بے رنگ۔۔۔۔۔ بشریٰ حزیںؔ/افسانہ

دہلی سے امرتسر کے 35 منٹ کے ہوائی سفر میں کوئی میگزین یا اخبار دیکھنے کی بجائے نتالیہ نے دیگر مسافروں کے چہرے پڑھنا شروع کر دیے۔

چند ثانیے گزرے ہوں گے کہ اس عمل سے اوب گئی، اور دائیں جانب کھڑکی سے باہر جھانکنے لگی۔ لیکن جلد ہی کھڑکی سے باہر کے مناظر خلاء پوش ہوگئے۔ اب اسی کھڑکی کے شیشے پر جیسے ایک فلم چل پڑی۔

اس کی ایک ہفتہ پہلے ہونے والی لو میرج، اور اس کے بعد سے اس کے محبوب کا شوہر بننے کے بعد کا بدلا ہوا رویہ بیوی بن گئی ہو، محبوبہ والے ناز و انداز اب نہیں دکھانا، عملی زندگی میں ٹین ایج والی محبت نہیں کر سکتا۔ دفتری معمولات کا اثر گھر پر نا پڑنے دینا۔ وہ جیسے لو اور میرج کے درمیان کہیں گم سی ہو چکی تھی۔

ایک ہفتہ، محض ایک ہفتہ بہت تھا یہ سمجھنے کیلئے کہ وہ بیوی ہے۔ اور وہ بھی مشرقی، جس کا اپنا کچھ بھی نہیں۔

کچھ دیر بعد امرتسر کے ہوائی اڈے پر جہاز کی لینڈنگ کی اناؤسمنٹ ہونے والی تھی۔ اس نے اپنے بائیں جانب بیٹھے ایک انگریز جوڑے کی جانب دیکھا۔ انگریز لڑکی نے ہمسفر لڑکے کے شانے پر سر ٹکا رکھا تھا، اور وہ آنکھیں بند کئے سو رہی تھی یا یونہی آرام کر رہی تھی۔۔۔۔

نتالیہ کو یہ منظر دیکھ کر اچانک ایسا لگا جیسے وہ لڑکی اس زمین کی سب عورتوں کا استعارہ ہے، جسے مشرق ہو یا مغرب ہر حال میں مرد کا آسرا لینا پڑتا ہے، خوش ہونے کیلئے، دکھی ہونے کیلئے، جیتنے کیلئے، ہارنے کیلئے۔ مرد کی محتاج عورت کا اپنا تو کچھ بھی نہیں۔ محبوب سے شوہر بن کر آنکھیں بدلنے والے کا خیال اب کم اذیتناک لگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہاتھ میں پکڑے چپس کے خالی پیکٹ کو جانے کیا سمجھ کے، اس نے دونوں ہاتھوں میں دبا کے مروڑا اور کچرے والے بیگ میں ڈال دیا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply