ایڈیٹر نوٹ :یہ کہانی ان کی زیر طباعت کتاب ”چارہ گر ہیں بے اثر“میں شامل ہے۔کہانی اپنی طوالت اور ا ٓ پ کی مصروفیت کی وجہ سے دو اقساط پر مشتمل ہے۔دوسری قسط پیش خدمت ہے۔
میر ؔمعلوم ہے،ملازم تھا۔۔۔۔محمد اقبال دیوان/پہلی قسط
پانچ دن پہلے سامنے والے کمانڈر حسینی کی بیگم صاحبہ کسی شادی سے لاہور سے واپس آئیں تو ان کے ساتھ سولہ سترہ برس کی ایک بے حد سجل اور من موہنی ملازمہ سلطانہ بھی ساتھ تھی۔Gated coummunityکے اس نیم عسکری،نیم بحری محلے خیابان ضرب المثال میں اس کا آنا جانو کہ گاؤں میں بجلی کا آنا تھا۔وہ حالانکہ کہ کوئی معمولی قسم کی بجلی نہ تھی اس کے آنے سے مختلف شادی شدہ اور غیر شادی شدہ ماسیوں کے روپ میں جو پرانے پول ماؤنٹیڈ ٹرانسمیٹر (P.M.T.) تھے وہ بھک سے اڑ گئے۔ان ملازماؤں سے کئی تھکے ماندے،سرکاری ملازمت سے اخراج زدہ افسران کے شوق کم خرچ پر پورے ہو جاتے تھے۔بیگمات کو بھی پتہ تھا کہ یہ اُدھڑے مرد اور گھر یلو بِلٗے کب ایک گھر کے ہوتے ہیں۔وہ انہیں گھر کے ایک کونے میں پڑا جنس کا ڈسٹ بن سمجھ کر اگنور مارتی تھیں۔سلطانہ کی آمد سے انجمن خدمت گزاران افسران و باشندگان کالونی میں حسد کا،مشترکہ بھانبھڑ جل اٹھا۔
کالونی کی بیگمات نے تو اس کی بھرپور جوانی کی وجہ سے خائف ہوکر اپنے آخری اوورز کی گیند جیسے خاوندگان آسودہ اور مستانے سانڈ جیسے ملازمین کی خصوصی نگرانی شروع کردی۔سلطانہ گھر سے ذرا کم ہی باہر نکلا کرتی تھی۔یوں کسی کو فوری طور پر اس سے شکایت کا کوئی موقع نہ مل پایا۔ تانی بیگم نے البتہ میر ملازم کو بتایا کہ یہ سلطانہ ان کے احمد پور شرقیہ والے علاقے ہت ایجی کے ساتھ ہی کی بستی نذیر آباد کی لڑکی ہے۔اس کی ماں میراثی تھی۔ وہ بھی دیکھنے میں بہت سندر تھی پر کیریکٹر ڈھیلا تھا۔ سلطانہ اس طرف کے کسی جاگیر دار کی اولاد لگتی ہے۔

سلطانہ کی پہلی شادی تیرہ برس کی عمر میں گاؤں کے ہی کسی مالدار بڈھے عمر دین سے ہوگئی تھی۔ ایک ہفتے میں اس ناگن نے اسے ڈس کر مارڈالا۔میر ملازم نے اس کے دفاع میں پہلی مرتبہ زبان کھولی کہ”تو بولتی ہے تیرا پنجاب امریکہ سے بھی اچھا ہے،ہمارے جوگی تو ناگ کا علاج کرلیتے ہیں تم لوگ کے پاس آدمی مرجاتا ہے۔یہ کیسا پنجاب ہے؟“۔
”اڑے بدھو۔ناگن اس عورت کو بولتے ہیں جو اپنے میاں کو ڈس لے“۔تانی بیگم نے ہشیاری جھاڑی۔
میر جس کا سانپوں کا علم تانی بیگم سے بہتر تھا کہنے لگا۔”تم پنجاب کے جو لوگ ہو ان کو سانپ کا کوئی پتہ نہیں۔ایسا ہو تو ایک بھی مرد سانپ نہ زندہ بچے۔وہ بڈھا آدمی ہا رّٹ کے فیل ہونے سے مرگیا ہوگا تو اس سے جلتی ہے لہذا اس کو ناگن بول رہی ہے“۔
اصل میں قصہ یہ تھا کہ عمر دین جس کی یہ چوتھی شادی تھی ہر شادی سے پہلے ایک خطیر رقم سے اپنے لیے بھاولپور کے ایک حکیم سے خصوصی مردانہ کشتہ تیار کراتا تھا۔ دوسری بیوی تک تو اس کی مردانگی کے بارے میں گاؤں کی عورتوں میں بہت چہ مگوئیاں ہوتی رہیں۔ تیسری بیوی جو چالیس برس کی بیوہ تھی مگر اکلوتی ماموں زاد جو بیوگی کے بعد اسے اس لیے مل گئی کہ اس کے حصے کی ایک مربع زمین بھی نکاح نامے کے ساتھ ہی نتھی تھی۔۔ گھر کی اس مرغی کی کی باری عمر دین نے کوئی کشتہ نہ کھایا۔یوں یہ چہ مگوئیاں آہستہ آہستہ دم توڑ گئیں۔ یکے بعد دیگرے اس کی دو بیویوں کا انتقال ہوگیا۔
ان دونوں بیویوں کے انتقال کے بعد اس کی مالی حالت میں بڑی تیزی سے تبدیلی آئی۔ اب وہ زمینوں پر اپنے بھتیجے کے ساتھ اپنی نئی نویلی موٹر سائیکل پر جاتا تھا۔۔ کوئی دو تین ایسے سرکاری افسر جن کو علاقے میں سرکار کی طرف سے مفت زمین ملی تھی وہ اسے اپنی زمین،سستے داموں بیچ گئے۔ ایک پرانا ٹریکٹر بھی اس نے کہیں سے سستے داموں خرید لیا۔خوش قسمتی سے ان نئی خرید کردہ زمینوں کے نیچے زیر زمین پانی کے ذخائر بھی موجود تھے۔ اس وجہ سے ایک ٹیوب ویل بھی اس نے لگالیا جس سے اس کی آمدنی میں خاصا اضافہ بھی ہوا۔
سلطانہ کی ماں جو اپنے میاں رحیم بخش کے ساتھ شادی کر کے احمد پور شرقیہ میں رہ رہی تھی۔ وہ سلطانہ کے معاملے میں رحیم بخش سے ڈرتی تھی۔ کسی حوالے سے اس کی عمر دین کی ملاقات ہوئی تو سلطانہ کا سلسلہ جنبانی چل نکلا۔عمر دین کو بھی سلطانہ بہت اچھی لگی۔ بارہواں سال چھ ماہ پہلے ہی پورا ہوکر تیرھواں بھی آدھا ہوگیا تھا۔ جوانی پور پور سے جھلکتی تھی۔ عمر دین کی پچھلی بیویاں ایسی کم سن اور سجل نہ تھیں۔
اب سوچو تو وہ مرحوم بیویاں بغیر تڑکے کی دال اور بن چینی کی چائے لگتی تھیں۔ اس نے فوراً سلطانہ کو دیکھتے ہی بیوی بنانے کا فیصلہ کرلیا اور اس کی ماں کو دس ہزار روپے بیعانے کے بھی فوراً ہی ہاتھ میں تھما دیے۔یوں سودا پکا ہوگیا۔۔اس کی ماں کو بقایا رقم کی ادائیگی کرتے کرتے چھ ماہ اور لگ گئے اور وہ پورے لاکھ روپے دے کر تیرہ برس کی سلطانہ کو بیاہ کر لے آیا۔
عمر دین جب اسے احمد پور شرقیہ رقم ادا کرنے اور سلطانہ سے شادی کی تاریخ طے کرنے پہنچا تو وہ یزمان منڈی کا بھی دورہ لگے ہاتھوں کرآیا۔ وہ وہاں گیا تو ایک خاندانی حکیم احمد علی سلیمانی صاحب کے پاس تھا۔ جن کے نسخے وہ بڑی باقاعدگی سے پہلے بھی استعمال کرتا رہا تھا۔
اب کی دفعہ مگرمسئلہ یہ ہوا کہ قبلہ بڑے حکیم صاحب تو دو ماہ قبل اللہ کو پیارے ہوگئے تھے، ان کا نوجوان بیٹا جو طبیہ کالج لاہور سے فارغ التحصیل تھا، اب ان کی مسند حکمت پر براجمان تھا۔عمر دین پڑھا لکھا نہ تھا ورنہ ان کے نئے بورڈ پر فخر شفایابی، قدیم نسخے،جدید علاج اور امنگوں بھرے شباب کی رفاقت کے لیے شرطیہ پلنگ توڑ علاج قسم کے نئے اضافے پڑھ کر چونکتا ضرور۔قبلہ نئے حکیم صاحب خوش گفتار تھے۔پرانے حکیم صاحب کچھ رسم و رواج کے مارے تھے۔

اس جانشین کے پاس رش یوں بھی زیادہ تھا کہ یہ دیہاتیوں کو Oxycodone, Fentanyl and Buprenorphine قسم کی انگریزی درد بھگانے والی ادویات حکیمی نسخوں میں ڈال کر دیتا تھا۔فوری آرام ان پین کلر کی وجہ سے آجاتا تھا۔دیہات میں مرنا علاج کی ناکامی نہیں مگر عزرائیل علیہ السلام کی جلد بازی سمجھا جاتا تھا۔ نسخہ ناکام ہوکر ان کو لمبا لٹا دیتا تو پرسے پریہ بس حق ہا کہہ کر چپ ہوجاتے۔اس شیطان نے کہیں سے دوران طالب علمی پڑھ لیا تھا کہ چین کے ایک کسان نے Horny Goat Weed اس وقت دریافت کرلی تھی جب اس کے اس ریوڑ میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا یہ فراوانی ان بکروں کی وجہ سے ممکن ہوئی جو ان چراگاہوں میں چرنے لگے جہاں یہ بوٹی اگا کرتی تھی۔کراچی کے ایک بریلوی مسلک کے مولانا صاحب جن کا چینی جنسی دواؤں کا بڑا بیوپار تھا ان سے وہ یہ بوٹی منگواتا تھا۔یہ اسے دیسی حکیمی کشتوں سے سستی پڑتی تھی۔ کم آمدنی والے دیہاتی دولہاؤں میں ان ادویات کی بڑی مانگ تھی۔

قبلہ نئے حکیم صاحب نے عمر دین کے کوائف بہت توجہ سے پوچھے۔یہ بھی معلوم کیا کہ وہ کتنے عرصے سے اپنی بیویوں سے دور رہا ہے۔ عمر دین کو اس کے نجی سوالات اور بلاوجہ کی کھوج کچھ اچھی تو نہ لگی۔ان سوالات کے وقت اس نے اپنے نوجوان بھتیجے کو بھی مطب سے باہر بھیج دیا مگر یہ سوچ کر کہ دائی سے پیٹ کیا چھپانا، اس نے تمام سوالات کے جوابات بہت صبر اور سچائی سے دیے۔
حکیم صاحب نے اس کشتے کی تیاری کے لیے ایک ہفتے کا وقت اور دس ہزار روپے مانگے۔ بہت رد و کد کے بعد رقم میں دو ہزار روپے کی کمی کی گئی۔ سلطانہ کو لینے جو برات بھاولپور سے آئی اس میں عمر دین یزمان منڈی سے آن کر احمد پور شرقیہ میں شامل ہوا۔کشتے کی ڈبیا اس کے بوسکی کے کرتے کی جیب میں طلب وصل کی ہمراہی میں کھلبلارہی تھی۔ اکیس ہزار روپے مہر معجل کے عوض سلطانہ اس کے حبالہء نکاح میں آگئی۔
سہاگ رات کو حجلہء عروسی میں تیرہ برس کی سلطانہ اپنے شوہر نامدار پچپن برس کے عمر دین کی منتظر تھی۔جواں بدن، بڑی بڑی شربتی آنکھیں، ماں نے اسے سامنے کی طرف جھک کر بیٹھنے کی تلقین کی تھی۔اس اہتمام میں مزید رنگ بھرنے کے لیے سینے پر سے دوپٹہ ہٹا کر گھونگٹ صرف آنکھوں تک کھینچ کر ریشمی کھیس پر بٹھا دیا۔گلے میں پھولوں کے ہار کو بھی شانے پر کلپ لگا کر اس طرح سے پھیلا دیا تھا کہ وہ کسی طرح سینے پر امڈتی ہوئی دو گولائیوں کی دیدہ دلیری میں رکاوٹ نہ بنے۔ یوں آگے کی طرف جھک کر بیٹھنے کی وجہ سے سلطانہ کے تندرست، گورے سینے کی گولائیاں آدھے چاند بن کرکرتی کے باہر کی جانب امڈ پڑی تھیں۔ سلطانہ کاگھونگٹ اٹھا کر عمر دین نے جو بے تابی سے اسے زور لگا کر سینے سے چمٹایا تو ایک ہلکی سی آہ اس شعلہء جوالا کے الائچی سے مہکتے منہ سے نکلی۔عمر دین کو عین اسی وقت اندازہ ہوگیا کہ اس فلک نوخیز کو ابھی تک اس جیسے کسی دل جلے سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔
سلطانہ کو وہ کپڑے اتارنے کی تلقین کرکے خود بہانے سے باتھ روم میں گیا اور کشتے کی ڈبیا نکال کر خوراک کی مقدار اپنی ایک عرصے کی دوریوں کو مدنظر رکھ کچھ زیادہ ہی منہ میں ڈال لی۔کشتے کی کڑواہٹ دور کرنے کے لیے اس کی سابقہ بیوی جو زعفران اور شہد والے دودھ کے گلاس میز پر برفی کی ڈلیوں کے ساتھ رکھ کر گئی تھی وہ بھی بغیر ڈکار لیے ایک ہی سانس میں پورا پی گیا۔سلطانہ کی بھرپور عریانگی جو بستر پر تھام کر دراز کی تو وہ اسے سورج مکھی کے پھولوں کا ایک ایسا قطعہ اراضی لگی جس کا سورج، ان جھولتے جگمگ کرتے پھولوں کا بلاشرکت غیرے، اس کی اپنی ذات تھی۔
سلطانہ کی جوانی کے اس عریاں پھیلاؤ اور انجان کسمساہٹ میں مبتلا اس کے رسیلے وجود اور ایک بے پناہ احساس تسلط اوراختیار نے اس کے عرصے سے موقوف بے تاب ذوق جنوں کو کچھ ایسی ہوا دی کہ مولوی صاحب سے جو اس نے اولاد صالح پیدا کرنے کا وظیفہ یزمان منڈی سے آتے وقت یاد کیا تھا وہ بھی کم بخت بھول گیا۔وظیفہء زوجیت تو سلطانہ کی گھٹی گھٹی سسکیوں، دبی دبی چیخوں اور اس کی اوں آہ کی رفاقت میں ادا ہوگیا مگر سامنے والی کی جوانی نے اس کی ہڈیاں چٹخا دیں۔وہ براحال ہوا کہ کھیس تان کر اس کے عریاں بدن پر ہی ساری رات بانہوں میں، نچڑا ہوا ٹیڈی بئیر بن
کر،ساری رات پڑا رہا۔سلطانہ اس کے بدن کے بوجھ تلے ساری رات کسمساتی رہی مگر ماں کی ہدایت تھی کہ شادی کی پہلی رات میاں بادشاہ ہوتا ہے اس کی ہر بات مانو تاکہ ساری عمر اس کے دل اور گھر پر راج کرسکو۔ بے چاری کادل تو لاکھ چاہا کہ بڈھے ننگے بے خود پڑے عمر دین کو ایک طرف دھکیل کر خود کچھ کپڑے پہن کر دوسری طرف ہوکر سوجائے پر اس کی ناراضگی کے خوف اور ماں کی ہدایت کی روشنی میں وہ صبر کرکے اپنی راج دھانی کے آئندہ بندوبست کے سپنے بقیہ ساری سوتی جاگتی آنکھوں سے دیکھتی رہی ۔
ایک ہفتے تک ہر رات عمر دین کا یہ ہی معمول رہا ۔کشتے کی خوراک تو چوتھی رات ختم ہوگئی مگر عمر دین کا جذبہء تسلط کسی طرح کنارے نہ لگا۔ عمر دین نے وصل اور زندگی کی آخری رات سلطانہ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اگلی دوپہر کو اسے لاہور لے جائے گا۔وہاں اسے فجے کے پاوے بھی کھلائے گا۔بانو بازار اور مینار پاکستان بھی دکھائے گا اور انارکلی سے شاپنگ بھی کرائے گا۔رات کو جب وہ پیار کرکے اس پر ڈھیر ہوگیا اور سلطانہ اس کے ساتھ بنائے ہوئے پروگرام کے سپنے بنتی سوگئی۔نیند میں ڈوبی سلطانہ کو پتہ بھی نہ چلا کہ اس کا شوہر نامدار عمر دین جہانِ فانی سے کس وقت رخصت ہوگیا اور وہ یک لخت وودھوا (ہندی میں بیوہ)ہوگئی۔


اس کی موت پر بڑا واویلا ہوا ۔خود اس کی ماں کو یقین نہ آیا کہ یہ کیسے ممکن کہ اس کی موت کا سلطانہ کو بھی پتہ نہ چلا ہو۔ اس کی موت کا ذمہ دار سلطانہ نہ تھی،جسے گاؤں کی عورتوں نے جن میں عمر دین کی پہلی بیوی پیش پیش تھی فوراً ہی سلطانہ کو پچھل پیری، چڑیل، ڈائن، ناگن، منگلک، ابھاگن کے القابات سے نوازنا شروع کردیا۔
احمد پور شرقیہ کی ان بے چاری سادہ لوح اور بدزبان عورتوں کو یہ علم نہ تھا کہ اس میں اس بے چاری جواں سال سلطانہ کا کوئی قصور نہ تھا۔ وہ تو سات کی سات راتوں تک تیار لہللاتی فصل بنی
دستیاب رہتی تھی، اب پرانا ٹریکٹر عمر دین ہی دورانِ کٹائی، فصل سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لے تو اس میں فصل کا کیا قصور۔
وہاں وہ اگر تفتیش کا بازار گرم کرتیں تو انہیں علم ہوتا کہ عمر دین نے جو کشتہ ہد بدا کر سہاگ رات سے منہ میں ڈالا تھا اس کشتے میں سنکھیا ،پارے اور جست (arsenic, mercury, and lead) کی ضرورت سے زیادہ مقدار شامل تھی۔ حکیم صاحب نے اس کی خوراک اسے چاول کے دانے کے برابربتائی تھی پر بھلا ہو سلطانہ کی چھلکتی چھاتیوں کا جن کی اس رات جگمگاہٹ دیکھ کر وہ اصل مقدار بھول کر پوری چائے کی چمچی کھاگیا۔۔دوائی کی اس کثرت کا اس کے دل ناتواں نے بہت برا مانا اور سہاگ کی ساتویں رات بالآخر اس کی آخری خواہش پوری کرکے نیند کے دوران ہی کام کرنا چھوڑ دیا۔ اس کی موت کے تیسرے دن بعدجب سوئم کا کھانا ختم ہوا تو سلطانہ کی ماں اسے آن کر واپس احمد پور شرقیہ لے گئی۔
ایک ماہ بیس دن بعد جب اس کی ماں نے یہ تصدیق کرلی کہ سلطانہ پچھلی شادی کے نتیجے میں حاملہ نہیں، تو اس نے یہ بریکنگ نیوز فیصل آباد کے اناج کے عمر رسیدہ آڑھتی ظہیر الدین محمد بابر کو دی جس سے اس کی سلطانہ کی شادی کی بات چیت اپنے میاں رحیم بخش کی معرفت اس کے بیوہ ہونے کے دوسرے ہفتے سے ہی شروع ہوگئی تھی۔ آڑھتی ظہیر الدین محمد بابر مزید تصدیق کے لیے انہیں ایک لیڈی ڈاکٹر کے پاس بھی لے گئے وہاں سے بھی جب این او سی مل گیا تو ایک مولوی صاحب کے فتوے کی روشنی میں عدت کو مختصر کرکے اس کی شادی میاں ظہیر سے کردی۔
وہاں سے اسے پورے تین لاکھ روپے ملے۔مہر بھی پچاس ہزار روپے طے ہوا تھا۔ سلطانہ خوش تھی۔فیصل آباد میں اسے ایک چھوٹا سا گھر ملا تھا۔وہ ہفتے میں دو بار اس کے پاس آتا۔اس کے چونچلے اٹھاتا اور پھر چلا جاتا تھا۔ جب آڑھتی میاں ظہیر کہیں مال وغیرہ خریدنے شہر سے باہر گیا ہوتا تو سلطانہ کی ماں بھی اس کے پاس اکثر آجاتی تھی۔
جس محلے میں سلطانہ رہتی تھی وہاں لڑکوں کو ایک نیا شغل ہاتھ لگ گیا تھا وہ اپنی بھرپور جوانی کا پچاس برس کے میاں ظہیر سے کرتے تو اپنے اندر صرف دولت کی واحد کمی پاتے تھے جو ان کے نزدیک کوئی ایسا بڑا عیب نہ تھا۔ان کی بڑی کوشش رہی کہ سلطانہ اپنی جوانی کو سوا نیزے پر رکھ کر ان کے آوارہ انفاس میں بھی محبت کے تاج محل قائم کرے مگر سلطانہ ان کے دام فریب میں نہ آئی۔
شادی کے چوتھے مہینے ظہیر الدین محمد بابر کی کار سڑک کے کنارے کھڑی کسی ٹریکٹر ٹرالی سے شام کے دھندلکے میں ٹکراگئی۔ اس حادثے میں ڈرائیور اور سلطانہ کا میاں دونوں ہی مرگئے۔گھر کرائے کا تھا۔سلطانہ کی ماں کے نزدیک اب سلطانہ کا فیصل آباد میں رہنا بے سود تھا یوں بھی محلے کے لڑکے اس کے پیچھے لگے رہتے تھے جن میں ایک بدمعاش بھی تھا۔ وہ اسے لے کر لاہور آگئی جہاں اس کا مرد پہلے ہی کمانڈر حسینی کی سالی کا ڈرائیور لگا ہواتھا۔ دوسرے میاں کی موت کے بعد سلطانہ اپنے علاقے احمد پور شرقیہ کی بستیوں ٹبی گھلوان، میانی جھنڈا اورکوٹلہ شیخاں میں منگلک (ہندو عقیدے کے حساب سے پیدائش کے وقت مریخ کا سیارہ اگر پہلے، چوتھے،ساتویں، آٹھویں یا بارہویں گھر میں ہو تو وہ فرد منگلک یعنی منحوس ہوتا ہے اور اپنے شوہر یا بیوی کے لیے بھاگوان نہیں ہوتا) مشہور ہوگئی۔عورتیں اس کا نام سن کر کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتی تھیں۔ اس کے دونوں شوہروں کی موت کا ذمہ دار اسے ٹھہراتی تھیں۔
تین ماہ بعد جب کمانڈر صاحب کی بیگم صاحبہ کسی شادی میں شرکت کے لیے لاہور آئیں تو انہیں سلطانہ اپنی خدمت اور مزاج کے دھیمے پن کی وجہ سے بہت اچھی لگی اور وہ اسے لے کر کراچی آگئیں۔
میر ملازم کو سمیرخان کے برطانیہ اعلیٰ تعلیم کے لیے جانے کا علم اس وقت ہوا جب اس کے کمرے سے بڑا سا سوٹ کیس، بیگم صاحبہ نے اس کے کمرے سے ،میر کو نچلی منزل پر لاؤنج میں لاکر رکھنے کو کہا۔ ان کا دوسرا حکم یہ تھا کہ وہ تانی بیگم کو ڈھونڈھ کر لائے اور اس کے ساتھ مل کرڈرائنگ روم کی صفائی کردے۔آج ان کی ماسی زاہدہ نہیں آئی تھی۔تانی بیگم نے اس کے ساتھ مل کر ڈرائنگ روم میں جھاڑ پونچھ کردی۔اسی دوران مہمان آنا شروع ہوگئے۔ سب سے پہلے بیگم صاحبہ کی دونوں بہنیں آئیں پھر سمیر خان کے کالج کے دوست آنے لگے۔انہی میں فرخندہ بھی تھی جو سمیر خان کی بہت گہری دوست تھی۔پہلے تو عبایا بھی پہنتی تھی مگر ایک سال سے اوپر ہوا اب سر پر صرف اسکارف باندھتی تھی جینز بھی پہنتی اور ٹی شرٹس بھی۔
سمیر نے ہی اسے بتایا تھا کہ تین ماہ بعد وہ بھی برطانیہ آجائے گی۔وہ یونی ورسٹی کے پاس جس بنگلے میں اپنے گورے طالب علم ساتھیوں کے ساتھ رہے گا۔وہ اس کے ساتھ ہی ٹھہرے گی۔میرملازم کو اس کی بات سن کر بہت حیر ت ہوئی اس نے معصومیت سے پوچھ لیا”چھوٹے سائیں ایک کمرے میں؟!“۔جس پر سمیر خان نے اسے تقریباً جھڑکتے ہوئے کہا ”میر وہاں لڑکا لڑکی ایک کمرے میں رہتے ہیں۔بغیر شادی کے؟“ میر کے لیے یہ انکشاف بطور ایک رواج اور بھی اچھنبے کی بات تھی۔
”ابے جاہل وہاں ہم پڑھنے جارہے ہیں شادی کرنے نہیں“۔ تو چھوٹے سائیں باجی فرخندہ کے عبایا اور اسکارف اس کا کیا ہوگا؟ “میر نے حیرت سے دریافت کیا۔”وہ جب یہاں واپس آئیں گی تو پہن لیں گی“۔ سمیر خان نے چڑ کر جواب دیا۔ اس دوران اس کی بہن شایان بھی کمرے میں آگئی۔ اس نے پوچھا کہ ”فر خندہ واپس آن کر کیا کرے گی؟“۔”ہم دونوں ایک پراٹھا اور شیشہ بار کھولیں گے اس میں بہت کمائی ہے۔ بھائی نے جواب دیا شایان کہنے لگی ”اس کا ڈیکور(آرائش) میں کروں گی بالکل گوتھک۔(پرانے یورپین طرز) اس کا نام بھی ہم Sun of the Witch رکھیں گے“۔ اس پر سمیر نے اپنی بہن کو جتایا کہ”فرخندہ نے اس کا نام معطم ال نرگیلا (نرگیلا عربی زبان میں شیشے کو کہتے ہیں) پہلے ہی سوچ رکھا ہے۔جس پر اس کی بہن چڑ کر کہنے لگی کہ”ہے نا سالی عالمگیر روڈ کی اردو میڈیم۔ اس سے کہو کہ وہ اس کا نام بیگم کا دسترخوان رکھ لے“۔ سمیر خان کو اپنی منگیتر کو اردو میڈیم کہنا اچھا نہیں لگا مگر اس سے پہلے کے لڑائی کوئی اور رخ اختیار کرتی ان کی خالہ کمرے میں آگئیں۔


میر ملازم کو شبہ تھا کہ فرخندہ، سمیرخان سے پیار کرتی ہے۔ میر ملازم اس وقت کمرے میں ہی موجود تھا جب سمیر نے اس سے پوچھا کہ وہ برطانیہ کب آرہی ہے۔فرخندہ کو گھر کی جانب سے اس بارے میں رکاوٹ کا سامنا تھا ۔وہ دہلی کے ایک اردو بولنے والے تجارت پیشہ گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ۔ان کے ہاں لڑکیوں کو شادی سے پہلے تعلیم کے لیے باہر بھیجنے کا کوئی رواج نہ تھا۔جب اس نے اپنی مشکل بتائی تو ساتھ ہی یہ کہا کہ اس کے والدین کو وہاں مخلوط طرز رہائش پر اعتراض ہے ۔بالفرض محال اگر اسے وہاں آنے کی اجازت مل بھی جائے گی تو گھر والے اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ایک ایسے گھر میں رہے جہاں طالب علم لڑکے لڑکیاں مل جل کر قیام پذیر ہوں۔ سمیر خان کا اس بارے میں یہ کہنا تھا کہ وہ ساتھ رہیں گے تو شادی سے پہلے ایک دوسرے کو بہتر طور پر جان پائیں گے۔
فرخندہ نے کہا وہ دونوں ایک دوسرے سے اسکول کے زمانے سے واقف ہیں۔ اس حوالے سے مزید ایک دوسرے کو جاننے کی کوشش کے بارے میں دی جانے والی دلیل اس کے والدین کے لیے قابل قبول نہ ہوگی۔اس کی امی تو صرف ایک جملہ کہہ کر موضوع کو ختم کردیں گی کہ شادی سے پہلے بیوی کا ایکسرے کرنا ضروری نہیں۔میر کو یہ جملہ یاد رہ گیا اور اس نے سوچا کہ اس کی وضاحت وہ ڈرائیور تمیز خان سے مانگ لے گا۔ اسے وہ کافی سیانا سمجھتا تھا۔ فرخندہ کی یہ بات سن کر سمیر خان چڑ گیا اور اپنی بہن کا کچھ دیر پہلے ادا کیا ہوا جملہ دہرادیا کہ ”ہے نا سالی عالمگیر روڈ کی اردو میڈیم“۔
فرخندہ اس کی یہ بات سن کر گیسٹ باتھ روم میں جانے کا بہانہ کرکے اٹھی اور چپ چاپ گیٹ سے باہر نکل کر اپنی کار میں بیٹھ کر گھر واپس چلی گئی۔وہ اسے ائیر پورٹ چھوڑنے بھی نہیں آئی۔میر ملازم نے یہ ساری واردات ڈرائیور تمیز خان کو بتائی تو وہ کہنے لگا کہ ملک سے باہر جاکر زیادہ دیر قیام کرنے سے بہت خرابیاں آتی ہیں۔ ہمارے علاقے کے بہت لوگ ادھر ادھر دولت کمانے گئے مگر گھر میں بہت خرابی آئی۔کسی کی اولاد بگڑ گئی تو کسی کی بیوی۔
وہ بتانے لگا کہ یہاں آنے سے پہلے وہ جن کے ہاں ملازم تھا ان کی لڑکی کالج کی تعلیم کے بعد باہر پڑھنے گئی۔ وہاں اس کو کسی چالیس سال کے بینڈ باجا بجانے والے حبشی سے پیار ہوگیا۔ پیٹ میں بچہ آیا تو اس کو شادی کا خیال آیا۔ شادی والے دن بہت تھوڑے لوگ آئے تھے۔مولوی صاحب کو پتہ نہیں چلا کہ لڑکی کے پیٹ میں کالے آدمی کا شادی سے پہلے کا بچہ ہے ورنہ وہ نکاح نہیں پڑھاتا۔ ام کو معلوم تھا۔ ہم نے اس کو گھر میں ٹی شرٹ میں دیکھا تھا۔اس کا پیٹ تھا۔ ہمارا بھی دو بیوی ہے ام کو پتہ ہے بغیر بچے کی عورت کا پیٹ کیسا ہوتا ہے۔فرخندہ بی بی کا والدین غیرت مند لوگ ہے۔ اس لیے ان کا کہنا ٹھیک ہے کہ بچی کو شادی سے پہلے باہر مت بھیجو۔عورت لوگ کا کمائی میں ویسے بھی کون سا برکت ہوتا ہے۔ اس نے اپنی دقیانوسی فلاسفی سے میر ملازم کو قائل کردیا۔
شام تک کافی لوگ اور بھی آگئے۔ان میں اکثر تو سمیر خان کے دوست تھے اور کچھ قریبی عزیز۔بیگم صاحب نے بہت ضد کی کہ سمیر خان اپنے سفر کے دوران سوٹ اور ٹائی پہنے۔اس نے ایک سفید ٹی شرٹ اور ملٹری کپری پینٹ پہن رکھی تھی جب ریٹائرڈ بریگڈیئر سرفروش خان صاحب نے بھی اپنی بیگم کی تائید میں اسے نیلا سوٹ پہننے کی ضد کی تو وہ کہنے لگا کہ ” Dad! I am going to a free country.Let me dress like a free man. I am not going to World Bank meeting”.(ابو جی میں ایک آزاد ملک میں جارہا ہوں۔مجھے آپ ایک آزاد باشندے کے مانند کپڑے پہننے دیں۔میں کوئی ورلڈ بینک کی میٹنگ میں نہیں جارہا)۔وہ اس کی یہ بات سن کر بجھ سے گئے۔
گھر سے چلتے وقت میر ملازم اپنے سامان میں سے ایک نئی سندھی ٹوپی نکال لایا اور اس کے سر پر اس دعا کے ساتھ رکھ دی کہ چھوٹے سائیں اب جلدی سے ڈاکٹر بن کر آؤ اور غریبوں کا مفت علاج کرو۔ سمیر خان چونکہ بزنس ایڈمنسٹریشن میں گریجویشن کرنے جارہا تھا لہذا اس کی بات پر ایک زبردست قہقہہ پڑا۔ وہاں موجود اس کی کسی دوست لڑکی نے کہا.” “How Sweet and innocent.I wish all men were like him جس پر وہاں موجود لڑکے نے کہا “Yes.Indeed.With loads of money”
سمیر کے رخصت ہوجانے کے بعد گھر کو ایک عجیب سی اداسی اور بے لطفی نے آن گھیرا۔
میر ملازم کی سلطانہ سے بات چیت اس کی آمد کے تیسرے دن ہوئی اور وہ اس کی جوانی اور اس کا حسن بے پرواہ دیکھ دل تھام کر رہ گیا۔بیگم حسینی نے اس کالونی کی مارکیٹ سے سودا لانے کو بھیجا تھا اور گھر سے نکل کر کالونی میں واقع چھوٹی سی مارکیٹ کی تلاش میں بھٹک رہی تھی اسے مارکیٹ کے محل وقوع کا کوئی علم نہ تھا۔۔میر کو،کک عبدالکریم نے ایک گھنٹے پہلے دہی لانے کا کہا تھا۔جب اس نے سلطانہ کو گھر سے نکلتے دیکھا تو وہ بھی دو منٹ بعد اس کے پیچھے چل پڑا۔جب سلطانہ نے اس سے اس مارکیٹ کا پتہ پوچھا تو وہ اسے الٹی سمت میں لے کر چل دیا اور چار پانچ گلیاں گھما کر اسے باتیں کرتا کرتا مارکیٹ لے آیا دونوں نے اپنا اپنا سودا خریدا اور پھر اسی طویل راستے سے گھر لوٹے۔
راستے میں سلطانہ نے میر ملازم سے پوچھا کہ اس کے پاس پتلی پن والا سیل فون چارجر ہے تو وہ اترا کر کہنے لگا کہ اس جیسا چارجر تو اس پوری کالونی میں کسی کے پاس نہیں۔وہ اپنا فون دے گی تو اس کو چارج کردے گا۔ گھر پہنچ کر سلطانہ بھاگ کر اپنا فون لائی اور اس کے حوالے کردیا۔ سلطانہ کا فون جیسے ہی مکمل طور پرچارج ہوا تو اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اس کے فون سے اپنے فون پر ایک مس کال ماری جس کی وجہ سے سلطانہ کا نمبر اس کے فون پر آگیا۔ اس نے ڈرائیور تمیز خان کو یہ فون نمبر سلطان بھائی کے نام سے محفوظ کرنے کا کہا تو وہ مذاق کرنے لگا کہ یہ سلطان بھائی سچی میں کوئی ہے یا مس کال سے وہ کوئی لونڈیا پٹا رہا ہے۔ یہ سلمان خان کی فلم دبنگ۔ٹو کی ریلیز سے بہت پہلے کی بات ہے۔ اس وقت تک کسی نے کرنیہ کپور کا فیوی کول والا آئٹم نمبر بنانے کا نہیں سوچا تھا۔ مشہور لنگر باز یعنی اینکر پرسن ڈی۔جے چوہدری ہو یا اس دھماکہ خیزگانے کے تین گیت کار واجد، ساجد اور اشرف علی اسی طرح غریبوں کے اوریجنل خیالات کو کاپی کرکے دولت سمیٹتے ہیں۔




سلطانہ سے میر ملازم کو عشق تو دیکھتے ہی ہوگیا مگر شادی کا فیصلہ ذرا دیر سے ہوا۔ اس کی ماں کی تو مرضی تھی کہ اسے پھر کسی مالدار بوڑھے کو بیچ دیتی مگر کمانڈر حسینی صاحب کی بیگم یہ کہہ کر آڑے آگئیں کہ لڑکی کی بھرپور جوانی ہے۔ اس کے بھی ارمان ہوں گے۔لڑکی کوئی سی این جی کی ایجنسی تو نہیں کہ اسے مالدار اور با اثر و رسوخ لوگوں کو بیچا جائے۔
جب تک میر کی شادی کا فیصلہ ہوتا یہ دونوں عشق کے دریا پار کرتے رہے۔فون پر دونوں نے بات چیت کے لیے سستے پیکج ڈلوالیے تھے۔ گفتگو کرنے میر ملازم چھت پر چلا جاتا اور سلطانہ اپنے سرونٹ کوارٹر میں۔ دونوں دیر تک باتیں کرتے رہتے۔ میر ملازم اب بھی اسے لمبے راستے سے مارکیٹ لے جاتا تھا۔ دونوں سودا خریدنے کے بعد کبھی تو آئس کریم کھاتے اور کبھی فانٹا پیتے تھے۔
ایک دن سلطانہ نے کہا بھی کہ مارکیٹ تک جانے کے لیے ایک قریب کا راستہ بھی ہے جو اسے بیگم صاحب نے سمجھایا تھا مگر اس نے سلطانہ کو بتایا کہ اس میں سے ایک گلی میں انگریز لوگوں کے بڑے بڑے کتے بیٹھے رہتے ہیں۔ہمارے ڈرائیور تمیز خان کو ایک نے کاٹ لیا تھا تو پیٹ میں بیس انجکشن لگوانے پڑے تھے۔ تمیز خان پاگل ہوتے ہوتے بچا۔جس پر سلطانہ نے کہا کہ جس طرح وہ اسے، دو تین نوکرانیوں اور سونیا خان کو ایکس رے کرنے کے انداز میں دیکھتا ہے لگتا ہے کہ اس کا علاج ٹھیک سے نہیں ہوا۔میر ملازم نے کہا سونیا خان تو خود بھی ٹی وی ڈراموں میں آتی ہے اس کا ایکسرے حلال ہے۔ اسے کالونی کا لمبا چکر دلاتے ہوئے ایک سنسان سڑک پر میر ملازم نے اسے اپنا پسندیدہ اردو گیت بھی دل پر ہاتھ رکھ کر ساتھ والے پارک میں گاکر سنایا جو اس نے اسٹار ٹی۔وی کے کسی ایوارڈ شو میں دیکھا تھا۔ وہ گیت یہ تھا
تم سا کوئی پیارا کوئی معصوم نہیں ہے
تم جان ہو میری تمہیں معلوم نہیں ہے۔
کیا چیز ہو تم خود تمہیں معلوم نہیں ہے
یہ ہونٹ، یہ پلکیں، یہ نگاہیں، یہ ادائیں
ٍ مل جائیں خدا مجھ کو تو میں لے لوں بلائیں۔
سو چاند بنے تو بنا یہ چاند سا چہرہ
بحریہ کے نام پر چڑھی اس نیم فوجی کالونی میں دن کے وقت خواتین اور ملازم لوگ گھر کے اندر ہوتے تھے۔کالونی کا چونکہ بیرونی سیکورٹی کا نظام بہت مضبوط تھا اور کوئی بھی شخص بغیر شناخت کے اندر نہ آسکتا تھا لہذا اندر کے پارکوں کی نگرانی کا کوئی بندوبست نہ تھا۔میر نے جب دل پر ہاتھ رکھ کر اداکار گوندا کی طرح نقل کرتے ہوئے یہ گیت گایا تو سلطانہ بھی ایک آدھ دفعہ کرشمہ کپور کے انداز میں رکی، بل کھائی اور لہراکر شرمانے لگی۔

غالباً یہ ہی وہ لمحہ تھا جب اسے میر ملازم سے پکا پکا عشق ہوگیا۔اسے یاد آیا کہ عمر دین نے تو اسے پہلی رات برہنہ ہونے کا حکم بھی ایسے دیا تھا جیسے اپنے پونے لاکھ روپے وصول کررہا ہو۔ اس کی زوجیت کی آخری تین راتوں میں جب کشتے کی خوراک ختم ہوچکی تھی اور سلطانہ کے سامنے اس کے دورِ شرمندگی کا آغاز ہوچکا تھا اس نے محض اس کی دل جوئی کے لیے آخری رات اسے لاہور لے جانے کا وعدہ کیا تھا۔
آڑھتی ظہیر الدین بابر کے ہاں یہ نزاکتیں اور ناز برداریاں فضول کی حرکت تھیں۔کمرے کی تنہائی میں وہ اس کے قریب ایسے آتا تھا جیسے کوئی سودا مارکیٹ میں ڈن کرنے آیا ہو۔ اس کے پیار کے انداز بھی بہت کاروباری سے تھے۔ سلطانہ کو لگتا تھا کہ وہ اپنے ظہیر میاں کے نزدیک ایک ایسی منافع بخش کاروباری ڈیل ہے جس کا مکمل پرافٹ صرف وہی سمیٹ لیتا ہے۔ جواں محبت کا سواداور ارمانوں کی آسودگی کا سلطانہ کو پہلی دفعہ اندازہ ہوا ۔
اسے یہ احساس ہوا کہ عورت مرد کے تعلق میں بدن تک آنے سے پہلے بھی کچھ دلفریب مراحل ہوتے ہیں جن سے اس کے خریدار شوہروں نے اسے کبھی بھی آشنا نہ کیا۔میر نے یہ راز دل نشین اسے کئی بار مارکیٹ تک لمبی واک، اپنی سادہ لوح گفتگو اور اس دن دوپہر ساڑھے گیارہ بجے دنیا کی نگاہوں سے چھپ کر پارک میں سمجھادیا۔ماں بھی اس کی ضد کے ہاتھوں مجبور ہوئی۔یوں بھی وہ کراچی میں اپنے میاں کے ساتھ نئی نئی آئی تھی اور اب تک سلطانہ کے لیے کوئی مناسب خریدار شوہر سے اس کی ملاقات نہ ہوپائی تھی۔
میر ملازم کی شادی کا سارا خرچہ اس کی بیگم برگیڈیر صاحبہ نے اٹھایا۔لڑکی کے جوڑے البتہ تین مختلف گھروں سے آئے۔ایک جوڑا اس انگریز بیگم صاحبہ نے بھی دیا جوسلطانہ اور کمانڈر حسینی کی بیگم صاحبہ خاص طور پر اسی کے ساتھ جاکر ایک بوتیک سے خرید لائیں۔ میرملازم کی مالکن نے کہا بھی کہ جوڑا سلطانہ کے حساب سے مہنگا ہے مگر کمانڈر حسینی کی بیگم صاحبہ نے (جنہیں میر ملازم حسینی بیگم کہتا تھا اور ساری کالونی میں وہ اب اسی نام سے مشہور ہورہی تھیں) یہ کہہ کر انہیں خاموش کردیا ہے کہ”بہن ہزار پندرہ سو ڈالر کی ان موئے فرنگیوں کے ہاں کیا وقعت ہے۔باہر سے جو یہ اپنے کتوں کی خوراک منگواتے ہیں وہی ہر ماہ چھ سات ہزار ڈالر کی ہوتی ہے“۔
میر ملازم کے باپ نے بھی اس شادی میں ایک خاطر خواہ رقم اپنی دو گائیں بیچ کر ادا کیں اور میر کو جتلادیا کہ اب اس کا موروثی جائداد میں کوئی حصہ باقی نہیں رہا۔اسی رقم سے میر ملازم کا سادہ سا ولیمہ بھی نکاح والی رات کو ہی ہوگیا۔
کالونی کی مسجد والے مولوی صاحب نے اس پر دبے الفاظ میں اعتراض بھی کیا کہ نکاح اور ولیمے میں ایک رات کا وقفہ لازم ہے، مگر ان عورتوں کے آگے ان کی ایک نہ چلی۔ان عورتوں نے ولیمے کا وقفہ ڈالنے کے لیے نکاح کے بعد مہندی کی رسم رکھ دی تھی تاکہ ناچنے گانے اورکالونی میں مقیم سفارت کاروں کی بیگمات کو امپریس کرنے کا موقع مل جائے۔
مولوی شجاع الدین کو اپنی نوکری عزیز تھی۔مسجد کے بورڈ پر آدھے باوردی درست افسر تھے۔ان میں آپس میں بہت تال میل تھا۔صرف جمعے عید اور تراویں پر دکھائی دینے والے ریٹائرڈ بریگڈیئر سرفروش خان بھی مسجد کے انتظامی بورڈ میں شامل تھے۔مولوی کو فائدہ دکھائی دے تو وہ بھی قندیل بلوچ اور وینا ملک کو دین سکھانے اور جاتی امرا کے جنازے پڑھنے چلے جاتے ہیں سو شجاع الدین نے فقہہ حنفیہ میں اجتہاد کی نقب لگائی اور نکاح اور ولیمے کے درمیان میں مہندی کے دو تین گھنٹے وقفہ جان کر برداشت کرلیا۔ہمارے جیسے ایک آدھ سہل پسند صوفی نے بھی سمجھا دیا کہ یہ ایک فاسٹ ٹریک شادی ہے۔زمان و مکان سے ذراپرے۔جس طرح اہل معرفت کو سیر الارض کی سہولت ہوتی ہے کہ وہ اپنے مقام پر بیٹھے بیٹھے ہی دنیا گھوم لیتے ہیں۔کعبہ ان کو طواف کرانے کے لیے خود ان کے پاس آجاتا ہے اسی لیے تو بہزاد لکھنوی نے کہا تھا کہ ع منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آجائے۔
کالونی والی مسجد کے مولوی شجاع الدین جو تصوف کے اور اردو شاعری کے بہت گرویدہ تھے ان کی بات کو میر ملازم کی غربت اور مجبوری کا دکھ جان کر مان گئے۔انہوں نے پھر بھی ضد کی کہ دولہا دلہن کو کچھ دیر کے لیے تنہائی میں چھوڑ دیا جائے تاکہ فقہہ حنفی کی یہ لازمی شرط پوری ہوسکے۔اس کی خاطر سلطانہ اور میر ملازم کو اس سرونٹ کوارٹر میں لے جایا گیا جہاں عام حالات میں اس کا، عبدالکریم کک کا اور ڈرائیور تمیز خان کا بسیرا ہوتا تھا۔ کسی نے تجویز دی کہ اس کے لیے بیگم حسینی اپنا ڈرائنگ روم کھول دیں مگر ان گھروں میں ملازمین کو مالکان کے برابر اسٹیٹس دینے کا کوئی چال چلن نہ تھا۔بیگم مولی تھامسن نے اپنا ڈرائنگ روم کھولنے کی پیشکش کی تو حسینی بیگم نے اس تجویز کو یہ کہہ کر رد کردیا کہ ہماری بچی غیر مسلموں کے گھر سے رخصت نہیں ہوگی۔مختلف اقسام کے دروس اور دینی پروگراموں میں شرکت کرکے وہ کچھ سخت دل سی ہوگئی تھیں۔
سرونٹ کوراٹر کی تنہائی میسر آئی تو سلطانہ نے گفتگو کی ابتدا ایک فرمائش سے کی کہ وہ اسے گانا سنائے،میر کی مرضی تو کچھ اور کرنے کی تھی مگر سلطانہ نے اسے یہ کہہ کر روک دیا کہ میک خراب ہوگا تو مولوی صاحب کو، بیگم مولی تھامسن کو، میری ماں کو اور حسینی بیگم کو پتہ چل جائے گا۔
میر ملازم، مولوی صاحب کا احترام کرتا تھا اور سلطانہ کی ماں سے ڈرتا تھالہذا اپنے ارادوں کو تکمیل کا روپ دینے سے باز رہا۔جب سلطانہ نے اس سے دوبارہ فرمائش کی کہ وہ گانا سنائے کوارٹر میں کوئی اور نہیں، دروازہ بھی بند ہے اور اس سے میک اپ بھی خراب نہیں ہوگا۔میر نے اسے شادی کے بعد سلطانہ کی پہلی فرمائش سمجھ کر مائی بھاگی کا مشہور گیت کھڑی نیم کے نیچے ہوں تو ھیکلی شروع کیا تو اس نے درمیان میں ہی یہ کہہ کرروک دیا کہ نہیں وہ پارک والا گانا۔ میر کی مرضی تھی کہ وہ یہ گیت اپنے الآصف اسکوائر کے عارضی حجلہء عروسی میں سنائے گا مگر اس نے سوچا کہ سلطانہ کو اگر یہ گیت اچھا لگتا ہے تو وہ یہ ہی فرمائش سہراب گوٹھ پہنچ کر بھی کرے گی لہذا اس نے فلم خود دار کا گیت ع
تم سا کوئی پیارا کوئی معصوم نہیں ہے
تم جان ہو میری تمہیں معلوم نہیں ہے۔
کیا چیز ہو تم خود تمہیں معلوم نہیں ہے
یہ ہونٹ، یہ پلکیں، یہ نگاہیں، یہ ادائیں
مل جائیں خدا مجھ کو تو میں لے لوں بلائیں۔
سو چاند بنے تو بنا یہ چاند سا چہرہ
سنادیا اسے یوں انہماک سے گاتا دیکھ کر سلطانہ اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر بوسوں کے لیے تھر تھراتے ہونٹوں کو قریب لاکر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یوں دیکھنے لگی کہ میر کی اصلی لمبی پلکیں اور سلطانہ کی نقلی پلکیں جو اسے شایان بی بی نے دی تھیں ایک دوسرے سے بے تابی سے الجھنے لگیں۔قریب تھا کہ میر کے ہونٹ اس کے ہونٹوں میں پیوست ہوجاتے، باہر ڈرائیور تمیز خان کی آواز گونجی”دولہا دلہن لوگ ڈرامے کا شاٹ بریک ختم، ابھی واپس چلو“۔اس کی آواز سن کر سلطانہ علیحدہ ہوگئی اور پھر دونوں دھیمے قدموں سے قریب ہی لگائے گئے پنڈال کی جانب چل پڑے
نکاح کی تقریب تو سادہ سی تھی مگر مہندی میں جوانگریز بیگم نے اپنے گھر پر رکھی تھی اس میں کافی لوگ شرکت کرنے آئے۔ ان میں بڑی تعداد بیگم مولی تھامسن کی معرفت آنے والی غیر ملکی مہمان خواتین کی تھی ،جن میں سفارت خانوں کے کچھ افسران کی بی بیاں بھی آئیں تھیں۔ ان کے لیے یہ بڑی انوکھی اور ثقافتی نوعیت کی تقریب تھی۔ عاطفے،شایان بی بی اور انگریز بیگم مولی تھامسن اور انہیں میں سے شریک خواتین اس رات خوب ناچیں بھی۔ مردوں میں صرف دولہے میاں میر ملازم کو شرکت کی اجازت تھی۔
اس سارے ہنگامے میں نکاح والے دن تک کسی نے نہ سوچا کہ میر ملازم رخصتی کے بعددلہن کو لے کر کہاں جائے گا۔ حسینی بیگم نے کہا بھی کہ سمیر خان والا کمرہ دو تین راتوں کے لیے اس نوبیاہتا جوڑے کے حوالے کردیں یوں بھی یہ بند ہی پڑا رہتا ہے مگر ریٹائرڈ بریگڈیئر سرفروش خان صاحب ملازمین کو گھر کے اندر مالکوں جیسی سہولتیں فراہم کرنے کے حق میں نہ تھے۔کسی سستے ہوٹل میں اس طرح کا بندوبست ان دونوں کی سادہ لوحی کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب نہ گردانا گیا۔جب معاملہ بہت پیچیدہ ہوگیا تو ڈرائیور تمیز خان نے پیش کش کی کہ اس کے بہن بہنوئی ان دنوں علاقہ غیرمیں اپنے گاؤں درہ آدم خیل گئے ہوئے ہیں ان کا سہراب گوٹھ پر واقع پختونوں کا ال آصف اسکوائر والا اپارٹمنٹ دستیاب ہے چوں کہ یہ جوڑا اس کی معرفت وہاں تین راتوں کا مہمان ہوگا لہذا اس حوالے سے کسی قسم کے خطرے کی کوئی بات نہیں۔
کمانڈر حسینی نے جن کی کنجوسی ویسے تو ضرب المثل تھی اس موقعے پر اسے دو ہزار روپے دیے کہ وہ جاکر سر شام کسی کے ذریعے پھول وغیرہ سے دولہا دلہن کی سیج سجالے۔ وہی رخصتی کے بعد گھر کی گاڑی میں انہیں ال آصف اسکوائر والے اپارٹمنٹ چھوڑ کر آیا۔راستے بھر وہ میر ملازم کو دولہا اس رات کیا کچھ کرتا ہے سمجھاتا رہا۔گھونگٹ میں پچھلی سیٹ پر سمٹی دلہن بنی سلطانہ اس کی باتیں سن کر ہولے ہولے ہنستی رہی۔میر ملازم کی یہ ضرور پہلی شادی تھی مگر وہ تو ان معاملات میں بلیک بیلٹ تھی۔رات میر ملازم نے اسے گانے بھی بہت سنائے اور پیار بھی بہت کیا۔ میر کا اناڑی پن اور اس کا سابقہ تجربہ رفیق وصل بنا تو پیار نے رنگ بھرے سو جال بچھائے۔میرملازم نے بھی جسم و جاں کے عذاب بھی دھوئے اور اپنے سب خواب بھی چھو کر دیکھے۔
دن کے کوئی ایک بجے کے قریب یہ دونوں جاگے۔میر نیچے سے جاکر کھانا لے آیا۔ کھانا وغیرہ کھاکر ان کا پروگرام بنا کہ کالونی میں چل کر بیگم صاحب کو اورریٹائرڈ بریگڈیئر سرفروش خان صاحب،سلطانہ اپنی بیگم صاحب کو بھی منہ دکھالے گی کہ وہ کتنی خوش و خرم ہے۔سلطانہ جب باتھ روم سے نہا کر برآمد ہوئی تو میر ملازم مچل گیا اور اس سے لپٹ کر بہت دیر تک پیار کرتا رہا۔اولیں ہچکچاہٹ اب لطف بھرے برتاؤ میں بدل گئی تھی۔دیر تک نڈھال پڑے رہنے کے بعد دونوں ایک دفعہ اور غسل کرکے تیار ہوگئے۔میر نے بوسکی کا شلوار کرتا زیب تن کیا اور سلطانہ نے گلابی رنگ کا سلک کا چوڑی دار پاجامہ اور لمبا ڈھیلا کرتا پہن کر اس پر ایک زری والا لمبا سا دوپٹہ بھی پہن لیا۔دونوں ہی کے چہرے پر ایک عجیب سا اطمینان اور جگمگاہٹ تھی۔
نیچے آن کر میر ملازم نے ایک رکشہ لیا اور یہ دونوں کلفٹن آنے کے لیے اس میں سوار ہوگئے۔ گلشن اقبال سے گزرتے ہوئے میرزا ابوالحسن اصٖفہانی روڈ پر ایک بڑی سی بیکری دیکھ کر میر کے دل میں خیال آیا کہ مالکوں کی طرف شادی کے بعد خالی ہاتھ جانا مناسب نہیں لگتا۔سلامی میں انہیں پانچ ہزار روپے ملے تھے۔جس میں تین ہزار کے قریب تو ان گوری عورتوں ہی نے دیے تھے۔اس نے سوچا کہ دونوں گھروں کے لیے ایک ایک کیک لے لیتے ہیں۔ سلطانہ کو بھی اپنے میاں کی یہ تجویز اچھی لگی۔

رکشہ والے نے اس خیال سے کہ بیکری کے عین سامنے جاکر رکنے سے سیدھی سڑک سے واپس موڑنے میں بہت لمبا چکر پڑجائے گا سو، اس نے میر کو تجویز دی کہ وہ سڑک کراس کر کے سامنے چلا جائے اور کیک لے کر آجائے۔ وہ اور اس کی بیوی یہیں پر اس کا انتظار کریں گے۔ میر ملازم عام حالات میں تو شاید بھروسہ نہ کرتا مگر رکشہ والا ایک بوڑھا نیک دکھائی دینے والا پٹھان تھا۔جب یہ رکشہ میں بیٹھے تھے وہ سامنے کی مسجد سے نماز پڑھ کر برآمد ہوا تھا۔ بڑی سی ڈاڑھی بھی تھی، لہذا اس کی بات کو بہتر مشورہ جان کر دوسری طرف مڑکر کیک لینے چل دیا۔اسی دوران وہاں تڑ تڑ فائرنگ کی آواز گونجی اور ایک بھگدڑ سی مچ گئی۔رکشے والے کو چونکہ میر ملازم پہلے ہی اپنا اگلا ٹھکانہ ٹھیک سے سمجھا بیٹھا تھا لہذا وہ بھی گولیوں کی زد سے بچنے کے لیے رکشہ بھگا کر چل پڑا۔

سلطانہ کو تشویش میر ملازم کی تھی جانے وہ کس حال میں ہو۔ یہ بات اس کے وہم و گمان سے بھی پرے تھی کہ ایک گولی سیدھی میر کو سر میں لگی ہے اور وہ اب دنیا میں موجود نہیں رہا۔جب وہ سرپٹ رکشہ دوڑا کر چلا جارہا تھا میر کے بارے میں اس نے رکشے والے سے اپنی پریشانی بیان کی جو اس سے پوچھ رہا تھا کہ کیا اس کی نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ وہ کہنے لگا”ہم تو بوڑھا انسان ہے تم ہم کو طالبان بولو یا کچھ اور۔۔ مگر ہم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ تم ایک جوان لڑکی ہو ایسے حالات میں جب کہ چاروں طرف فائرنگ ہورہی ہے یہاں رکنا بہت نقصان اور خطرے کی بات ہے“۔
اس نے سلطانہ کو اس وقت اور بھی سختی سے سمجھایا جب کچھ دور آگے جاکر اس نے رکشہ روک کر اپنے میاں کا انتظار کرنے کی ضد کی۔وہ یہ کہہ کر انکار کربیٹھا کہ” اس علاقے میں حالات بہت زیادہ اور بہت جلدی خراب ہوجاتے ہیں۔ہم کو پٹھان دیکھ کر کوئی گولی ماردے گا اور تم کو گاڑی میں بٹھا کر بھگا کر لے جائے گا تو تم کیا کرے گا۔ام روز ایسا تماشا دیکھتا ہے۔ام کو سب معلوم ہے ادھر کیا ہوتا ہے؟“

سلطانہ اس کی یہ باتیں سن کر گھبراگئی اور بس اتنا پوچھا کہ اس کو کیا اس جگہ کی خبر ہے جہاں کا پتہ اس کے میاں نے رکشہ میں سوار ہوتے وقت اسے بتایا تھا۔ اس نے بتایا کہ”فکر کی کوئی بات نہیں دو تلوار پر پہنچ کر کالونی کا نام پوچھیں گے تو کوئی نہ کوئی بتادے گا۔بعد میں ادھر پہنچ کر تم اس کو فون کرنا کہ تم خیریت سے گھر پہنچ گیا ہو۔ وہ خود ہی آجائے گا“۔
سلطانہ نے اس کہا بھی کہ ”چلو فائرنگ کی وجہ سے بھاگنا تو ٹھیک ہے مگر میر اس کی مس کال کا جواب کیوں نہیں دے رہا۔آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اس نے مس کال کی ہو اور میر نے فوراً اسے کال بیک نہ کیا ہو ؟“۔ رکشے والا کہنے لگا ”بابا ایسے حالات میں فون پر کون جواب دیتا ہے،کراچی میں تو لوگ فون چھیننے کی خاطر گولی ماردیتے ہیں تمہارا میاں سمجھ دار انسان خود بھی چھپ گیا ہوگا اور فون بھی چھپالیا ہوگا“۔اس کا دل تو نہ مانا مگر یہ سوچ کر کہ یہ آدمی سارا دن اس طرح کے واقعات کا سامنا کرتا رہتا ہے اس کی بات ہوسکتا ہے ٹھیک ہو۔
سلطانہ نے حسینی بیگم کے گھر آن کر بیسیوں دفعہ، میر ملازم کے فون پر کال کی مگر فون مسلسل بند مل رہا تھا۔اس کی یہ بات سن کر کمانڈر حسینی کی بیگم صاحبہ کو بھی تشویش لاحق ہوئی۔رات ساڑھے گیارہ بجے کے قریب یٹائرڈ بریگڈیئر سرفروش خان صاحب کے فون پر ایک سرکاری نمبر سے فون کال آئی مگر نیند کے مارے خان صاحب نے اسے در خور اعتناء نہ سمجھا اور فون سائلینٹ پر کرکے سو گئے۔
اگلے دن دفتر میں انہیں تھانہ گلشن اقبال سے ایک اے۔ ایس۔ آئی کا فون آیا کہ ان کے ہاں سے کسی کی گمشدگی کی اطلاع ہے۔کمانڈر حسینی کی بیگم صاحبہ نے تب تک میر ملازم کے مالکان کو سلطانہ کی گھر آمد اور میر کے غائب ہونے کی کوئی خبر نہ دی تھی لہذا وہ اس کی گمشدگی سے بالکل لا علم تھے۔سہ پہرکو جب بیگم صاحبہ اپنے پارلر جانے کے لیے نکل رہی تھیں انہیں سلطانہ دکھائی دی جس سے انہوں نے میر کے بارے میں پوچھا تو اس نے پوری روداد سنادی۔انہیں تشویش ہوئی تو انہوں نے سرفروش خان کو سیل فون پر کال کیا۔اس وقت وہ گالف کھیلتے ہوئے اپنا ڈبل ایگل شاٹ ٹرائی کررہے تھے۔ ویسے بھی وہ گالف کھیلتے وقت اپنا سیل فون کار میں ہی چھوڑ دیتے تھے۔انہیں میر کی گمشدگی کا اصل احوال بیگم صاحبہ کی واپسی پر پتہ چلا۔اگلی صبح انہوں نے ڈرائیور تمیز خان کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ شایان بی بی کو کالج چھوڑ کر گلشن اقبال تھانے جاکر پتہ کرے کہ انہوں نے کس کی گمشدگی کے بارے میں انہیں فون کیا تھا۔ دفتر جاکر انہوں نے دو ایک فون اپنے ہم پیشہ حاضر سروس دوستوں کو بھی اس حوالے سے کیے۔ تب تک میر ملازم کو دنیا سے رخصت ہوئے ڈھائی دن سے اوپر اور لاوارث لاش کے طور پر دفن ہوئے پورے چوبیس گھنٹے ہوچکے تھے۔

دو گھنٹے بعد ان کے اپنے ذرائع نے انہیں بتایا کہ اس دن تین لوگوں کی فائرنگ سے تھانہ گلشن اقبال کی حدود میں ہلاکت ہوئی تھی۔ان میں سے کوئی ایک نامعلوم شخص تھا جس کی جیب سے ان کا کارڈ برآمد ہوا تھا اس لیے انہیں فون پر اسی رات اطلاع دینے کی کوشش کی گئی تھی۔نامعلوم شخص کو ایدھی ٹرسٹ والوں نے دفنادیا ہے۔یہ شکل سے کوئی سندھی لگتا تھا۔جیب سے کچھ اور برآمد نہ ہوا۔ اس کے کپڑے بھی پھٹے پرانے تھے۔
سلطانہ نے یہ سن کر مسز سرفروش کو بتایا کہ میر ملازم کے پاس سیل فون بھی تھا اور تین ہزار روپے بھی، اس نے نیا نویلا بوسکی کا سوٹ پہنا تھا اور نئی سندھی ٹوپی بھی۔ہوسکتا ہے مرنے والا کوئی اور شخص ہو۔
بریگیڈئیر صاحب نے جب اپنے ذرائع کو یہ بات بتائی تو انہیں بڑی حیرت ہوئی۔ ان کا اسرار تھا کہ ان کا بزنس کارڈ اسی لاوارث شخص کی جیب سے برآمد ہوا تھا۔یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ میر ملازم کے علاوہ کوئی اور فرد ہو۔انہوں نے اپنے ساتھیوں کو فون پر کہا کہ ” How can they steal clothes from a dead body?(وہ لاش کے کپڑے کیسے چر اسکتے ہیں۔جس پر مردان سے نو تعینات شدہ کرنل صاحب نے کہا ” Sir if they can stuff a dead body in a jute bag then every thing is possible” (سر اگر وہ ایک لاش کو بوری میں بند کرسکتے ہیں تو ہر چیز ممکن ہے) بے چارے کرنل صاحب کو یہ اس وقت تک اس طریق کار کا علم نہ تھا کہ لاش کو بوری میں بند نہیں کیا جاتا بلکہ ایک زندہ وجود کو شدید تشدد کے بعدبوری میں بند کرکے بیٹ اور سریوں سے مارکر لاش بنادیتے ہیں)جب تھانے سے تصدیق کی گئی تو انہیں بتایا گیا کہ جو ا ے۔ایس۔ آئی اس سلسلے میں ضروری کارروائی کے لیے لاش کو مردہ خانے لے گیا تھا کل اسے بھی کسی نے گولی ماردی ہے۔اب اس حوالے سے مزید تفتیش ممکن نہیں،مثل مقدمہ اسی کے پاس تھی۔وہ بھی چوری ہوگئی ہے۔

سلطانہ نے میر ملازم کی موت کی خبر آنسوؤں کی بہتی جھڑی کے پار سے سنی اور نوکرانیوں میں تانی بیگم نے ایک دفعہ اور یہ بات پھیلا دی کہ”موئی ناگن ہے۔ تیسرا میاں بھی کھاگئی۔ موئی منگلک کہیں کی۔میں نے میر کو کہا بھی تھا اس سے شادی نہ کر۔میں تیری خاطر فضل داد کو چھوڑ دوں گی مگر وہ نہ مانا۔سیانوں کی بات نہ مانو تو یہ ہی کچھ ہوتا ہے“۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں