کلامِ شاعر بزبانِ شاعر ۔۔۔ محمد اشفاق

محمد اشفاق

Advertisements
julia rana solicitors london

خان صاحب کو اولین دھرنا جمائے دوسرا دن تھا اور ملتان میں ہمارا نیا پراجیکٹ شروع ہوئے بھی دوسرا یا تیسرا دن تھا- مجھے ملتان ایک موٹر سائیکل اور کچھ دیگر سامان بھجوانا تھا- شام کو پیرودھائی گیا مگر چونکہ دھرنے کے ابتدائی دن تھے, ٹرانسپورٹر حضرات ایک غیر یقینی سی کیفیت کا شکار تھے, انہوں نے چند دن رکنے کا مشورہ دیا- میں نے اگلے روز فجر کے بعد سامان ایک بوری میں رکھ کر ون ٹو فائیو پر باندھا, پنج سڑکی جا کر ٹینکی فل کروائی اور اللہ کا نام لے کر ملتان کیلئے نکل کھڑا ہوا-
میانوالی تک کا سفر نہایت خوشگوار رہا, مگر اس کے بعد بھکر اور لیہ کے منحوس قسم کے لینڈ سکیپ نے اعصاب تھکا ڈالے- فتح پور پہنچ کر سکون کا سانس لیا, اصغر کا گاؤں ہے لہٰذا وہاں پہنچ کر اسے فون کر کے بتایا کہ میں بائیک پر ملتان جا رہا ہوں- کچھ دیر ریسٹ کیا اور آگے چل پڑا-
چوک اعظم پہنچ کر ایک جوس والے کے پاس رکا, اور میری کم بختی آئی ہوئی تھی کہ جوس پی کر یونہی ایک قریب کھڑے درمیانی سی عمر کے بندے سے پوچھ بیٹھا کہ کیا ملتان کیلئے سیدھا جانا ہوگا- وہ فورا" بولا کہ میں مظفرگڑھ جا رہا ہوں, چلیں آپ کے ساتھ ہی چلتا ہوں- میں نے سامان کی بوری کی جانب اشارہ کر کے معذرت کی, مگر ان صاحب نے تھوڑی بوری پیچھے سرکائی, تھوڑا مجھے آگے سرکایا اور درمیان میں فٹ ہو گئے-
معلوم ہوا کہ موصوف ایک سرکاری سکول میں ٹیچر ہیں, علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے دو تین ایم اے کھڑکا چکے ہیں, اور شاعری بھی فرماتے ہیں- بدقسمتی سے میں نے نتائج و عواقب کی پروا کئے بغیر " ماشاءاللہ , بہت خوب" کہہ ڈالا- حضرت شاید انہی الفاظ کے منتظر تھے, بولے " گزشتہ دنوں ایک مشاعرے میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں فلاں فلاں مشہور سرائیکی شاعر بھی آئے ہوئے تھے- مجھے بھی اپنا کلام سنانے کا اعزاز حاصل ہوا اور خوب داد سمیٹی- وہی کلام آپ کی نذر کرتا ہوں- "
اب صورتحال کچھ یوں بنی کہ شاعر صاحب آدھے بوری پر اور آدھے مجھ پر سوار ہیں, ان کا منہ میرے دائیں کان سے جڑا ہوا ہے اور ان کا منظوم و منحوس سرائیکی کلام میرے کان میں صورِ اسرافیل کی مانند گونج رہا ہے- جہاں انہیں داد کی طلب ہو میری گردن پہ ہلکی سی چپت لگا دیا کریں-
اس وقت تک پانچ سو کلومیٹر بائیک چلا کر میرے اعصاب یونہی چٹخے ہوئے تھے, شانوں اور گردن کے پٹھوں میں کھنچاؤ, کمر اکڑی ہوئی, اوپر سے وہ مردود اللہ جانے ایک ہی مسدسِ حالی نما طویل نظم شروع کئے بیٹھا تھا یا پھر پورا دیوان مجھے سنانے پر آمادہ تھا- سرائیکی زبان سے میں ویسے بھی زیادہ مانوس نہیں ہوں, اوپر سے کلام کے ساتھ اس کے منہ سے تھوک بھی نکل نکل کر میرے کان بھگو رہی تھی- بارہا جی چاہا کہ بائیک سائیڈ پر لگا کر اس خبیث شخص کو چلتا کروں- ایک بار تو چپت کھا کر سوچا کہ تھوڑا سا جھک کر زور سے اگلی بریک لگا دوں تاکہ یہ بانگڑو اڑتا ہوا آگے جا گرے- مگر ہائے یہ مروت, مگر ہائے یہ وضعداری….-
اپنے گھر تک لفٹ لینے یا اپنا کلام سنانے یا پھر دونوں کے لالچ میں وہ مجھے بائی پاس کی بجائے مظفرگڑھ شہر لے آیا- انجان رستوں, نامعلوم گلیوں سے گزارتا آخر مجھے وہ اپنے گھر کے پاس لے گیا, اترتے اترتے بھی اس نے تین چار اشعار پڑھے جو شاید میرے شکریے یا مذمت میں تھے- کھانا کھانے کی آفر کی مگر میں نے اس کی جانب دیکھے یا اس کی باتوں کا جواب دیے بغیر بائیک کو ایڑ لگائی, اور عازمِ ملتان ہوا-
فیسبک پر بھی شعراء کی بہتات ہے اور ان میں سے ہر ایک اپنا تازہ کلام سنانے کو بیتاب- کچھ تو لگتا ہے کہ شعر جننے کے علاوہ اور کچھ کرتے ہی نہیں ہیں- اس لئے فرینڈ ریکویسٹ قبولنے کے جو کڑے معیار بنا رکھے ان میں ایک یہ بھی کہ بندہ شاعر نہ ہو- تاہم کچھ لوگ اتنے بھلے ہوتے ہیں کہ ان کی خوبیاں ان کی اس خامی پر حاوی ہو جایا کرتی ہیں- اس لئے جناب ساجد حیات اور جناب رؤف تبسم ہماری فرینڈز لسٹ میں موجود ہیں, مگر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ دونوں مصروف لوگ ہیں, اس لئے پوری غزل یا نظم ان سے کبھی کبھار ہی سرزد ہوتی ہے- ایک آدھ شعر ہم ہنس کر سہہ جایا کرتے ہیں-
محترمہ رابعہ خرم درانی بھی کبھی شاعری پہ مشقِ ستم فرمایا کرتی تھیں, مگر پھر اللہ نے انہیں ہدایت بخشی اور تائب ہونے کی توفیق دی- اب وہ نثر لکھتی ہیں اور بلاشبہ کمال کرتی ہیں-
ہمارے بہت پیارے حکیم فاروق سومرو بہت اچھے شاعر ہیں, بلاشبہ قادرالکلام- مگر وہ اتنے ہی اچھے حکیم اور اس سے کہیں بڑھ کر اچھے انسان بھی ہیں- اس لئے مطب اور دوستوں سے ملنے ملانے کی مصروفیات انہیں شاعری سے دور رکھتی ہیں- اس لئے ان کے تازہ کلام کا انتظار رہتا ہے-
دو حضرات ایسے ہیں جو مجھے چوبیس گھنٹے بٹھا کر اپنی شاعری سناتے رہیں تو میں اف تک نہ کروں, جناب اکرام اعظم اور مرشدی بشارت وارثی- ان دونوں کے کلام میں جو پختگی, گہرائی اور ندرتِ خیال ہے وہ بلاشبہ صرف بڑے شاعروں ہی کو نصیب ہوتی ہے, ابتدا میں دونوں کی منت سماجت بھی کرتا رہتا تھا کہ خدارا, اپنے اس عطیہ خداوندی کی قدر کیجئے اور اپنی شاعری پہ سنجیدگی سے توجہ دیں- مگر اکرام بھائی کو ان کی پیشہ ورانہ مصروفیات لے کر بیٹھ گئیں اور مرشدی میری طرح سیماب صفت اور غیرمستقل مزاج ہیں, شاید نہ تو کبھی میرا ناول مکمل ہوگا نہ کبھی ان کی شاعری کی کتاب منظر عام پر آئے گی-
ان مذکورہ بالا پانچ حضرات کے علاوہ اگر میں کسی شاعر کی وال پر داد دیتا پایا جاؤں تو میرا وہ منافقت والا مضمون ذہن میں دہرا لیا کیجئے-

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply