اقبال، فیض کی نظر میں

اقبال،فیض کی نظر میں
اعجازالحق اعجاز
پچھلے دنوں پنجاب یونی ورسٹی ایگزیکٹو کلب میں ڈاکٹر وحیدالرحمٰن خان کی طرف سے برپا کی گئی ایک محفل میں معروف ادبی شخصیت اور فیض صاحب کے دوست شریف اشرف صاحب سے ملاقات ہو گئی۔فیض صاحب کا ذکر چھڑنا لا زمی تھا۔کہنے لگے فیض صاحب ایک بے حد متواضع شخصیت اوروسیع ظرف کے مالک تھے۔سوچ سے بھی زیادہ بلند ہستی۔ایک مرتبہ ڈیرہ غازی خاں تشریف لائے۔نیشنل آرٹس کونسل ڈیرہ غازی خاں نے ان کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا اور شریف اشرف صاحب اس وقت کونسل کے ڈائریکٹر تھے۔ کانفرنس کے بعد فیض صاحب ان کے گھر تشریف لائے۔ڈرائنگ روم میں صوفے پر فیض صاحب تشریف فرما تھے اور شریف صاحب عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے قدموں میں بیٹھے تھے۔فیض صاحب نے انھیں اپنے برابر بیٹھنے کا کہا مگر انھوں نے انکار کر دیا۔باتوں باتوں میں شاعر مشرق کا ذکر چھڑ گیا۔فیض صاحب کہنے لگے کہ اگرآج اقبال موجود ہوتے تو میں بھی اسی طرح ان کے قدموں میں بیٹھا ہوتا جس طرح تم بیٹھے ہو۔یہ ایک بڑے شاعر کا ایک دوسرے بڑے شاعر کو خراج عقیدت تھا۔
جو چند نگاہیں اقبال تک پہنچ سکیں ان میں فیض کی نگاہ بھی تھی۔ فیض کو اقبال سے بچپن ہی سے عقیدت تھی۔اس عقیدت میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔ان کے پہلے ہی مجموعہ کلام میں ایک نظم ”اقبال ‘‘کے نام سے موجود ہے جس میں انھوں نے اقبال کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔
تھیں چند ہی نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیں
پر اس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیا
اب دور جا چکا ہے وہ شاہ گدا نما
اور پھر سے اپنے دیس کی راہیں اداس ہیں
چند اک کو یاد ہے کوئی اس کی ادائے خاص
دو اک نگاہیں چند عزیزوں کے پاس ہیں
پر اس کا گیت سب کے دلوں میں مقیم ہے
اور اس کی لے سے سینکڑوں لذت شناس ہیں
فیض صاحب کی یہی نظم اقبال کے حوالے سے نہیں بلکہ ایک اور نظم بھی اسی عنوان سے ہے جو ان کے کسی مجموعہ کلام میں شامل نہیں۔اس نظم کے یہ اشعار قابل غور ہیں:
نبود و بود کے سب راز تو نے پھر سے بتلائے
ہر اک فطرت کو تو نے اس کے امکانات جتلائے
ہر اک قطرے کووسعت دے کے دریا کر دیا تو نے
ہر اک ذرے کو ہم دوش ثریا کر دیا تو نے
فیض صاحب سے جب اقبال سے متعلق رائے دینے کا کہا جا تا تو وہ اکثر کہا کرتے کہ ”ہم تو بس Mediocreہیں شاعر تو اقبال تھے۔“یہاں ایک واقعے کا ذکر بھی ضروری ہے جسے ڈاکٹر لڈمیلاوسیلیوا نے بھی اپنی کتاب ”فیض:پرورش ِلوح و قلم“میں بیان کیا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے ایک اجلاس میں احمد ندیم قاسمی نے ایسی تقریر کر دی جس میں اقبال کے خلاف بھی کچھ باتیں تھیں۔فیض صاحب نے اس کا سخت برا مانااور انجمن کے آیندہ اجلاسوں میں شرکت سے معذرت کر لی۔اقبال نے پیام مشرق کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔اقبال کے صد سالہ یومِ پیدائش پر بھارت میں ہونے والی تقریب میں فیض کا صدارتی خطبہ اقبالیاتی ادب میں ایک خاصے کی چیز ہے۔
اقبال اور فیض میں یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں ہی انسان کی عظمت کے زبردست نغمہ گر ہیں۔اقبال نے اس سلسلے میں خودی کا درس دیا جب کہ فیض بھی اسی جذبے کے تحت ایک ایسی تحریک سے وابستہ ہوئے جو پسی ہوئی انسانیت کی معاشی حالت کو سدھار نے کے لیے وجود میں آئی تھی۔فیض کی ساری شاعری کا مرکزی نکتہ انسان ہی ہے۔وہ فکری اور عملی دونوں حوالوں سے انسان دوست تھے۔ فیض نے اقبال میں بھی اسی انسان دوستی کی جلوہ گری کا مشاہدہ کرتے ہوئے کہا ہے:
”اقبال محض لفظی طور پر ہی نہیں معنوی طور پر بھی اقبال دوست ہیں۔ان کے لیے حقیقت کی کوئی صورت اتنی توانا،اتنی دلکشا اور اتنی حسین نہیں جتنی کہ روح ِانسانی۔شدید داخلی چھان بین اور مختلف جہتوں میں غور و فکر کے بعد انھیں بالآخر وہ موضوع مل گیا جو اپنی وسعت کے سبب ان کی پوری شعری بصیرت پر چھا گیا اور وہ دہرا موضوع تھا انسان کی عظمت اور اس کی تنہائی۔انسان کے خلاف صف آرا مشکلات،ظلم، استحصال،اس کی باطنی خامیاں اور خارج میں ایک دشمن سنگ دل فطرت اور ان سب کا احاطہ کرتی ہوئی اس کی تنہائی۔اقبال انسان کی شان وشوکت،اس کے دکھ درد،اس کی امیدوں اور پریشانیوں کے نغمہ خواں تھے۔اقبال نے یہ کام خلوص و یقین اور اظہار کی ایسی وسعت و لطافت کی سطح پر کیا جو ان کے عہد میں کوئی نظیر نہیں رکھتی ۔“
اقبال کی فکر اور شاعری میں ایک واضح ارتقا نظر آتا ہے اور یہ کبھی بھی جمود کا شکار نہیں ہوتی۔فیض نے اقبال کی اسی خصوصیت کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
”ان کی جذبہ کی شدت سے بھر پور تھرتھراتی ہوئی شاعری اور اس شاعری کی قائل کرنے والی تاثیر ان کے بیشتر اثر و رسوخ کا باعث ہے۔ان کے شعری مجموعوں میں ہئیت و مواد،خیال و اسلوب واضح خطوط پر حرکت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور سلسلہء تخلیق کے طویل عرصے میں ان کا ارتقا دلچسپ مطالعے کا موضوع ہے۔شعری بصیرت کے دائرے میں تدریجی پھیلاؤ کے تناسب سے ان کے شعری موضوعات میں کمی ہوتی گئی۔اسراف، پھیلاؤ سے استحکام کی طرف چلتے ہوئے آخر کار ان کی فکر آخری برسوں کے تصور وحدت تک پہنچ گئی۔“
فیض نے پیام مشرق کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔اقبال پر فیض کی تحریروں پر مشتمل ایک کتاب ”اقبال “ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔اسے شیما مجید نے مرتب کیا ہے اور اس کا ٹائٹل سلیمہ ہاشمی کا تخلیق کردہ ہے اوراس میں فیض کے اقبال پر دو انگریزی مضمون IQBAL THE POET اور MOHAMMAD IQBAL بھی شامل ہیں۔

Facebook Comments

اعجازالحق اعجاز
PhD Scholar at Punjab University,Writer

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply