پاک سر زمین اور منشیات۔۔۔۔۔اسد مفتی

خبر آئی ہے کہ انگلینڈ میں چنکی بچے پیدا ہورہے ہیں ۔محکمہ صحت کے ذمہ دار اور اربابِ اختیار کو پریشانی لاحق ہوگئی ہے۔تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے مختلف شہروں میں ایسے نومولود بچوں کی تعداد میں خاصہ اضافہ ہو رہا ہے۔جو یومَ پیدائش سے ہی منشیات کے عادی بتائے جاتے ہیں ۔کیوں کہ انہیں منشیات کی عادی ماؤں نے جنم دیا ہے۔لندن میں اس سال 50 بچوں کے بارے میں یہ رپورٹ آئی ہے۔کہ وہ پیدائشئ منشیات کے عادی ہیں ۔جبکہ گزشتہ سال ایسے 19 بچوں نے جنم لیا تھا۔

منشیات کا استعمال ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے ۔ایٹمی ہتھیاروں نے جو ہیرو شیما اور ناگا ساکی  میں جو موت کا خوفناک کھیل کھیلا وہ منشیات کے ذریعے پھیلنے والی  تباہی کے سامنے کچھ بھی نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتیں ایٹم بم سے اتنا خؤف زدہ نہیں جتنا منشیات کے بم سے خوفزدہ  ہیں ۔یہ عالمی طاقتیں ڈرگز لارڈز اور ڈرگز مافیا کے سامنے بے بس ہیں ۔ان ڈرگ لارڈز کی سٹریٹیجک پالیسی یہ ہے کہ دو طرفہ حملہ کیا جائے ،ایک ہدف حکومتوں کوالجھائے رکھنا اور ان  میں عدم استحکام پیدا کرنا اور دوسرا ہدف نوجوان نسل کی رگوں  میں یہ زہر اتارنا ۔

اس سلسلے میں چھوٹی موٹی حکومتیں تو کسی زمرے میں ہی نہیں ۔امریکہ ،برطانیہ،فرانس،جرمنی جیسی عالمی طاقتیں  بھی اس مسئلے میں بری طرح الجھ چکی ہیں ۔لاطینی امریکہ کے ممالک اور بالخصوص کولمبیا جس میں منشیات  کا کاروبار بہت وسیع  پیمانے پر  ہورہا ہے۔کوکا کی  تیس فیصد پیدا وار یہاں ہوتی ہے۔اور امریکہ میں استعمال ہونے والی کوکین کا 80 فیصد کولمبیا سے ہی سمگل  ہوتا ہے۔فیڈرن نامی شیر رسوائے زمانہ منشیات فروش گروہ کارٹل گرو پ کا ہیڈ کوارٹر  اور جنت ہے،ان ڈرگ لارڈز کے پاس نجی فوج،جدید ترین اسلحہ،طیارے ،بحری جہاز،اور ہیلی کاپٹر تک موجود ہیں ،دراصل یہ حکومت میں ایک اور حکومت “کی منہ بولی تصویر ہے”۔انہوں نے حقیقتاً کولمبیا میں ایک متوازی حکوت قائم کررکھی ہے ۔اس گروہ کے بین الاقوامی رابطے   اعلی سطح پر قائم ہیں ۔تمام دنیا میں حکومتیں چلانے والے،سیاستدان ،ججوں  ،جرنیلوں ،بیوروکریٹس،وزیروں ،سفیروں ،اور خفیہ اداروں کے اعلی افسروں کو خرید چکے ہیں ،یہ ڈرگ مافیا اتنی مضبوط اور طاقتور ہے کہ عام ذہن سوچ بھی نہیں سکتا ۔ان کے خلاف کئی فوجی کاروائیاں تک ناکام ہوچکی ہیں ۔یہ مافیا یورپ کو منشیات کی فراہمی کے  لیے اسپین ،ہالینڈ اور انگلینڈ کے راستے استعمال کرتے ہیں ۔اب ایک نیا راستہ دریافت کیا گیا ہے ،یعنی بذریعہ مشرقی یورپ بالخصوص روس۔ اس ڈرگ روٹ کے ذریعے مغربی یورپ کو یہ فراہمی 70 ٹن سالانہ  تھی جو 2016 میں 50 ٹن تک جا پہنچی ہے ۔اور اب ایک اندازے کے مطابق 800 ٹن سے تجاوز کرچکی ہے ۔آج حالات اس نہج  پر جا پہنچے ہیں کہ اس وقت منشیات کی تجارت کئی لحاظ سے بین الاقوامی تیل کی تجارت پر حاوی ہو چکی ہے ۔اس سے زیادہ وسیع پیمانے پر صرف اسلحے کی تجارت ہے۔جاپان جیسے ملک میں 1986 تک منشیات کا اتہ پتہ نہیں تھا ،حقائق کا جائزہ لینے کے بعد کارٹل گروپ نے جاپان کو ہدف بنانے  کا منصوبہ تیا ر  کیا ۔1986 میں  ہیروئین کی مقدار جاپان میں 129 گرام تھی۔لیکن صرف تین سال بعد  یعنی 1989 میں یہ مقدار 470 تک جاپہنچی  اور  گزشتہ برس تک یہی مقدار بڑھ کر پورے جاپان میں پھیلتے ہوئے 2 ٹن تک آپہنچی۔اس وقت صرف مشرقی جرمنی (ساؤتھ ) میں دو ہزار سے زائد منشیات کے بڑے ڈیلر منظر عام پر آچکے ہیں ۔کشور حسین بھی اس سنگین مسئلے کی لپیٹ میں بری طرح آیا ہوا ہے۔ حالانکہ  پاکستان میں اس وقت قریباً 25 ایجنسیاں ڈرگ مافیا کے خلاف  سر گرم عمل ہیں ۔مملکت خدا داد میں منشیات کا مسئلہ  اتنا گھمبیر خطرناک  بن چکا ہے کہ اس کی روک تھام کے لیے ایک مکمل  نئی وزارت کا قیام عمل میں لایا گیا،اس کے علاوہ نارکوٹکس کنٹرول بورڈ بھی قائم کیا گیا ۔ان تمام اقدامات کے باوجود منشیات کے کاروبار ،پیداواراور اس کے استعمال میں روز بروز  بے تحاشا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

2000 میں متاثر ہ افراد کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کرچکی  تھی۔ جن میں دس لاکھ افراد صرف ہیروئن پینے کے عادی تھے۔آج پاک سرزمین پر 5 لاکھ صرف عورتوں کی تعداد ہے جو ہیروئن پینے کی عادی ہوچکی ہیں ۔

1978 میں پاکستان کی پولیس بھی ہیروئن کے نام سے واقف نہ تھی۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پولیس کے اہل کاروں نے ہیروئن کی شکل بھی نہ دیکھی تھی۔پھر نہائیت سرعت اور حیرت انگیز رفتار کےسا تھ اس عفریت سے ملک عزیز کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ۔منشیات کے استعمال میں تیزی  کے اس رجحان کی تحقیقات کے لیے 1982 میں پاکستان نارکوٹکس کنٹرول بورڈ کی طرف سے پہلا قومی سطح پر سروے کیا گیا ۔جس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ 1980 میں ہیروئن کے عادی افراد صرف 5 ہزار کے لگ بھگ تھے۔ جو 1985 میں (مردِ غارت گر ضیاالحق امیر المومنین کا سنہری دور)4 لاکھ سے پینسٹھ ہزار  اوپر تھی۔1986 میں یہ تعداد 6 لاکھ ساٹھ ہزار ،1988 میں یہ تعداد بڑھ کر دس لاکھ 76 ہزار چھ سو 35 ہوگئی۔

دوسرے متاثرہ ملکوں کی طرح مملکتِ خداداد میں بھی منشیات کے استعمال کی وجہ ذہنی تناؤ،بے روزگاری ،مایوسی،تنہائی،معاشرتی ناانصافیاں ،تاریک مستقبل اور دیگر پیچیدہ مسائل جو (وقت اور حکام ) کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں ۔

ایک حالیہ سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان کی شہری علاقوں کی 42 فیصد  آبادی نفسیاتی وجوہات کی بنا پر منشیات کا استعمال کرتی ہے۔جبکہ پاکستان عورتوں میں منشیات اپنانے کی تحریرک بیدار کرنے والے عوامل معاشی کم اور سماجی ،نفسیاتی زیادہ ہوتے ہیں ۔

میں اپنی بات ایک ماہر نفسیات کے قول  پر ختم کرتا  ہوں ۔۔۔وہ کہتا ہے  کہ ہمیں یہ بات کسی بھی حالت میں نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ انسان کو منشیات کے استعمال کی طرف لے جانے میں سب سے زیادہ اہم کردار حالات کا ہوتا ہے۔ڈپریشن،انتشار، تاریک مستقبل،اور اسی نوعیت کے دیگر حالات انسان کو اندازسے کھوکھلا کردیتے ہیں ۔اور وہ حقیقت سے فرار کی راہ اختیار کرنے پر مجبور ہوتا ہے ،ان حالات میں ستر فیصد افراد منشیات کا خیر مقدم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایسا کیوں ہے؟۔۔۔۔۔ میں بھی سوچتا ہوں ،آپ بھی سوچیے!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply