اسپِ وفا، ذوالجناح۔۔۔۔۔۔۔نور درویش

سوشل میڈیا پر ایسی لاتعداد ویڈیوز آئے دن نظر سے گزرتی ہیں جن میں پالتو جانوروں کی اپنے مالک سے محبت اور اُنسیت کے جذباتی مناظر دکھائےجاتے ہیں۔ اِن ویڈیوز کے ویوز اور شئیرز کی تعداد ہزاروں اور لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ان میں کئی ویڈیوز ایسی ہوتی ہیں جن میں کُتے، گھوڑے یا بلی کو بہت عرصے بعد اپنے مالک سے ملتے ہوئے دکھایا جاتا ہے، ایک ویڈیو ایسی بھی تھی جس میں ایک کُتے کا مالک ظاہر کرتا ہے کہ اُسے ہارٹ اٹیک ہوا ہے جس کے نتیجے میں اُس کی موت واقع ہوگئی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر کُتے کی بے چینی اور پریشانی کی کیفیت حیران کن تھی جیسے وہ اپنے مالک کو بچانا چاہ رہا ہو۔ آپ نے وہ ویڈیو بھی دیکھ رکھی ہوگی جس میں ایک کُتا زمین پر بے جان پڑی ایک مچھلی کے اوپر اپنے منہ کے ذرئعے پانی ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ مچھلی جانبر ہوسکے۔
۔
ایک ویڈیو ایسی تھی جس میں چند ریکسیو والے سیلابی پانی کے ریلے میں پھسنے ایک گھوڑے کو بچا کر خشکی تک لاتے ہیں اور اس کے مالک کے حوالے کرتے ہیں۔ اس منظر کو ریکارڈ کرنے والے نے گھوڑے کی آنکھوں کو فوکس کیا تو آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ گرتا نظر آیا۔ جس پر ہزاروں لوگوں نے جذباتی تبصرے کیے اور کچھ یہ بتاتے رہے کہ گھوڑے رویا نہیں کرتے۔ البتہ میرے لیے گھوڑے اور اُس کے مالک کا ملنا اور دو دوستوں کی طرح چلتے ہوئے جانا بذاتِ خود ایک جذباتی منظر تھا۔ گھوڑے اپنی اُنسیت کا اظہار عموما اپنے مالک کو چوم کر کرتے ہیں یا اپنے ہونٹوں سے مالک کے لباس کو پکڑ کر۔ گھوڑے اپنے مالک کے احساسات کو بھی سمجھتے ہیں اور اُسے یہ احساس بھی دلاتے ہیں کہ وہ بھی اپنے مالک سے بہت مانوس ہیں۔ گھوڑا ایک حساس جانور ہے، اس کی معصومیت اس کے چہرے سے ظاہر ہوتی ہے۔
یہ سب باتیں ہمیں عقل کے خلاف نہیں لگتی ہیں بلکہ ہم سب تسلیم کرتے ہیں کہ جانور اور اُس کے مالک کے درمیان محبت و اُنسیت کا مضبوط رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ گھوڑے جہاں اپنے مالک سے بہت مانوس ہوتے ہیں تو وہیں یہ بلا کے وفادار بھی ہوتے ہیں۔ گھوڑوں کی مختلف نسلیں ہیں جن میں سے ہر نسل کی اپنی خصوصیات ہیں۔
امام حسینؑ کا بھی ایسا ہی ایک گھوڑا تھا جو آپ سے بہت مانوس تھا، آپ کا بہت وفادار تھا۔ ہم جب اس گھوڑے کو یاد کرتے ہیں تو، اس کی وفا کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں یا اس کا تذکرہ کرتے ہیں تو کچھ خلاف عقل کام نہیں کرتے، بلکہ ایک ایسے مالک کیلئے ایک گھوڑے کی وفاداری کا تذکرہ کرتے ہیں جسے چاروں جانب سے انسانوں نے گھیر رکھا تھا۔
سید العلماء سید علی نقوی نقویؒ (نقن صاحب) کی ایک مجلس کا اقتباس ہے کہ:
“عید الاضحی پر آپ جو گوسفند ذبح کرتے ہیں یہ کس کی شبیہ ہے؟ رواروی میں کہہ دیجے گا کہ جنابِ اسماعیلؑ کی تو میں کہوں گا کہ ذرا غور کرکے بتائیے کہ کس کی شبیہ ہے۔ غور کیجئے تو یہ اُس گوسنفد کی شبیہ ہے جو جنابِ اسماعیلؑ کے بدلے آیا۔ وہی تو تو ذبح ہوا تھا۔ تو یہ اُصول یاد رکھیے گا کہ جو جانور نبی زادےؑ کے کام آئے، وہ جانور بھی یاد رکھنے کے قابل ہوتا ہے۔
اب اگر ہم شبیہ ذوالجناح نکالیں تو یہ مت کہئے گا کہ اس کے کیا معنی ہیں۔ ہم وفادار ہیں۔ ہم اُس جانور کو بھی یاد رکھتے ہیں جو آلِ رسولؑ کے کام آیا۔ اب اگر انسان کام نہ آئے ہوں تو ہم اُنہیں بھول جاینگے لیکن اُس جانور کو یاد رکھیں گے جو آلِ رسولؑ کے کام آیا۔ ذوالجناح نے کس نازک وقت پر حسینؑ کا ساتھ دیا۔ ”
کیا عجب حیرت کا مقام ہے کہ سوشل میڈیا پر گھوڑوں اور دیگر جانوروں کی اپنے مالک سے اُنسیت اور محبت کا اظہار دکھانے والی ویڈیوز ہم سب کو بہت متاثر کرتی ہیں لیکن اُس ذوالجناح کی شبیہ ہمیں سمجھ نہیں آتی جس نے نواسہ رسولؑ کا ساتھ دیا، اپنی وفاداری کا عظیم الشان مظاہرہ کیا۔
ہم مجالس میں ذوالجناح یعنی امام حسینؑ کے گھوڑے کو یاد کرتے ہوئے کیا بتاتے ہیں؟ یہی کہ امام حسینؑ روز عاشور، بار بار اسی گھوڑے پر سوار ہوکر میدان جاتے رہے، جنازے لاتے رہے، یہی گھوڑا تھا جو تیروں کا سامنا کرتا رہا۔ ہم یہی بتاتے ہیں کہ جب معصوم بچوں کیلئے خیام میں پینے کیلئے پانی موجود نہ تھا تو اس گھوڑے نے پانی کہاں پیا ہوگا؟ ہم یہی تو بتاتے ہیں کہ جب تک حسینؑ پیاسے تھا، اُن کا یہ بے زبان گھوڑا بھی پیاسا تھا۔ اسی پیاس میں اپنے مالک کی خدمت کرتا رہا، ایک کے بعد ایک لاشہ اُٹھا کر لاتا رہا۔ دوبارہ سید العلماء علامہ سید علی نقی نقویؒ کا جملہ نقل کروں تو وہ فرماتے ہیں کہ:
” اربابِ عزا، میں کہتا ہوں کہ ذوالجناح کو کسی خدمت میں اتنی تکلیف نہ ہوئی ہوگی، مگر جب اُس کی پشت پر سوار امام حسینؑ نے ایک بے شیر کو اپنے ہاتھوں پر بلند کیا ہوگا، جب اُسے خیموں تک لائے ہونگے تو یہ بے زبان بھی تڑپ گیا ہوگا کہ مجھے یہ خدمت بھی ادا کرنا تھی۔ ؟”
کسی “اصلاحی پاکستانی شیعہ” کی لکھی ایک تحریر اکثر میری نظروں سے گزرتی ہے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایرانیوں نے کربلا سے طاغوت سے ٹکرانے کا مقصد حاصل کیا، لبنایوں نے کربلا کو دیکھا تو حزب اللہ بنا لی، عراقیوں نے دیکھا تو اربعین پر سب سے بڑا اجتماع اکٹھا کرلیا اور پاکستانیوں کی نظر کربلا میں بس گھوڑے پر پڑی اس لیے انہوں ںے جگہ جگہ گھوڑے کے جلوس نکال لیے۔
میرا دل یہ ہتک آمیز تحریر پڑھ کر کٹ کر رہ گیا اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے یہ صرف امام حسینؑ کی اُس باوفا سواری کی تحقیر نہیں ہے جس نے چاروں طرف سے گھرے ہوئے اپنے مالک کی آخر وقت تک خدمت کی، بلکہ یہ اُن چوبیس ہزار پاکستانی شیعوں کی بھی تحقیر ہے جنہیں “گھوڑے کے جلوس” کی وجہ سے نہیں بلکہ اس گھوڑۓ کے سوار سے محبت کے جرم میں شہید کیا گیا۔ کیا آپ نے ایک ماہ قبل ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنے تیسرے بھائی کے قتل کے بعد روتے ہوئے اپنے قتل ہونے کی وجہ بتانے والے باقر حسین شہید کے بھائی کی ویڈیو نہیں دیکھی؟ مجھے محسوس ہوا کہ پاکستانی شیعوں کی تحقیر کرنے والا ان چوبیس ہزار شیعوں کے ورثاء کو نیزہ چبھو رہا ہے جو اپنے پیاروں کو “لبیک یاحسینؑ” اور جوانوں کو “ہائے ہائے علی اکبرؑ” کہہ کر دفناتے رہے۔ غیر تو اس بے زبان مگر باوفا کی شبیہ کا مذاق اڑاتے ہی تھے، اب کچھ “حق پرست” ہمارے اپنے اندر بھی پیدا ہوچکے ہیں جو شبیہ ذوالجناح کو سید العلماء سید علی نقی نقویؒ سے زیادہ جانتے ہیں۔
افسوس اس احساسِ کمتری پر اور اس سوچ پر جس کی بنیاد اپنی روایت کی تحقیر اور دوسروں کی روایت کی تقلید ہو، اندھی تقلید۔
برصغیر میں امام حسینؑ کی اس باوفا بے زبان سواری کی یاد میں جو شبیہ ذوالجناح برآمد ہوتی ہیں انہیں بہت چاہ، بہت محبت اور بہت خلوص سے پالا جاتا ہے۔ ان کی خدمت یہ سوچ کر کی جاتی ہے کہ اس کی نسبت 61 ھجری کے اُس گھوڑے سے ہے جو امام حسینؑ کے ساتھ پیاسا تھا اور آپ کی خدمت کر رہا تھا۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ جس شبیہ کی نسبت کسی متبرک چیز سے ہوجائے، وہ قابل احترام ہوجاتی ہے۔ شبیہ ذوالجناح سے ہماری محبت بھی اسی وجہ سے ہے کہ اس کی نسبت امام حسینؑ کی اُس باوفا سواری سے ہے۔ سنت ابراہیمیؑ ادا کرنے کیلئے خریدے گئے دنبے کی شبیہ سے ہمیں اس قدر اُنسیت ہوجاتی ہے کہ اسے ذبح ہوتا دیکھ کر کچھ لمحوں کیلئے اداس ہوجاتے ہیں۔ تو ذبحِ عظیم کے ذوالجناح کی شبیہ سے اگر ہم محبت کریں، اُسے پالیں، اُس کی خدمت کریں، اُسے چھو کر رو پڑیں، اُس سے لپٹ کر امام حسینؑ کو یاد کر اُٹھیں اور اُس کے چل بسنے پر اداس ہوکر اُسے احترام سے کسی جگہ دفن کردیں تو اس میں حیرانی کیسی؟
بہت برس پہلے لاہور میں ڈاکٹر ریاض علی شاہ کی امام بارگارہ عطیہ اہلیبیتؑ میں 9 محرم الحرام شبیہ ذوالجناح کی زیارت تھی جو اپنے روایتی اژدہام اور رش کی وجہ سے مشہور ہے۔ چونکہ یہ میرا آنکھوں دیکھا واقعہ ہے اس لیے لکھ رہا ہوں کہ شبیہِ ذوالجناح باہر سڑک پر آچکی تھی اور اب اسے واپس امام بارگاہ کے اندر لیجایا جارہا تھا لیکن گھوڑا عین امام بارگاہ کے دروازے پر آکر کھڑا ہوگیا اور لاکھ کوشش کی باوجود وہاں سے ایک انچ نہ ہلا۔ کافی دیر گزر گئی تو ایک ادھیڑ عمر شخص تیزی سے گھوڑے کے سامنے بکھرے ہوئے وہ تما کاغذ اُٹھانے لگا جو آس پاس دیواروں پر لگے مجالس کے پوسٹر سے رش کے باعث پھٹ پھٹ کر گرے تھے۔ میں نے اس شخص کو پنجابی مین کہتے سنا کہ “مولاؑ دا نام زمین اوتے پیا وے تے ذوالجناح کیویں ٹُڑے گا؟ (جب مولاؑ کا نام زمین پر پڑا ہوگا تو ذوالجناح کیسے آگے بڑھے گا؟”۔ کاغذ اُٹھنے کی دیر تھی اور وہ گھوڑا چلتا ہوا امام بارگاہ میں داخل ہوگیا۔ آپ چاہیں تو اسے گھوڑے کی حساسیت سمجھ لیں یا شبیہ ذوالجناح کی خصوصیت، آپ کی مرضی۔
امام حسینؑ کے اس گھوڑے نے میدان کربلا میں اپنے مالک کو زین سے گرتے دیکھا، تیروں کو اُن کے جسمِ مطھر میں پیوست دیکھا۔ بقول نقن صاحب، اس گھوڑے نے ادھر اُدھر دیکھا کہ شاید کہیں عباسؑ نظر آئیں علی اکبرؑ نظر آئیں تو انہیں اشارے سے سمجھا سکوں کہ میرا مالک زخمی ہوکر زمین پر تیروں پر معلق ہوچکا۔ لیکن وہاں کوئی نہ تھا۔ بس پھر امام حسینؑ کے اس گھوڑے نے اپنی پیشانی کو اپنے مالک کے خونِ مطھر سے رنگین کیا اور خیام کی جانب اس حالت میں بڑھا کہ باگیں کٹی ہوئی تھیں، زین ڈھلی ہوئی تھی اور جابجا تیر پیوست تھے۔
ہم شیعہ اسی گھوڑے کی شبیہ برآمد کرتے ہیں۔ ذوالجناح نے اپنے مالک کی محبت میں جو کیا، اسے جھٹلانے کیلئے آپ کو گھوڑوں کے اپنے مالک سے اُنسیت اور محبت کے جذبے جو جھٹلانا ہوگا۔ اگر نہیں جھٹلا سکتے تو یہ مان لیجئے کہ اُس گھوڑے کی محبت کا ذکر ہے جس کا مالک حسینؑ تھا، کوئی عام انسان نہیں۔ نہ یہ مالک عام انسان تھا اور نہ ہی اس کی سواری۔
تحریر کا اختتام سید العلماء سید علی نقی نقویؒ کے ان جملوں پر کروں گا:
“یادرکھنا چاہئے کہ ہم نے کربلا میں فقط انسانوں کی یادگار ہی قائم نہیں رکھی بلکہ جانور بھی اگر ہمارے امامؑ کے کام آیا تو ہم نے اُس کی یادگار بھی قائم رکھی۔ امام حسینؑ کا اسپِ وفا جسے ہم اب ذوالجناح کہتے ہیں، اس نے کیا رفاقت انجام دی ہے۔ دن بھر امام حسینؑ جتنا بھی چلے، سب اسی کی پشت پر چلے۔ تو اس بے زبان کی پیاس کی انتہا کا بھی تصور کیجئے۔”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”اسپِ وفا، ذوالجناح۔۔۔۔۔۔۔نور درویش

Leave a Reply