منطر پیش کررہی تھیں اور……… اب دل کی دیواروں سے ٹکرا رہی تھیں۔
“میں بھی وہ لمحات بھولا نہیں ہوں اور شاید کبھی نہ بھول پاؤں۔” میں نے بھی اعتراف کیا “خدا تمہیں جلد اپنے پیروں پر کھڑا کردے۔۔۔۔۔۔۔۔” میں نے اسے دعا دی اور جانے کے لیے مڑا۔
“اگر میں اچھی ہوگئی تو……” وہ کہتے کہتے رکی۔ میں نے پلٹ کر اس کی جانب دیکھا۔
“اگر میں اچھی ہوگئی تو ایک مرتبہ آپ کے ساتھ فلم دیکھنے ضرور جاؤں گی۔۔۔۔۔۔۔۔”
میرے قدم اس قدر بوجھل ہوچکے تھے کہ مجھے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ میں نے اس کے گھر کی سیڑھیاں اترنے میں کتنی صدیوں کا سفر طے کیا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply