موت زندگی کی محافظ ہے ۔۔۔۔نذر محمد چوہان

اس میں کوئی  شک نہیں ۔ بُدھا زندگی کی تلاش میں اپنا گھر چھوڑ کر بہت دور جنگلوں میں نکل گیا اور ٹولسٹائے موت کے چکر میں ۔ دونوں اپنے عہد کے اپنے فلسفوں کے پیغمبر تھے ۔ دونوں روح کی روشنی میں محو تو تھے لیکن بڑے دردناک طریقے سے زندگی کا سچ پایا ۔ دراصل یہ زندگی جہاں جسم کے ساتھ اس دنیا میں ایک ہیت میں تبدیلی کا عمل ہے جسے انگریزی زبان میں کہتے ہیں metamorphoses اسی طرح موت اس کا حسن ہے ۔

انسان بچے  کی صورت میں پیدا ہوتا ہے اور مختلف صورتوں میں یہاں دنیا میں جسم کے ساتھ کچھ وقت گزارتا ہے ۔ ہر فلاسفر اسے مختلف طریقہ سے گزارنے کا اپنا انوکھا فلسفہ پیش کرتا ہے اور اس کے مختلف ادوار یا phases اپنے ہی طریقہ سے بیان کرتا ہے ۔ اوشو کا سمجھانا مجھے بہت پسند آیا ۔ اس کے نزدیک بچے  کی صورت کوئی  بارہ سال تک چلتی ہے اور اس کے بعد اسے اونٹ کی طرح سارا سازوسامان اکٹھا کرنا ہے ۔ جس نے جو بھی مقصد اس دنیا میں پورا کرنا ہے جو کہ  اس کی قدرت میں ہے ، اور جس کے لیے وہ پیدا ہوا ہے اس کے لیے راشن اکٹھا کرنا ہے ۔ پھر اس میں تربیت اور مہارت حاصل کر کے اگلے مرحلہ میں شیر کی طرح چنگھاڑنا ہے ۔ اور آخر میں بچہ بن کے اس دنیا سے کُوچ کر جانا ہے ۔ کمال آسانی سے سارا معاملہ بیان کیا ہے ۔ اس میں اس کا کسی سے مقابلہ نہیں ۔ کوئی  کسی چیز کی کمی نہیں ، قدرت کا ہر وقت ساتھ ، خدا ساتھ اور پیار و محبت والا معاملہ اس پیار اور زندگی کی دمک اور چمک ساری کائنات کے رقص کا محور ۔ ہم میں سے کوئی  ۳۰ فیصد لوگ اپنی زندگی کے آخری ایام میں یہ معاملہ سمجھ پاتے ہیں لیکن وقت ہاتھ سے پھر نکل گیا ہوتاہے ، چڑیاں کھیت چُگ گئی  ہوتی ہیں ۔ ہم وہ مقصد پورا ہی نہیں کر پاتے جس کے لیے ہمیں اس دنیا میں بھیجا گیا ۔ ہم تو مادہ پرستی اور تقلید میں رنگے ہوئے قبر میں اتارے جاتے ہیں ۔

مجھے امریکہ میں سب سے خوبصورت جگہیں اور عمارتیں ہمیشہ funeral houses کی لگیں ۔ کیا خوبصورت طریقے سے مادہ پرست اشخاص کو دفن کیا جاتا ہے ۔ سارے استحصال، لالچ اور ہوس کے گناہ ان خوبصورت خوشبوؤں میں دھو دیے جاتے ہیں جیسے کل ثاقب نثار نے اعتزاز احسن کو پگھلنے کا کہا ۔ پچھلے مہینے میں نے ایک funeral home میں ایک چھوٹے بچہ کو سرخ گلاب کا پھول لیے میت کے ساتھ  لپٹا دیکھا ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ  کون ہے جو دنیا سے رخصت ہوا اس نے پُرنم آنکھوں سے کہا my granny۔ میں نے اسے کہا تمہاری بات کرواؤں granny سے اس نے کہا نہیں
If you could get her back”
میں نے کہا
No power on earth can get back her body but her soul is with you small boy
اس کے بعد باقاعدہ funeral سروسز شروع ہو گئیں اور میں ان میں شامل ہونے کے بعد واپس چل دیا ۔
مجھے عظیم لوگوں کی زندگیوں کو پڑھنے کا بہت شوق ہے ۔ ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے ۔ ان میں سے ہی ایک سولہویں صدی میں پیدا ہوئے شخص کا قصہ جس کانام تھا
Benvenuto Cellini
میں اس کو اختصار سے بین لکھنا پسند کروں گا ۔ بین بچپن سے بڑا منہ زور تھا ۔ باپ پڑھانا چاہتا تھا لیکن بین نے کہا کہ  میں سنار بنوں گا اور ڈٹا رہا اپنے موقف پر ۔ سونے کے مجسمے  بنانے شروع کر دیے ۔ کیا کمال کے کام کرتا تھا مرضی کی اجرت لیتا تھا اور بڑے بڑے حکمرانوں سے ٹکر لیتا تھا ۔ فرانس کے بادشاہ نے اسے اپنے محل میں اس کے مجسمہ بنانے کے لیے رکھا اس نے کہا مجھے بھی اتنے پیسے دو جتنے تم Leonardo de Vinci کو دیتے تھے ۔ اور اتنے ہی لے کر دم لیا ۔ دونوں Italian تھے اور دونوں نامور مجسمہ نگار ، لیکن کیونکہ بین میری طرح  لڑاکا ٹائپ آدمی تھا مشہور نہ ہو سکا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

بین کے بارے میں آپ بہت ساری معلومات گوگل کر کے پڑھ لیں گے لیکن جو  بات میں  اس بلاگ میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ  بین کیا زبردست انداز میں اونٹ بنا سارا سنارپن سیکھا اور store کیا ، اور میں پھر اگلہ مرحلہ میں کیسے ببر شیر کی طرح چنگھاڑا اور زندگی کے آخری حصے  میں دوبارہ بچہ بن گیا ۔ بین وہ شخص تھا جو چھوٹی سی بات پر لوگوں کی جان نکال لیتا تھا اپنے آپ کو خدا سمجھتا تھا ، جب بچہ بنا تو شاعری اور رومانس میں مگن ہو گیا ۔ بلکل ایک دم خاموش ہو گیا ۔ تیمور جیسے آخری دنوں میں ٹھنڈا پڑ گیا تھا ۔ الگ تھلگ زندگی گزارتا تھا اور بہت ہی دھیمی اور مدھم طریقے سے دنیا سے رخصت ہو گیا ۔ اس کی زندگی کے آخری دنوں کا بچپنا نہ تو اداسی یا melancholy تھی بلکہ ایک زبردست سکون ، جو میں ادھر امریکہ آ کر پاکستان میں تمام جنگیں لڑ کر محسوس کرتا ہوں ۔ میں جب فیض صاحب کو ان کی وفات سے پانچ سال پہلے ملا تو انہیں بہت خاموش پایا وہ بلکل وہ فیض نہیں تھے جو ملٹری ڈکٹیٹر ضیاء کے سامنے چنگھاڑ تے تھے ۔ اسی طرح احمد فراز کو پایا ۔ یہی اس ساری زندگی اور موت کا راز ہے ۔ کاش ہم سمجھ سکیں ۔ بہت خوش رہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply