• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ترک اساتذہ ، افغان مہاجرین اور ملا عبد السلام ضعیف

ترک اساتذہ ، افغان مہاجرین اور ملا عبد السلام ضعیف

جن دوستوں کو چند سو ترک اساتذہ کے پاکستان سے نکل جانے کے حکم پر حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیاں یاد آرہی ہیں، ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ انگریزوں نے فارنرز ایکٹ کے نام سے ایک قانون 1946ء میں بنایا تھا جو پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں اب تک رائج ہے اور اس قانون کی رو سے حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ کسی بھی وقت کسی بھی “غیرملکی” کو ملک چھوڑ دینے کا حکم جاری کرسکتی ہے۔

یہ چند سو ترک تو چلیں “غیرملکی” تھے، پاکستان نے 25 لاکھ سے زائد افغان “مہاجرین” (refugees) کو بھی مہاجرین ماننے کے بجائے اس قانون کے تحت غیرملکیوں کے طور پر ہی دیکھا ہے اور اسی بنا پر حکومتیں وقتاً فوقتاً انھیں نہایت ظالمانہ اور وحشیانہ طریقے سے ملک بدر کیے جانے کے احکامات جاری کرتی رہی ہیں۔ پاکستان نے 1951ء کے بین الاقوامی معاہدہ برائے مہاجرین پر دستخط بھی ابھی تک اس لیے نہیں کیے کہ پھر حالات بہتر ہوجانے تک قانوناً آپ مہاجرین کو ملک سے نہیں نکال سکیں گے ۔
تو عرض یہ ہے کہ ہزاروں افغان مہاجرین کے ساتھ جو ظلم ہوا اس کے مقابلے میں چند سو غیرملکیوں کی بے دخلی کچھ بھی نہیں ہے۔

ریاست اقتدار اعلی (sovereignty) کی حامل ہے اور اس بنا پر جب چاہے اس طرح کے احکام جاری کرسکتی ہے۔ آپ کہیں گے کہ یہ تو حکومت نے کیا ہے، بلکہ حکمرانوں نے کیا ہے اور ذاتی مفادات کے لیے کیا ہے۔ میں کہوں گا، جی ہاں لیکن ان ذاتی مفادات کو ریاست نامی اعتباری شخص کے نام پر تحفظ دیا گیا ہے اور حکمرانوں کی ذاتی پسند و ناپسند کو بڑی خوب صورتی سے ریاست کی اعتباری شخصیت کے پردے میں چھپایا گیا ہے۔
اس لیے، دوستو، شاخ تراشی کے بجائے جڑوں پر توجہ کیجیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ملا عبد السلام ضعیف اور ترک اساتذہ کے معاملے میں فرق:
ایک دوست نے اس فرق کے متعلق پوچھا تو عرض کیا:
قانونی لحاظ سے فرق یہ ہے کہ ملا عبد السلام ضعیف سفیر تھے اور قانوناً پاکستان کی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ ان کو تحفظ فراہم کرے۔ قانون کی رو سے حکومت زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتی تھی کہ انھیں اپنے ملک واپس چلے جانے کا حکم دے دیتی۔ اس کے برعکس حکومت نے انھیں پکڑ امریکیوں کے حوالے کیا۔
ترک اساتذہ کو قانوناً سفیر کی حیثیت حاصل نہیں تھی۔ انھیں کسی بھی وقت حکومت واپس اپنے ملک جانے کا حکم دے سکتی تھی۔ ان کے ویزے میں توسیع سے انکار کرسکتی تھی۔ بلکہ ان کے ویزے کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی ان کا ویزا ختم کرسکتی تھی۔
دوسرا فرق یہ ہے کہ ملا عبد السلام ضعیف کو ان کے دشمن ملک کے سپرد کیا گیا جبکہ ترک اساتذہ کو واپس اپنے ملک جانے کا کہا گیا ہے۔ ملا عبد السلام ضعیف کو کسی قانون کا تحفظ باقی نہیں رہا، جب تک ریڈ کراس والے گوانتانامو بہنچ نہیں گئے۔ ترک اساتذہ کو اپنے ملک کے قانون کا تحفظ حاصل ہے۔
انھوں نے مزید پوچھا کہ ان اساتذہ کو “ناکردہ گناہوں کی سزا ملنے کا قوی امکان” ہے۔ جواباً عرض کیا:
“ناکردہ گناہوں کی سزا ملنے کا قوی امکان” محض اندیشہ ہے۔ ملکی عدالتیں معطل نہیں ہوئیں۔ یورپی یونین کے ساتھ ترکی کے مفادات بھی جڑے ہوئے ہیں اور یورپی یونین کا دباؤ بہت اہم ہے۔ اگر یہ اندیشہ واقعی “قوی امکان” بھی ہے تب بھی قانوناً ترک اساتذہ کو روکا نہیں جاسکتا تھا جب تک وہ “سیاسی پناہ” (political asylum) کی درخواست نہ دیتے اور اس صورت میں بھی اس درخواست کا ماننا یا نہ ماننا قانوناً حکومت کے اختیار میں ہوتا۔ ہاں اگر وہ “مہاجر” (refugee) ہوتے تو پھر ان کو اس “قوی امکان” کی صورت میں واپس بھجوانا قانون کی رو سے ناجائز ہوتا اور وہ بھی صرف اسی صورت میں جب پاکستان بین الاقوامی معاہدہ برائے مہاجرین کی توثیق کرچکا ہوتا، جو ابھی تک تو نہیں ہوا۔

Facebook Comments

محمد مشتاق
قانون کے پروفیسر ہیں اور قانون اسلامی میں دسترس رکھتے ہیں۔ آپ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے بطور پروفیسر وابستہ ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply