وہ بچپن کی زندگی بھی بڑی عجیب تھی سکول میں جیب خرچ کے لیے ایک روپیہ لے جانا اور پھر آدھی چھٹی کا انتظار کرنا کہ اس روپے کو کیسے خرچ کرنا ہے۔ اور بار بار جیب کو ٹٹول کر اس بات کا یقین کرنا کہ کہیں وہ ایک روپیہ گم تو نہیں ہو گیا ۔۔جب آدھی چھٹی ہوتی تو دل کھول کر ایک روپیہ خرچ کیا جاتا اور اپنے آپکو دنیا کاامیر ترین بچہ سمجھا جاتا ۔ کبھی کولر میں ڈالی گئی رنگ برنگی کلفیاں ۔کبھی بفر بسکٹ یا کبھی ٹافیاں خریدی جاتیں ۔
اور جس دن ایک کے بجائے دو روپے مل جاتے اس دن تو عید ہی ہو جاتی ۔ پرانی جرابوں سے بنائی گئی گیند اور لکڑی سے خود تیار کیا گیا بیٹ اور پتھر کی وکٹ کرکٹ کی تفریح کا ذریعہ ہوتی ۔ ہفتہ بھر عینک والا جن ڈرامے کا انتظار کیا جاتا کبھی نسطور کبھی زکوٹا اور کبھی بل بتوڑی پورا ہفتہ دماغ میں گھومتے رہتے۔ صبح 5 منٹ کیلے پی ٹی وی پہ لگنے والے کارٹون زندگی کا مزہ دوبالا کر دیتے ۔ جیب کے اندر گونجنے والی بنٹوں کی آواز دل کو شاد کر دیتی ۔ کبھی پٹھو گرم اور کبھی چھپن چھپائی سے بھی لطف لیا جاتا ۔ بس کیاتھا ایک سکون ہی سکون زندگی کا حصہ تھانہ لالچ نہ طمع نہ بغض ایک لمحہ میں لڑائی ہوتی اور پھر دوسرے ہی لمحے ساتھ کھیل رہے ہوتے ۔۔۔۔۔
آج محسوس ہوتا ہے کہ بچپن میں شاید ہمارے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ لیکن اطمینان اور سکون بے حد وحساب تھا ۔آج بہت کچھ ہے لیکن اس ایک روپے میں پایا جانے والا وہ سکون واطمینان کہیں گم ہوگیا ہے کیا پتہ وہ اطمینان وسکون ہماری اولاد کے پاس ہو یا اس تیز رفتار اور موبائل زدہ زندگی نے ان سے وہ مزے چھین لیے ہوں جو ہماری متاع حیات ہیں۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں