حکایت ایک ہیروئنچی کی ۔۔۔ حارث خان

قوم قربانی دے۔ لیڈر نے اصرار کیا۔ 

جناب قرض میں ڈوبے لوگوں پر قربابی لاگو نہیں ہوتی شریعت سے ثابِت ہے۔ 

شریعت میں قرض دار کے لیے قربابی کی گنجائش نکالی جائے۔ لیڈر نے حکم دیا۔

قربان جاؤں کس بھولے انسان کی یاد دلا دی۔ ممنون حسین، کیا ہی کوئی عجیب الخلقت کٹھ پتلی انسان تھا۔ میرے خیال سے اگر چابی والا وزیر اعظم ہی بٹھانا ہی تھا تو ممنون حسین سے بہتر انسان اِس کرہ اَرْض پہ سورج ہاتھ میں لیے بھی  گھومتے تو نہ ملتا۔ خیر برا تو نشئی بھی نہیں ہوتا، بیچارہ ایک پڑیا کے لیے کوئی بھی کام كر دیتا ہے۔ اس سے پہلے کہ نشئی کے ذکر سے آپ کچھ اور سمجھیں، میں وضاحت کرتا چلوں۔ ماجرہ کچھ یوں ہے کے ایک ہیروئینچی سے دلچسب مکالمہ ہوا تو سوچا یہ مکالمہ اہل مکالمہ تک بھی پہنچا دیا جائے۔ 

ہیروئنچی وہی اپنی مجبوریاں گنوا کے بھیک مانگ رہا تھا کہ دس روپے دے دو میں نے کچھ کھایا نہیں ہے۔ ساتھ براجمان دوست نے کہا اس نے کیا كھانا، اس کو تو پڑیا چاہیے بس۔ ہیروئنچی غضبناک ہوگیا کہ پڑیا تو فلاں تھانے سے مل جاتی ہے، بدلے میں مجھے تھانے کی صفائی ستھرائی کا کام ملتا ہے۔ وہ جیسا کہتے ہیں میں کرتا ہوں۔ 

یہ بات سن کے ذرا بات کی کھال نکلنے کا من ہوا۔ ہم نے ہیروئنچی سے 100 روپے کا وعدہ كر لیا کہ تفصیل سے بتاؤ پِھر ہم تمہیں 100 روپے دیں گے۔ 

ہیرونچی کی تفصیلات کافی دلچسپ تھیں۔ کہنے لگا میں فلاں تھانے کا خبری ہوں اور میری خوراک کا بندوبست ان ہی کے ذمے ہے۔ وہی میرے رازِق وہی میرے مالک۔ اِس ایک پڑیا کے لیے مجھے پورے تھانے کی گندگی صاف کرنی پڑتی ہے۔ میری ڈیوٹی میں کچھ خبریں بھی ادھر سے اُدھر کرنی لازمی ہے مجھ پر۔ لازم ہے کہیں کوئی اَچّھا مرغا دیکھوں تو تھانےکو اطلاع کروں تاکہ مجھے انعام و اکرام سے نوازا جائے۔ اسی لیے مجھے کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔ میرا حق ہے جو چاہوں کروں۔ میں چوری بھی کرتا ہوں تو مجھے اُسی تھانے لے جایا جاتا ہے جہاں میرے مائی باپ بیٹھے ہیں۔ غرضیکہ میری زندگی طاقتور محکمے کے زیر سایہ چل رہی ہے۔ 

ہیروئنچی احوال سن کر میں اور ساتھ تشریف فرما دوست ایک دوسرے کی شکلیں دیکھ کر اثبات میں سر ہلانے لگے۔ “خوب، بہت خوب”۔ آخرکار جیب سے 100 روپے نِکال کر دیے اور اپنا راسته پکڑا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تو دوستوں، عرض یہ ہے کے اِس مختصر سے واقعے کا کسی حقیقت سے مماثلت رکھنا محض اتفاق ہو سکتا ہے۔ میں تو بس ایک واقعہ بیان کرہا تھا۔ ایک ہیروئنچی کا واقعہ۔ ایک ہیروئنچی کی حکایت۔ 

Facebook Comments

حارث خان
ایک عام آدمی، معاشرے کا چلتا پھرتا نمائندہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply