عذرِ گناہ، بدتراز گناہ۔۔۔ربیعہ فاطمہ بخاری

ہمارے یہاں پاکستان میں چند سال پہلے ہم جنس پرستی کا لفظ انتہائی غیر معروف تھا، زیادہ ترلوگوں کا اس سے تعارف محض قومِ لوطؑ کےحوالے سے تھا کہ وہ کس طرح فطرت کےاصولوں کے منافی ایک انتہائی قبیح اور گھٹیا فعل  میں ملوث تھے اور اسی عملِ بد کی سزا کے طورپر ربِ کائنات نے اس قوم کوہی تاقیامت نشانِ عبرت بنا دیا۔ میں یہ ہرگز نہیں کہہ رہی کہ اُسوقت  ہمارے معاشرے میں   موجود ہی نہیں تھے، بالکل تھے، کہ جہاں جہاں انسانی معاشرہ موجود ہے وہاں نیکی کے ساتھ بدی، ثواب کے ساتھ عذاب اور اچھائی کے ساتھ برائی کا وجودبھی ایک مسلّمہ حقیقت رکھتا ہے۔
لیکن فرق یہ تھا کہ اس وقت تک اگر اس قبیل کےکچھ لوگ معاشرے میں موجود تھے بھی تو وہ شرم اور ذلت کے مارے کبھی نہ تو اعترافِ حقیقت کرتے تھے اور نہ ہی معاشرے میں اپنی شناخت بطور ایک ہم جنس پرست کے کرواناچاہتے تھے۔گزرتے وقت کے ساتھ جہاں انسانی معاشرے کےمعیارات میں بہت سے مقامات پر بہت سی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی ہیں وہیں عزت اور غیرت کےمعیار بھی یکسر بدل گئے ہیں۔ اور یہ ترقیءمعکوس کچھ اس درجے پر پہنچ گئی  ہے کہ ہم دھیرے دھیرے قربِ قیامت کے اس دور میں داخل ہو چکے ہیں کہ جب ایک ہم جنس پرست “پاکستانی مسلمان” ببانگِ دہل فخریہ اپنے “گے” ہونے کا نہ صرف یہ کہ اعتراف کرتا ہے بلکہ اپنی تصویرکے ساتھ ایک بلاگ لکھتا ہے اور اس میں اپنےتجربات بیان کرتا ہے اور ان تجربات سے نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ ایک “گے مسلمان” ہونا کوئی بڑی بات نہیں،میرا حساب ا للّٰہ لے گا اور ہم جنس پرست ہونے کی بس “معمولی” سی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اور وہ ہے ایڈز۔۔۔۔۔!!
بہرحال وہ ایک انتہائی خوش گمان مسلمان ہے جوحدودا  للّٰہ کو برسرِ عام پامال بھی کر رہا ہے، اس پر رتّی بھر پشیمان بھی نہیں، توبہ کرنے کا توسوال ہی نہیں اور وہ پھر بھی ببانگِ دہل کہہ رہاہے کہ میرا معاملہ ا للہ کے ساتھ ہے۔ چلئیے یہ توواقعی ایک اٹل حقیقت ہے کہ اس کے گناہ ثواب جانیں اور رب العزت جانے۔ لیکن جس انداز میں وہ حضرت ایڈز کو ایک معمولی بیماری بنا کرپیش کر رہے تھے اور یہ کہ ایک نارمل زندگی گزارنے کے لئے ایک ایچ آئی وی پوزیٹو کومحض دو گولیاں روزانہ کھانا پڑتی ہیں۔ میں اسکے اس انداز سے حیران رہ گئی اور مجھے گمان گزرا کہ شاید اس میدان میں کوئی جدید ترین تحقیق ہوئی ہے اور ایڈز کا علاج ممکن ہو گیا ہے۔ سوچااس پر تھوڑی سی تحقیق کر لوں۔
آئیے آپ کا ایڈز کے مرض سے ہلکا پھلکا تعارف کرواتے ہیں۔
ایڈز کا مرض بنیادی طور پر مریض کے مدافعتی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اور جیسے جیسےمرض کی شدّت بڑھتی ہے قوتِ مدافعت کمزورسے کمزور تر ہوتی جاتی ہے اور اس صورتحال میں زکام، بخار اور ہیضہ جیسی معمولی بیماریاں بھی مستقل صورت اختیار کر لیتی ہیں اور جسم دن بہ دن کمزور ہوتے ہوتے موت کی دہلیزپر جاپہنچتا ہے۔ ایڈز کی چند ایک علامات کچھ یوں ہیں۔مستقلاً بخار کی کیفیت،گلے کی دکھن،سر میں شدیددرد۔ مستقل ہیضہ، منہ کا السر، کھانسی، مستقل تھکاوٹ اور ان سب کے ساتھ مردوں کو اس بیماری کا ایک خاص “تحفہ” اعضائے تولید میں السر کی شکل میں ملتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ایڈز کے مریض کے جنسی ہارمون کی پیدائش میں شدید کمی واقع ہو جاتی ہے۔ یہ تو تھا ایڈز کےمرض سے مختصر تعارف۔ اب آتے ہیں اس کےعلاج کی طرف، تو یہ تاثر دینا کہ ایچ آئی وی پوزیٹو محض دو گولیاں روزانہ کھا کر زندگی کونارمل انداز میں گزار سکتا ہے، سراسرمبنی بردروغ ہے۔ حقائق اس کے بالکل بر عکس ہیں۔
گوگل سرچ انجن کے مطابق ایک ایچ آئی وی پوزیٹو کو ایڈز کے سٹیج تک پہنچنے سے خود کوبچانے کیلئے اور کسی حد تک نارمل زندگی گزارنے کیلئے ایک دن میں کم ازکم تیرہ اور زیادہ سے زیادہ  ساٹھ گولیاں کھانا پڑتی ہیں۔ اب یہ اتنی ڈھیرساری دوائیاں ظاہر ہے کہ مفت میں تو دستیاب نہیں ہو سکتیں۔ امریکہ میں کی گئی  ایک تحقیق کےمطابق ایڈز کے ایک مریض کی صرف ادویات پرسالانہ انیس ہزار نو سو بارہ ڈالر کی رقم خرچ ہوتی ہے، جو پاکستانی روپوں میں چوبیس لاکھ ستاسی ہزار پانچ سو روپے بنتے ہیں اور اگرروزانہ کی بنیاد پر اسے تقسیم کیاجائے تو یہ چھ ہزار سے زیادہ رقم بنتی ہے۔
اس عملِ قبیح کیلئے عام طور پر ہمارے دوست جودلیل دیتے ہیں وہ ہے “فطری اور پیدائشی رجحان”۔
عرض یہ ہے عزیزو کہ اگر آپ کسی بھی معاشرے میں اخلاقی اقدار کا معیار کسی بھی فردکے فطری رجحان کو بنا لیں گے تو یوں سمجھ لیں اکہ آپ نے اس معاشرے میں ایک ڈائنامائٹ فٹ کردیا ہے جس نے اولاً تو اس معاشرے کی اقداروروایات اوربالآخر اس معاشرے کو ہی تہہ وبالا کر دینا ہے۔ ایک چور بآسانی یہ تاویل دے کرقانون کے شکنجے سے بچ سکتا ہے کہ میں کسی کی بھی چیز دیکھ کر خود پرسے اختیار کھو دیتاہوں اور جب تک وہ چیز چراؤں نہ مجھے چین نہیں ملتا کیونکہ میں فطری طور پر ایک چورہوں۔ ایک زانی کے پاس بھی یہی دلیل ہو گی،ایک جھوٹا، ایک بے ایمان، ایک دغاباز، ایک قانون شکن اسی دلیل پر اپنامقدمہ جیت سکتا ہے۔ فی زمانہ جب شیطانی وساوس نےہزار رنگ اپنا لئےہیں آپ کس کس کے “فطری رجحان” کو معاشرےمیں سندِ قبولیت بخشیں گے۔۔؟؟ اس معیار پر تو آپکو پیڈیوفیلک، نیکروفیلک،انسِسٹِسٹس سمیت بہت سے اور لوگوں کے “فطری رجحانات” کو بھی معاشرتی اقدار کےطور پر تسلیم کرنا پڑے گا۔ آپ ایک لمحے کیلئے ایک ایسے معاشرے کو چشمِ تصور میں دیکھیں جہاں کوئی بھی انسان اپنی شہوتِ نفسانی مٹانے کیلئے کسی بھی اپنے ہم جنس، کسی بھی جنگلی یا پالتو جانور، کسی بھی ننھے معصوم بچے ، قبر میں پڑے کسی مردےاور یہاں تک کہ اپنے ہی کسی بہن، بھائی یا ماں یاباپ کے پاس جاتا ہے اور آپ اس پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہیں کہ وہ “بیچارہ” اپنےفطری رجحان کے ہاتھوں مجبور ہے۔
عرض یہ ہے محترم قارئین۔!! آپ کا تعلق چاہےکسی بھی مذہب سے ہے، کسی بھی مسلک سےہے، آپ دنیا کے کسی بھی ملک یا کسی بھی خطے کے باسی ہیں، کچھ اخلاقی اقدار اورمعاشرتی حدود و قیود ایسی ہوتی ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہی انسان ایک “انسانی معاشرہ” تشکیل دے سکتے ہیں۔ بصورتِ دیگر انجامِ کار محض افراد کی ذلت آمیز زندگی یا ایڈز جیسے عفریت کے ہاتھوں ذلت آمیز اور کربناک موت اورمعاشروں کی تباہی ہی مقدر ٹھہرتی ہے۔
آپ اپنی زندگی میں بحیثیت ہم جنس پرست خود کوزیادہ پرسکون اور مزے میں محسوس کرتے ہیں
تو بصد شوق کیا کیجئے، کہ یہ بھی عذابِ الٰہی ہی کی ایک صورت ہے کہ آپ کے اندر سے ضمیرنامی چیز اور احساسِ گناہ نامی جذبہ مٹ چکا ہے،لیکن خدارا اپنی غلیظ اور آلودہ اذہان کی غلاظت کو معاشرے میں نہ انڈیلئے۔ اپنی غلاظت کو اپنی ذات تک محدود رکھئےکہ ہمارا معاشرہ جو پہلےہی اخلاقی طور پر شدید انحطاط کا شکار ہے مذیدقعرِ مذلت میں نہ جا گرے۔

Facebook Comments

ربیعہ فاطمہ بخاری
لاہور کی رہائشی ربیعہ فاطمہ بخاری پنجاب یونیورسٹی سے کمیونی کیشن سٹڈیز میں ماسٹرز ہیں۔ تدریس کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں لیکن اب ایک خاتونِ خانہ کے طور پر زندگی گزار رہی ہوں۔ لکھنے کی صلاحیت پرانی ہے لیکن قلم آزمانے کا وقت اب آیا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply