کھلتا کیوں کسی پر مرے خطوں کا معاملہ

خطوں نے ڈالے ہیں وہ وسوسے
دل سے اعتبارِ عربیہ گیا

آٹھویں جماعت میں تھے کہ گاؤں میں بابا فتح خان اپنے ایک سپوت، جو فوج میں ملازم تھا، کا خط پڑھوانے لایا – جوان سپوت نئی نویلی شادی کے بعد واپس یونٹ جا چکا تھا- جاتے ہی شاید ہجر کے دشت میں غوطہ زن ہوا اور چند دنوں بعد خط لکھ ڈالا ہو گا کہ دس پندرہ روز بعد وہ دولہا نامہ ہماری آنکھوں کے سامنے تھا – اس خط میں جو کچھ لکھا تھا وہ ہم بیان کرنے سے قاصر ہیں سو تخیل سے کام لیجیے – مگر اس خط کی عبارت ذہن میں لفظ بہ لفظ محفوظ ہے-

اب ایک دوسرا خط قوم کے گلے آن پڑا ہے – خطوط کا سلسلہ خدا جانے کس زمانے سے چلا آ رہا اور کس کس کا کس کس سے ہے، مگر خوب چلا آ رہا ہے – در اصل اس وقت خط کے فضائل بارے خیال پر ملال اس وجہ سے آگیا کے گزشتہ چند دنوں سے ہماری قوم کا خبط ایک “خط” پر اٹکا ہوا ہے یعنی کہ یہ خط کن خطوط پر لکھا گیا ہے اور کن کن خطاؤں کو اس خط سے جوڑا اور توڑا جا سکتا ہے – حالانکہ خط کا معاملہ خالصتا دل کا ہوا کرتا تھا مگر اب یہ بل کا معاملہ بنا ہوا ہے – سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر یہ مان لینے میں کوئی خاص مضائقہ بہرھال نہیں کہ ہمارے وزیر اعظم و دیگر “پنامیے” اپنے ملک و ملت کے بارے میں بھلے کسی قسم کی دور اندیشی کا مظاہرہ نہیں کرتے، مگر دریں معاملہ ان صاحبان حق کی دور اندیشی کو پی کے سلام ٹھوکتا ہے –

کچھ احباب قطری شہزادے کے لتے بھی لے رہے ہیں حالنکہ انکو یہ جان لینا چاہیے کہ “شاہواں دے سنگی شاہ ہی ہوندے نے” – ایک بادشاہ کا دوست بادشاہ کے لیے ایک عدد چھوٹا سا تو نہیں البتہ کچھ لمبا سا خط لکھ دے تو کوئی بڑی بات نہیں – ہمیں جاننا چاہیے کہ بادشاہوں کو ایک اضافی حس سے بھی نوازا گیا ہوتا ہے، یعنی وہ اپنی انڈر سٹینڈنگ سے، اپنے تخیل سے، اپنی سوجھ بوجھ سے ماضی کے بیس تیس سالوں کا کچا چھٹہ ایک پورے حقیقی افسانے کی صورت بزبان خط بیان کر دینے پر قادر ہوتے ہیں – اس خط کے ملتے ہی دیوانے دھمال میں مست ہو جاتے ہیں اور صاحب عقل داد دینا شروع کر دیتے ہیں – اسی واسطے پنجابی میں کہتے ہیں کہ “بادشاہ جے ہوئے انڈے دیون بھانویں بچے دیون انہاں دی مرضی” – کیونکہ ایسا تو کوئی بادشاہ ہی لکھ سکتا ہے جو سنی سنائی پر پورا بیان حلفی جیسا خط ہی داغ دیوے – عربوں سے اربوں آئیں یا خطوط آئیں وہ ہمارے ہاں بہت ہی عزیز ترین مقام و مرتبہ رکھتے ہیں- اب انکی فراخ دلی تو ہم کچھ ذاتی طور پر دیکھ ہی چکے ہیں اور انکی تعلیم سے ایک زمانہ واقف ہے- سو پھر عربوں کے اربوں کا معاملہ ہو یا انکے لکھے ہوئے خطوں کا معاملہ ہو ہم یقین کر لیتے ہیں کہ “ھذا لازم حلال و عین غین درست” – کیونکہ عربوں سے جو آیا بھلے وہ ” کچھ” بھی تھا وہ ہمیں دامے درمے سخنے قبول تھا اور اب بھی ہے، اور یہ ریت ہماری اب سے نہیں صدیوں سے ہے –

Advertisements
julia rana solicitors

اب دیکھیے شہزادے کو اپنی بات کہنے میں کتنی آسانی ہوئی جو خط میں پورا مدعا سمیٹ کر میاں صاحب کے دل کا بوجھ ہلکا کر دیا اور ایک میں ہوں کہ یہی چھوٹی سی بات سمجھانے کے لیے اتنی سطور کا رائتہ پھیلا رہا ہوں، مگر جو کہنا چاہ رہا وہ کہہ کر نہیں پا ریا ہوں – ایک عقدہ اور بھی مجھ جیسے کم عقل پر کھولے سے نہیں کھل رہا کہ رنگ، نسل، قومیت کی بنیاد پر تو عربی، عجمیوں کو دھیلے جتنا نہیں شمار کرتے؛ مگر یہ ہمارے حکمرانوں کے پاس کونسی ” گیدڑ سنگھی” ہے کہ انکو جو بھی معاملہ پیش آتا ہے، خاص کر اسی کی دہائی کے شروع سے لے کر اب تک، یہ عربی “یا صدیقا یا رفیقا” کرتے مدد کو چلے آتے ہیں – ہمارے حکمران بھی عجمی ہی ہیں پھر ان سے اتنی محبت کیونکر اور کیسے؟؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”کھلتا کیوں کسی پر مرے خطوں کا معاملہ

Leave a Reply