وزیراعظم عمران خان کا ایک دیرینہ عزم یہ بھی ہے کہ اختیارات نچلی سطح پہ منتقل ہوں جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک بہم پہنچیں۔۔۔تمام ترقیاتی کام لوکل گورنمنٹ کے ذریعے ہوں صوبائی و قومی اسمبلی عوام کی فلاح و بہبود کے لئیے قانون سازی کرے ، جو اسکا اصل کام ہے۔اسی لیے پنجاب میں نئے بلدیاتی نظام کا ڈول ڈالا جا رہا ہے۔کہا جا رہا ہے کہ پنجاب کا متوقع بلدیاتی نظام کے پی کے میں نافذ بلدیاتی نظام میں چند تبدیلیوں کے ساتھ تشکیل دیا جائے گا۔وزیر بلدیات سینئر منسٹر علیم خان نے اسکے لیے ہوم ورک مکمل کرلیا ہے، نئے بلدیاتی نظام کامسودہ پنجاب کے وزیراعلی اور وزیراعظم کو پیش کر دیا ہے انکی منظوری کے بعد اگلے مہینےاکتوبر میں نیا بلدیاتی نظام گورنر پنجاب بذریعہ آرڈیننس نافذ کردیں گے نفاذ کے ایک ہفتے کے اندر اندر بلدیاتی الیکشن کا شیڈول جاری کر دیا جائے گا تین ماہ بعد فروری یا مارچ میں الیکشن کرا دئیے جائیں گے۔
مجوزہ بلدیاتی نظام کے چیدہ چیدہ نکات درج ذیل ہونگے
یونین کونسل کی سطح پہ 3 یا 5کونسلر ز منتخب ہونگےتین مخصوص کونسلرز کی نشستیں رکھی جائیں گی۔
ہردویونین کونسل کی عوام براہ راست ایک یونین ناظم منتخب کریں گےجو عوامی شکایات خانگی معاملات صحت صفائی اور کچھ اسسٹنٹ کمشنر کے انتظامی سطح کے معاملات یونین نظامت کے تحت ہونگے
نیز یونین کونسل، ٹاؤن، تحصیل میں تمام ترقیاتی کام سیوریج ،واٹر سپلائی، صفائی پانی فراہمی، سڑک سولنگ نالیاں وغیرہ کے تعمیر و مرمت کرنے کے مجاز بھی ہوں گے
نئے نظام میں یونین نائب ناظم کی آسامی ٹاؤن کمیٹی اور تحصیل کا سیٹ اپ ختم کردیا جائے گا۔۔۔
تحصیل اور ٹاؤن کی سطح پہ موجود شہروں قصبوں میں ڈپٹی مئیر کا عہدہ تخلیق ہوگا ڈپٹی مئیرز کا چناوؤبھی براہ راست انتخابات کے ذریعے ہوگا۔
نئے نظام میں ضلعی حکومتیں تشکیل دی جائیں گی انکی اپنی ضلعی اسمبلی ہوگی جو یونین ناظمین ،ٹاؤں ناظمین اور تحصیل لیول پہ منتخب شدہ ڈپٹی مئیر ز پہ مشتمل ہوگی ضلعی حکومت کا سربراہ ضلعی ناظم یا مئیر کہلائے گا۔
ضلعی ناظم بھی براہ راست عوام کی ووٹنگ سے الیکٹ ہوگا۔۔
تحصیل سطح پر منتخب ہونے والے وائس چیرمین یا ڈپٹی میئر میں سے سب سے سینئر ضلعی اسمبلی کی صدارت(بطور سپیکر ) کرے گا اسکی تقرری کا طریقہ کار ابھی وضع نہیں کیا گیا۔
لاہور سمیت پنجاب کے آٹھ بڑے شہر میٹرو پولٹن کہلائیں گے جہاں مئیرز بھی براہ راست انتخابات کے ذریعے منتخب ہونگے۔
پرائمری سیکنڈری ایلمینٹری ایجوکیشن اور پرائمری ہیلتھ سمیت کم و بیش 20 محکمے ضلعی حکومتوں کو سونپ دئیے جائیں گے۔
شنید ہے کہ صوبہ پنجاب کے ترقیاتی بجٹ کا 33فیصد بلدیاتی اداروں کو منتقل کر دیا جائے گا۔
تمام اکاونٹس کی ہینڈلنگ ضلع ناظم کے پاس ہوگی جسکی سالانہ آڈٹ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کریں گے جبکہ سالانہ انسپکشن بھی ہو گی مزید یہ کہ بلدیاتی اداروں کی مانیٹرنگ و نگرانی کے لیے لوکل کونسلیں تشکیل دی جائیں گی،جن میں حکومتی اور اپوزیشن ممبران شامل ہوں گے۔
پہلے پہل سننے میں آرہا تھا کہ یونین کی سطح سے لے کر ضلع نظامت تک تعلیم کی شرائط رکھی جائیں گی مگر اب یہ فیصلہ تبدیل کر دیا گیا ہے۔۔مجوزہ بلدیاتی نظام بظاہر اختیارات کو نچلی سطح پہ منتقل کرنے کے لیے متعارف کرایا جا رہا ہے مگر چند مبصرین اورسیاستدان اسے سیاسی طور پہ پی ٹی آئی کو قوت فراہم کرنے کا حربہ قرار دے رہے۔سندھ اسمبلی سے اسکے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ وفاق کو صوبوں میں بلدیاتی نظام نافذ کرنے کا اختیار نہیں یہ صوبوں کا اندرونی معاملہ ہے۔پنجاب میں بھی حزب اختلاف نے نئے بلدیاتی نظام کے خلاف پنجاب اسمبلی میں قرارداد جمع کرائی گئی ہے نیز اسے عدالت میں چیلنج کرنے کی بات بھی کی جا رہی ہے۔
ان تمام خدشات کے باوجود وفاقی حکومت نیا بلدیاتی نظام نافذ کرنے کے لئیے پرعزم ہے اور اس پہ نہایت سرعت سے کام کیا جارہا ہے اس تیز ترین پیش رفت سے ظاہر ہورہا ہے کہ پنجاب میں نئے بلدیاتی نظام کا نفاذ نوشتہ دیوار ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں