شادی اور اس کا آسان حل۔۔۔۔حمزہ حنیف

ہمارے معاشرے میں جب اولاد جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے تو والدین کو ان کی شادی کرانے کی فکر لاحق ہوجاتی ہے جو ایک فطری عمل ہے ۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ جب لڑکے کے والدین شادی کی بات چیت کرتے ہیں تو لڑکے کی پسند و نا پسند کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ کہیں لڑکا ناراض ہوکر شادی کی رات گھر چھوڑ کر چلا نہ جائے ۔ اس طرح خاندان کی بدنامی ہوگی۔

اکثر لڑکی کے والدین یہ سوچ کر یا یہ کہہ کر شادی کے سلسلے میں لڑکی کی رضامندی کو کسی خاطر میں نہیں لاتے کہ شرم و حیا کا تقاضا اور مشرقی تہذیب کا یہی اصول ہے لڑکی کے والدین اس کا رشتہ اس سے پوچھے بغیر کردیں جو کہ سراسر اولاد کی حق تلفی ہے ۔ جب زبردستی کی شادی کروائی جاتی ہے تو وہ زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔

میاں بیوی میں وہ فطری پیار و محبت نہیں ہوتا جو ہونا چاہیے اور پھر یہی وہ ناچاقی ہے جس سے گھر دوزخ کا نمونہ پیش کرنے لگتے ہیں

جب ہم اپنے معاشرے پر نظر کرتے ہیں تو شادی بیاہ کے حوالے سے یہ عوامل بھی  ملتے ہیں کہ عورتوں کو یہاں تک بے خبر رکھا جاتا ہے کہ ان کی شادی ایک ایسے شخص کے ساتھ کی جارہی ہے جو مرگ کے قریب ہے یا انتہائی بوڑھا ہے ۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ مذکورہ شخص زمیندار ، مال دار ہے اور وٹہ سٹہ کے تحت بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور اگر کسی نہ کسی طرح سے لڑکی کو علم ہوجاتا ہے تب بھی اسے اس ظلم و بربریت پر چیخنے چلانے اور احتجاج کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا ہے اور وہ لڑکی اپنے سنگدل لالچی والدین کے مفاد کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے اور وقت سے پہلے پہلے مرجھا جاتی ہے اور اس قتل عمد پر کسی کے خلاف ایف آئی آر کٹوائی بھی نہیں جاسکتی،کیونکہ یہ قتل ایک مظلوم ، بے بس جوان لڑکی کی امنگوں، تمناؤں، ارمانوں کا ہوتا ہے اور ایسے قتل پر کسی بھی تھانے،کسی بھی عدالت میں کوئی قانون موجود نہیں ہے. جہاں جا کر لڑکی اپنی مظلومیت پر مقدمہ دائر کر سکے۔ ایسے بھی واقعات عام ہیں کہ بعض والدین اپنی بچیوں کی جھولی میں قرآن ڈال کر ان سے شادی کا حق بخشوا لیتے ہیں ، تاکہ لڑکی کے نام کی جائیداد گھر میں ہی رہے اور داماد کے نام منتقل نہ ہوسکے ۔ یہ عمل غیر شرعی ہے جو ہمارے معاشرے کا ایک جز و بنتا جا رہا ہے ۔
اور تو اور نئی آنے والی بہو کو کام والی بائی ہی سمجھا جاتا ہے ۔ ظاہر ہے کام والی بائی پیسوں کے ساتھ ساتھ عزت کی بھی بھوکی ہوتی ہے پر اپنے گھر میں نئی بہو پہ ہی اپنی زندگی کی ساری ناجائز باتیں تھوپ دیتے ہیں کہ بس جو کہا وہی کرو ورنہ طلاق کے طعنے !
گھر کے کام کاج مرد حضرات بھی کر سکتے ہیں ان کے ہاتھوں میں چھالے نہیں کہ جو کام عورت کا ہے وہی کرے حتیٰ کہ کام پہ نام نہیں لکھا ہوتا کہ اس کا ہے اور اسے ہی کرنا ہے ۔

اب یہاں یہ بات فرض کرتی ہے کہ  آپ  اور  آپ  گھر والے نئی آنے والی بہو کو کیا سمجھتے ہیں . پھر تو ثابت ہوا کہ تمہیں اپنے بیٹے کے لئے بہو و ہمسفر نہیں کام والی درکار ہے میں مشورہ دوں گا اسی سے کرا دو کیوں کہ  ناقص نظام تعلیم والی کبھی اپنے حقوق کی بات نہیں کرتی بس صرف دل میں سوچتی ہیں۔۔۔۔۔

جس کا ایک آسان حل یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد کے جائز حقوق کا پاس کریں اور اولاد اپنے والدین کا احترام کرے اور ایسا کوئی قدم نہ اٹھائے جو کہ شرمندگی اور رسوائی کا باعث ہو اور نہ ہی والدین ایسا کوئی سلوک کریں جس سے اولاد کے حقوق کی حق تلفی کا اہتمام ہو ۔

الغرض کہ شرعی اور عائلی قوانین کے دائرے میں رہ کر اس معاشرتی مسئلے کا اصولی اور قانونی حل نکالا جاسکتا ہے جو کہ موجود ہے صرف ان پر عمل درآمد کرنے کے لیے والدین اور اولاد کو اپنے اپنے رویے میں تبدیلی لانی ہوگی ۔ جس کے لیے اسلام اور روشن خیالی کے اصول اور تقاضوں کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔

خیال رہے کہ دین اسلام پوری کائنات کے لیے ایک ضابطہ حیات فراہم کرتا ہے ۔ یہ کہنا درست نہیں کہ اسلام ایک تنگ نظر مذہب ہے ۔ جو لوگ ایسا کہتے ہیں یا سمجھتے ہیں یہ ان کی اسلام سے ناواقفیت ہے اور ان کا مطالعہ ان لٹریچرز پر مبنی معلوم ہوتا ہے جو خاص طور پر اسلام کو بدنام کرنے اور ان کے جوابات میں خود ساختہ اسلامی نظریہ کا پرچار ہے جو ان دنوں ہر دو صورتوں میں مسلمانوں کے لیے بدنامی اور پریشانیوں کا باعث بنے ہوئے ہیں ، اگر گہرائی میں جاکر تجزیہ کیا جائے تو دونوں صورتوں کا پیدا کردہ ماسٹر مائنڈ ایک ہی مشینری نظر آتی ہے۔

یہیں سے روشن خیالی کا نظریہ پھوٹتا ہے جب کہ دین اسلام خود ایک روشن مذہب ہے جو نہ صرف ذہن کو روشن کرتا ہے بلکہ انسان کی پوری زندگی کو اندھیرے سے نکال کر ایک روشن منزل کی راہ پر گامزن کر دینے والا ہے ۔ لہٰذا اسلام اور روشن خیالی ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں ۔ البتہ مغرب کی روشن خیالی اسلام کی ضد ہے اور یہی مغربی نظریہ ہماری معاشرتی زندگی میں مسئلے مسائل کا موجب بنا ہوا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسلام میں ایسا کوئی ابہام نہیں ہے ہر موضوع پر کھل کر باتیں کی گئی ہیں ، مثالیں دی گئی ہیں ، وضاحتیں بھی موجود ہیں ۔ بھٹکنے اور گمراہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ قرآن مجید ہر مسلم کے گھر موجود ہے ۔ مستند احادیث شریف بھی دسترس میں ہیں تلاوت کیجیے ، مطالعہ کریں، سمجھیں، غور و فکر کریں اور عمل کریں کہ یہی سیدھا راستہ ہے جو روشنی فراہم کرتا ہے۔ باقی راہیں اندھی کھائی کی طرف جانے والی ہیں ۔

Facebook Comments

حمزہ حنیف مساعد
مکالمے پر یقین رکهنے والا ایک عام سا انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply