جمال الدین افغانی: ایک تاریخی مسخرہ۔۔۔۔رشید یوسفزئی

مطالعہ پاکستان تاریخی حقائق کا  ظالمانہ قتل ہے۔ تضادات، جھوٹ، منافقت، جعلی واقعات کے  ایک مجموعہ کو پاکستان سٹڈیز بنا کے جماعت اول سے لیکر مقابلے کے  اعلی ترین امتحان  میں سی ایس ایس تک طالب علموں اور امیدواروں کو پڑھائی  اور رٹائی جاتی ہے . آزادی  ہند اور تحریک پاکستان سے وابستہ کسی شخصیت احمد سرہندی، شاہ ولی اللہ،سرسید، جناح، لیاقت علی خان، ابوالکلام آزاد، علی برادران، چوہدری رحمت علی، محمودالحسن، مودودی کی بھی غیر متنازعہ، مبنی بر حقیقت اور متوازن تاریخی پروفائل موجود نہیں.

مطالعہ پاکستان شاید انسانی تاریخ کی  واحد نصابی کتاب ہے جس میں بنیادی محرک، دو قومی نظریہ جناح، پھر سرسید، پھر سرہندی، پھر محمد بن قاسم پھر حضرت آدم علیہ السلام سے منسوب کیا جاتا ہے. یہاں 1857  کی جنگ آزادی/غدر میں لڑنے والے مجاہد اور غازی تو ان کے خلاف لکھنے والے، ان کو غدار کہنے والے سرسید احمد خان ہیرو ہیں۔ کبھی اقبال خالق تصور پاکستان ہے تو کبھی، بقول پروفیسر فتح محمد ملک، اقبال کے  پمفلٹ کا  سرقہ کرنے والے اور پھر اپنے نام سے شائع کرنے والے چوہدری رحمت علی لفظ پاکستان کے خالق۔ مطالعہ پاکستان نہیں کباڑ  یے کی بوری ہے جہاں سب کچھ ملتا ہے.

مطالعہ پاکستان کا ایک لازمی کردار جمال الدین افغانی ہے، جس کو متعلقہ تمام کتب نصاب پاکستان  اسلام ازم، نظریہ پاکستان، احیائے مسلمان ہند کے تصور کا خالق اور پیشرؤ  بیان کرتے ہیں جن سے متاثر ہو کر اقبال نے آزاد مسلم ریاست کا تصور پیش کیا. جمال الدین افغانی کو ہندوستانی مسلمانوں کے حقوق کا چیمپئن کہا جاتا ہے  اور عالمی استعماری قوتوں کا بالعموم جبکہ برطانوی استعمار کا بالخصوص دشمن اعظم. اس مقدس لبادے میں اپنے آپ کو لپیٹنے کا ڈرامہ خود جمال الدین افغانی نے رچایا. نفسیاتی امراض میں multiple personality disorder ایک مرض جس میں ایک شخص اتنے روپ اختیار کرتا ہے  کہ یہ اسکی فطرت بن جاتی ہے . ہالی ووڈ سے وابستہ سکرپٹ رائٹر سڈنی شیلڈن نے اس پر ایک جاذب ناول لکھا  جس کا نام اس وقت بھول گیا ہو ں. اس کی  شخصیت کے دقیق مطالعے سے لگتا ہے کہ افغانی بھی اس مرض میں مبتلا تھے. جدید تحقیق نے جمال الدین افغانی کے عظمت کے لبادے کے بخیےادھیڑ     دئیے ہیں. کاش مطالعہ پاکستان والے اور پاکستانی ٹیکسٹ بک بورڈز  افسانوں کی بجائے حقیقت لکھنے کی جرات رکھتے.

خود کو افغانی سنی کہنے والے سید محمد بن صفدر المعروف بہ جمال الدین افغانی ایران کے مشہور علاقے ہمدان کے اسد آباد کے شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے. (Jamal el Din Afghani: A Political Biography. Nikki R. Keddi) شیعہ ہونا  کوئی عیب نہیں. جناح اسماعیلی شیعہ تھے ، 1906 کے اردگرد اثنا عشری شیعہ بن گئے . 1934 میں دوبارہ اسماعیلی آغا خانی بن گئے . تاہم  خود جمال الدین نے اپنے آپ کو افغانی حنفی سنی پیش کیا اور اب مطالعہ پاکستان کے ماہرین  کا ایمان ہے  کہ ان کو سنی افغانی ہی مانا جائے. عقیدہ ہل سکتا ہے تاہم جغرافیائی حقیقتیں پاکستانی ٹیکسٹ بورڈز کی تابع نہیں اور اسدآباد کبھی افغانستان منتقل نہیں ہوسکتا۔

جمال الدین افغانی 1854-57، پھر، 1869 اور اس کے بعد 1880-81 میں انڈیا میں تھا. اسی دوران میں اس نے حیدرآباد اور کلکتی میں کئی لیکچرز دئیے جن میں کچھ “مقالات جمالیہ” کے نام سے 1884 میں کلکتہ سے شائع ہوئے  ہیں. انڈیا کے حوالے سے اس کے خیالات کا   درست ریکارڈ صرف یہ مقالات ہیں جن میں پاکستان اسلام ازم، اسلامی یگانگت اور مسلم اتحاد کا نام و شان تک نہیں بلکہ اسلام کا   دفاع بھی صرف سرسید کو غلیظ گالیوں کی شکل میں ہے . ان مقالات کے تین موضوعات ہیں: اول علاقائی یا لسانی نوعیت پر مبنی قومیت کی دفاع۔۔ یعنی ہندو مسلم اتحاد(ان کے مطابق دونوں ایک زبان بولتے ہیں)، دوم فلسفہ اور جدید سائنسی علوم کا   حصول تاکید، اور سوم سرسید احمدخان کو گالیاں.

افغانی کے خیالات میں زبان کی اہمیت مذہب کے مقابلے میں زیادہ ہے . انہی مقالات میں لکھتے ہیں، “اس میں کوئی  شک نہیں کہ لسانی وحدت، مذہبی وحدت سے زیادہ دیرپا ہوتی ہے. کیونکہ مذہب قلیل مدت میں تبدیلی کا شکار ہوتا ہے جبکہ زبان کوئی اثر قبول کئے بغیر قائم رہ سکتی ہے.” مسلمانوں سے متعلق قومیت کے امور پر افغانی نے کچھ بھی نہیں کہا بلکہ وہ تو انڈیا میں ہندو مسلم تفریق سے قاصر ہے. 8 اکتوبر 1882کو کلکتہ میں ایک لیکچر میں کہتا ہے،” ہندوستان کے  موجودہ جوان میرے لئے خوشی کا باعث ہیں   کیونکہ یہ اسی نسل کے سپوت ہیں جس نے دنیامیں انسانی تہذیب کی پرورش کی. ہندو تہذیب نے دنیا کو قوانین و ضوابط کا مجموعہ دیا۔۔۔ یہ رومن لاء جو تمام مغربی قوانین کی ماں یہاں کے چہار ویدوں اور شاستروں سے لی گئی ہے !” عروۃ الوثقی میں ایک جگہ لکھتا ہے،” مذہبی رشتہ دوسرے مذاہب سے قومی یگانگت کی راہ میں حائل نہیں۔ انڈیا اور مصر میں مسلمانوں کو چاہیے کہ  غیر مسلم ہم وطنوں سے کوئی  عدم مشابہت نہ رکھیں”.

انڈیا میں اسکی تبلیغ، اسکے نظریات کے  عین مطابق تھی. زبان کی اتحادی قوت پر اسکا ایمان تھا اور لسانی قومیت سازی کو وہ مذہبی قومیت سازی پر ترجیح دیتا تھا. (خاطرات جمال الدین الافغانی از محمد مخزومی، طبع بیروت، تاریخ الاستاد الامام الشیخ محمد عبدہ از رشید رضا)
کیا یہ پاکستان اسلام ازم اور  دو قومی نظریہ کی بنیاد ہے؟
الرد نیچریہ،سرسید کے مخالفت میں حیدر آباد دکن کے رسالے” معلم الشفیق” میں اکتوبر 1881 میں دو اقساط میں شائع ہوئی. اس میں افغانی نے سرسید احمدخان کے خیالات اور شخصیت پر انتہائی گھٹیا اور رکیک حملے کئے ہیں. مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ وہ افغانی سرسید کے تعلیمی، مذہبی اور سماجی آراء پر نہیں بلکہ اسکے برٹش سرکار سے وابستگی پر ان کا دشمن ہے.(سرسید کے  سیاسی نظریات سے اختلاف اپنی جگہ، اسکا   عملی قدکاٹھ ، بصیرت اور خدمات سے انکار ممکن نہیں. برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی  تاریخ میں سرسید کی  ٹکر کا آدمی نہ پیدا کیا نہ پیدا کرسکتا ہے. عربی شاعر متنبی کا شعر ہے
مضت الدھور و ما اتین بمثلہ
ولقد اتی فعجزن عن نظرائہ
زمانے گزر گئے اور اسکا ثانی نہیں آیا. اور جب وہ آیا تو زمانے کی ماں اسکی مثال لانے سے عاجز آ گئی

جمال الدین افغانی اسد آبادی “رد نیچریہ” میں ایک جگہ سرسید کو “سگ، کتا” لکھتا ہے تو ایک اور جگہ ان کو “ناستودہ مرگ” یعنی جن کو نفرت سے موت نے بھی مسترد کیا ہو کے  لقب سے نوازتا ہے.
استعماریت پر افغانی کے خیالات تضادات سے بھرے ہیں. 1878 میں سکندری کے رسالے، “المصر” میں استعماریت پر ہمہ جہت تنقید کی. جبکہ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کے  مطابق  اسی سال وہ سکاٹ لینڈ کے فری میسن کا ممبر بھی بنا! 1885 میں فرانسیسی رسالے La Correspandance Parisienne میں اس نے برطانوی حکومت کو غدار اور ظالم اور انسانیت دشمن کہا جبکہ اسی سال برطانیہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا رانڈولف چرچل (سر ونسٹن چرچل کے والد) کو برطانیہ، افغانستان، ایران اور ترکی کے درمیان الائنس کی تجویز بھی پیش کی. دس سال بعد قسطنطنیہ سے برطانوی حکومت کو برطانیہ میں پناہ کی درخواست بھی. (بلنٹ سے ملاقات کے دوران تو برطانوی شہریت کے حصول کے کیلئے سرگرداں تھا).

Advertisements
julia rana solicitors

ایسی  لچکدار شخصیت تھی  کہ ترکی میں حنفی سنی طریقے سے نماز پڑھتا. جبکہ دوسری بار نصیرالدین شاہ قاچار کے دربار سے ناراض ہوگا تو تہران سے باہر رہے، میں نے شاہ عبدالعظیم کے مزار پر اقامت اختیار کی تو شیعہ طریقے سے نماز پڑھتا.
بہائی مذہب کے بانی بہاء اللہ کے بیٹے عبدالبہاء کی  کسی تحریر میں پڑھا تھا کہ بہائی اکابر کی  بددعا لگ گئی زبان یا گلے کے کینسر سے مر گیا. تاہم انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کے مطابق ٹھوڑی کے سرطان سے فوت ہوا. افغانستان کے  صدر مقام کابل کے باہر دفن ہوا. اللہ مغفرت نصیب فرمائے!

Facebook Comments

رشید یوسفزئی
عربی، فارسی، انگریزی ، فرنچ زبان و ادب سے واقفیت رکھنے والے پشتون انٹلکچول اور نقاد رشید یوسفزئی کم عمری سے مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں مذہب، تاریخ، فلسفہ ، ادب و سماجیات پر لکھتے آئے ہیں۔ حفظِ قرآن و درس نظامی کے ساتھ انگریزی اور فرنچ زبان و ادب کے باقاعدہ طالب علم رہے ہیں۔ اپنی وسعتِ مطالعہ اور بے باک اندازِ تحریر کی وجہ سے سوشل میڈیا ، دنیائے درس و تدریس اور خصوصا ًاکیڈیمیا کے پشتون طلباء میں بے مثال مقبولیت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 4 تبصرے برائے تحریر ”جمال الدین افغانی: ایک تاریخی مسخرہ۔۔۔۔رشید یوسفزئی

  1. انتہائی تعصب پر مبنی پوسٹ ہے۔علامہ اقبال نے جاوید نامہ میں آسمان پر اپنے مرشد رومی کے ساتھ جن شخصیات سے ملاقات کی ان میں سے ایک جمال الدین افغان اسد آبادی بھی تھے۔ اقبال نے ان کے ہاتھ چومے۔

    مولانا ابوالکلام آزاد نے جو ان کی زندگی میں ان کے بارے میں لکھا وہ بھی موجود ہے۔ سراسر مسلکی تعصب پر مبنی پوسٹ ہے

    1. بالکل درست فرمایا۔ وہ دور انتہائی مسلمانوں کے زوال کا ابتدا تھی اور سر سید جیسے لوگوں نے ٹکراؤ کی بجائے مسلمانوں میں نئے علوم سیکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔

  2. رشید یوسف زئی صاحب نے بھی جن چیزوں پر زور دیا ہے وہ سطحی قسم کی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چیزیں جیسے شیعہ نماز سنی نماز جیسے غیر اہم معاملات پر زیادہ توجہ، ایسی چیزیں ہم جانتے ہیں کہ عبادات کا ظاہری قالب ہے۔ اس کی اصل سپرٹ ابھارنے کی ضرورت ہے۔

  3. کیا مضمون کو دیا گیا صاحب قلم کا عنوان مکالمہ کی اس پالیسی سے مطابقت رکھتا ہے؟
    “ مکالمہ” کی کوشش ہوگی کہ نوجوان لکھنے والوں کے جذبات کو مناسب شکل دے کر شائع کیا جائے تاکہ ایک بے تکلف اور شائستہ مکالمہ وجود میں آ سکے”

Leave a Reply