گھر پہ مت بتانا۔۔۔ شیراز چوہان سوز

تحریر: شیراز چوہان سوز

شروع کرتے ہیں شروع کی کہانی سے۔ پہلے پہل جب ہمارا بچہ چھوٹا تھا، گھر پہ آتا تھا، ہمارے ارد گرد گھومتا تھا، ہر بات بتاتا تھا کہ آج یہ ہوا سکول میں، آج وہ ہوا سکول میں۔ آج حمزہ نے مجھے تنگ کیا، میڈم نے پیار کیا۔ گویا ہر بات ہم اس کی سنتے تھے مسکراتے تھے یعنی اصلاً ہم اس کی بات کو قبول کرتے تھے اس کی بات کی تائید کرتے تھے حوصلہ افزائی کرتے تھے! بعد ازاں جب وہ بچہ تھوڑا بڑا ہوا تو ہم اس کے گرد گھومتے ہیں آج کیا کیا سکول میں، کون کون تمہارا نیا دوست بنا، کیسے دن گزرا وغیرہ وغیرہ ! اب وہی بچہ پوچھنے پر بھی نہیں بتاتا ہے ! آخر کیا وجہ ہوئی ؟

صرف کچھ سال کا وقت گزرا اور والدین اور بچے کے بیچ اس قدر فاصلہ! اچانک کیا ہو گیا؟ رشتہ وہی، والدین وہی، بچہ وہی، جو بچہ پہلے ہر بات وضاحت سے ہمیں بتاتا تھا، اب وہ ہمیں کچھ نہیں بتا رہا۔ کچھ نہیں سمجھ آ رہا، یاد نہیں آ رہا۔ چلیں تھوڑا فلیش بیک میں چلتے ہیں۔ یاد کیجئے جب بچہ گھر آیا اور اس نے بتایا اپنی روزمرہ کی روٹین کے مطابق کہ ممی ممی آج نا ہم سکول بنک کر کے پارک میں گھومنے گئے تھے ! بہت مزہ آیا ۔ جہاں کئی دن سے بچے کو قبول کیا جا رہا تھا، ہر بات پر مسکرایا جا رہا تھا، حوصلہ افزائی کی جا رہی تھی، کسی بھی بات پر محبت اور شفقت ملتی تھی، آج وہیں ڈانٹ پڑ گئی۔ اس کی ایکسپٹینس ریجیکشن میں بدل گئی، پھر شام کو ایک گول میز کانفرنس ہوئی جس میں انٹرپریٹ کیا گیا کہ ہمارا بچہ بگڑ رہا ہے۔ کیا کرنا ہے اس کے ساتھَ اسی طرح کچھ برس بعد پھر ایک روز جب بچہ آپ کے پاس آیا اس نے بتایا ممی آپ کو پتا ہے ہم ایک دوست کی پارٹی میں گئے وہاں میرے دوست نے سگریٹ دی اور میں نے پی بھی۔ پھر ۔۔۔ چراغوں میں روشنی نہ رہنے کے مصداق بچے کا کیا حال کیا گیا، یہ والدین بہتر جانتے ہیں !

وقت گزرنے کے ساتھ اسے شعور آتا گیا اور اس نے بتانا بند کر دیا اور ہم نے سوچا کہ اس نے کرنا بند کر دیا ہے، ہم نے سوچا کہ ہم نے ڈانٹا اور انہوں نے کرنا بند کر دیا مگر حقیقت اس کے برعکس ہے اور وہ یہ کہ انہوں نے کرنا تو ہرگز نہیں چھوڑا، ہاں کر کے بتانا بند کر دیا۔

اسی طرح اگر ہم اپنے گرد و پیش پر نگاہ دوڑائیں تو بیسیوں بار ایسا ہوتا ہے کہ جب ایک بچہ کوئی غلطی کر لیتا ہے تو پریشان ہوتا ہے۔ وہ بچہ آپ کے محلے کے نکڑ والے گھر کے رفیق صاحب کا بڑا لڑکا ہو سکتا ہے۔ آپ کے پاس آتا ہے، پریشانی کے عالم میں اپنا مدعا بتاتا ہے کہ "مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی، مجھے ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ انکل/آنٹی بتائیں نا اب کیا کروں"؟ اور آخری جملہ جو انتہائی خطرناک اور کربناک ہے، وہ کہتا ہے کہ
"Please don’t tell this to my parents"

اسے ہم رائے دے دیتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں کہیں تو کہتے ہیں "کچھ نہیں ہوتا، پریشان نہیں ہونا Relax ہو جاؤ، آگے کیا کرنا ہے یہ سوچتے ہیں" اور کیسا ہو کہ اسی شام ہمارا اپنا بچہ بھی رفیق صاحب کے پاس بیٹھا یہی جملے دہرا رہا ہو، یہی جملے جو ہم دوسرے کے بچے کو کہتے ہیں، اپنے بچے کو نہیں کہہ سکتے۔ کیا اس کی غلطی ہمارے لیے غلطی سے بڑھ کر کچھ ہے آخر کیوں ؟ ہم دوسرے کے بچے کیلئے تو بہترین اور ارفع قسم کے صلاح کار بن سکتے ہیں ناصح بن سکتے ہیں مگر اپنے بچے کیلئے ہرگز نہیں ! کیونکہ جب وہی مسئلہ جو رفیق صاحب کا بیٹا لے کر آیا، ہمارا بچہ لائے تو ہم کیا یہی کہتے ہیں جو ان کے بیٹے کو کہا تھا ؟ چند مخصوص جملے جو اکثر دہرائے جاتے ہیں، انہی کا اعادہ کر کے بول دیے جاتے ہیں کہ "تم تو میرا بچہ ہو ہی نہیں، تم ضرور ہسپتال میں بدل گئے ہو گی، یہ کہاں سے آفت ہمارے گھر میں پیدا ہو گیا وغیرہ وغیرہ" جس سے ہم بچے کو خود اپنے ہی ہاتھوں خود سے میلوں دور کر دیتے ہیں۔ حالانکہ جو وقت گرنے کا ہے، وہی وقت اسے اٹھانے کا ہے۔ گرے ہوئے کو اٹھانے کی بجائے خود اپنے ہی ہاتھوں اپنے بچے کو مزید تکلیف دینا کیا درست ہے؟ حالانکہ اس وقت اسے پیار اور سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ بعد میں اسے سمجھایا جا سکتا ہے، جب وہ سمجھ بھی لے گا۔ جسمانی اذیت میں ناصح کسی کام کا نہیں تو اس وقت بچہ ذہنی اذیت سے گزر رہا ہوتا ہے!

سگریٹ پینا غلط بات ہے ! بیس سال کی عمر میں آپ کے دوست سگریٹ پی رہے ہیں، کلاس فیلوز سگریٹ پی رہے ہیں۔ اس وقت آپ کو تجسس ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اگر آپ کا بچہ ایسا کچھ کر دیتا ہے اور وہ آپ کو خود بتاتا ہے کہ آج ایسا ہوا، آپ اسے کیا کہیں گے ؟ وہی سب؟ کیا کوئی ایسا بھی ہے جسے معلوم ہو کہ اس کا بچہ سگریٹ پیتا ہے اور وہ اس کے جیب خرچ میں اضافہ کرتے ہوئے یہ کہے کہ "پینے میں مسئلہ نہیں لیکن اچھے والے پی لیا کرو" جی ہاں بالکل ہیں۔ ہمارے ایک بہت ہی عزیز دوست حافظ صفوان صاحب نے یہی رویہ روا رکھ رکھا ہے، وہ جانتے ہیں کہ سگریٹ غلط ہے مگر بچہ غلط نہیں ہے۔ اس عمر میں ایسا چاہنا، خواہش ہونا فطری ہے !

20 سے 25 سال کے بیچ والے 95 فیصد لوگوں نے کبھی نہ کبھی سگریٹ ضرور پی ہوتی ہے اور باقی 5 فیصد جھوٹ بولتے ہیں !!

جب ہر سٹیج پر ہم اپنے بچے کو ریجیکٹ کر رہے ہوتے ہیں مگر اس کے دوست اسے اکسیپٹ کرتے ہیں تو کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کوئی کام نہیں کرنا چاہ رہے ہوتے مگر کرتے ہیں کیونکہ وہ دوستوں کی ایکسپٹینس کو نہیں کھونا چاہتے۔ والدین کی تو وہ پہلے ہی کھو چکے ہیں، تو وہ ایسا بھی کچھ کرنے سے باز نہیں رہتے جو بہت غلط ہے کیونکہ ہم انہیں سننے کیلئے تیار نہیں تھے۔ ہم ان کا سچ سننے کو تیار نہیں تھے، ہمی نے مجبور کیا کہ وہ جھوٹ بولیں، اگر ہم سچ سنتے تو آج وہ اتنا دور نہ جاتے، وہ ہمارے پاس ہوتے۔ بچوں کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے کے بجائے ان کی خوبیوں کی بھی نشاندہی کیجئے۔ انہیں بول کر بتائیے کہ آپ میں تو یہ خوبی بھی ہے یہ کمال فن بھی آپ رکھتے ہیں !

Advertisements
julia rana solicitors

خاموشی فاصلے بڑھاتی ہے بولنا ہی حل ہے، غلطی غلط ہی ہے مگر سمجھانے کے وقت کا انتخاب بھی غلط ہے !!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply