اگرچہ ہم بادشاہ نہیں تھے لیکن پھر بھی ہم ایک ایسی وادی میں جا رہے تھے جو بادشاہوں کے دلوں کو خوش کرتی ہے۔
اور گرچہ ہم تارڑ کی ” راکھ ” کے گذرے زمانوں والے مشاہد بھی نہیں تھے۔ پھر بھی ہمیں وہ سلیٹی رنگ اپنی طرف کھینچتے تھے، جو اس وادی کی شناخت ہیں۔
اور یہ سلیٹی رنگ کس وادی کی شناخت ہیں؟ یہ سلیٹی رنگ وادی سوات کی شناخت ہیں۔
فرق صرف اتنا تھا کہ مشاہد کو یہ سلیٹی رنگ ہر دسمبر میں بلاتے تھے مگر ہمیں یہ جون اور جولائی میں بلا رہے تھے۔ہمیں وہ جھیل اپنی طرف بلا رہی تھی جس کے پانیوں میں ہم نے اترنا تھا۔ہمیں وہ فضائیں بلاتی تھیں جن کی ہواؤں میں ہم نے سانس لینا تھا۔ہمیں وہ سنگ ریزے بلاتے تھے جو ہمارے قدموں کو چومنے کے لئےبیتاب تھے۔
میں سیالکوٹ سے روالپنڈی کے لیے بدھ کی رات کو نکل پڑا تھا اور . بدھ کی رات کو موسم بھی کافی دلفریب تھا۔ سارا راستہ بادل چھائے رہے اور کہیں کہیں بارش کی چند بوندیں گریں۔ موسم کے ساتھ ساتھ چاند بھی خطرناک حد تک خوبصورت تھا۔ ایک تو چودھویں کی رات تھی، دوسرا وہ بادلوں کے ساتھ ملکر اٹھکیلیاں کر رہا تھا۔ کہیں وہ بادلوں کے پیچھے چھپ جاتا تھا اور کبھی اپنا مکھڑا دکھا کر ظلم کی انتہا کر دیتا تھا کہ چاند کے عاشق اب جائیں تو جائیں کدھر۔ میرا محبوب میرے سامنے تھا مگر میری پہنچ سے بہت دور تھا۔ شائد یہی محبوب اور محبت کی خوبصورتی ہے کہ وہ آپ سے بہت دور ہو کر بھی آپ کے پاس ہوتے ہیں ۔آپ کو سب سے بیگانہ کر دیتے ہیں اور مکمل طور پر اپنے حصار میں رکھتے ہیں۔
بڑی بے صبری سے میں سوہنی کے چناب کا انتظار کرنے لگا کہ چناب کے پانیوں میں اپنے محبوب چاند کو دیکھوں گا۔ واللہ اس نظارے کو سوچ کر ہی میں خوش ہو رہا تھا۔ وصال سے زیادہ تصور وصال میں خوشی کا احساس ہو رہا تھا۔ جونہی گاڑی چناب کے پل پر آئی تو میں نےاشتیاق بھری نگاہوں سے نیچے دیکھا۔ مگر یہ کیا۔۔۔؟ چناب کے پانیوں میں مجھے چاند کا عکس نہ دکھا۔ سوچا کہ شائد چاند کے آگے بادل آ گئے ہوں گے۔ فوراً آسمان کی طرف دیکھا۔ مگر وہاں تو چاند موجود تھا۔ ذرا حیرانی اور پریشانی کے عالم میں دوبارہ چناب میں دیکھا۔ تب جا کر احساس ہوا کہ نیچے تو پانی ہی نہیں تھا۔ یقیناً یہ وہ چناب نہ تھا جو سندھ طاس معاہدے کے بعد ہمیں ملا تھا۔ یہ وہ چناب نہیں تھا جس کا ضامن ورلڈ بنک تھا۔ اس کے پانی پیچھے اور بہت پیچھے روک دئیے گئے تھے۔ میری ساری خوشی ماند پڑتی جا رہی تھی۔ مجھے اس وقت ” بہاو” شدت سے یاد آ رہا تھا۔ سرسوتی جو بڑے پانیوں کی ماں اور ساتویں ندی تھی، شدت سے یاد آ رہی تھی۔ چاند کی روشنی میں چناب کنارے بیٹھے کچھ لوگوں میں مجھے پاروشنی، ورچن اور سحرو کا عکس دکھائی دے رہا تھا جو ” بڑے پانیوں ” کے انتظار میں تھے۔ تو کیا چناب بھی ایک اور سرسوتی بننے جا رہا تھا؟ کیا چناب کی تہذیب بھی مٹنے جا رہی تھی ؟ میری ریڑھ کی ہڈی میں ایک خوف کی لہر دوڑ گئی۔
گاڑی تیز رفتاری کے ساتھ اپنی منزل کی جانب دوڑ رہی تھی۔ رات اور بارش کے سبب جرنیلی سڑک پر زیادہ گاڑیوں کا ہجوم نہ تھا، کچھ ہی دیر بعد جہلم ٹول پلازہ آ گیا اور میرے دل میں پھر سے آرزو جاگی کہ چاند کا عکس جہلم کے پانیوں میں دیکھا جائے، مگر یہاں بھی حالات کچھ مختلف نہ تھے۔ پہلے میں جب بھی جہلم کے پل سے گذرتا تھا تو انور مسعود یاد آ جاتا تھا اور اس کے یاد آنے سے پہلے ہی چہرے پر مسکان آ جاتی تھی۔
” کھٹ کے چلانے نہیں میں کارخانے دوستو
چار آنے، چار آنے ، چار آنے دوستو ”
مگرآج مجھے ٹلہ جوگیاں کا وہ شاعر نصیر کوی یاد آ رہا تھا، جس نے بہت عرصہ پہلے جہلم کی اسی حالت کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
مندر، گرجے، مسجد دے پیراں نوں دھو کے لنگھدا ایں
گردوارے متھا ٹیکن لئی کھلو کے لنگھدا ایں
ہن منہ پھیر کے ستا رہنا ایں تیریاں راہواں ملاں کتھے
جہلم تیرے پانیاں اندر پہلے جیہیاں گلاں کتھے
تقریباً تین بجے تک میں روالپنڈی پہنچ چکا تھا جہاں میرا دوست خذیفہ میرا منتظر تھا۔ ہماری اگلی منزل مینگورہ تھی جو تقریباً چھ گھنٹے بعد آنی تھی۔ چار بجے کے قریب ہماری گاڑی آ گئی۔ کہتے ہیں کہ نیند سولی پر بھی آ جاتی ہے اور میں تو دو دنوں سے جاگ رہا تھا ۔ اس وقت میری کیا حالت تھی کہ میں جانتا ہوں یا پھر میرا رب۔ہم نے گاڑی میں سامان رکھا اور فوراً ہی سو گئے۔ ہمیں مینگورہ سے بحرین اور پھر کالام جانا تھا۔ گاڑی کہاں جا رہی تھی، کہاں کہاں رک رہی تھی، ہمیں ذرا بھی ہوش نہ تھا۔ ایک لڑکے کی کان میں آواز پڑی۔ ” لو جی پہاڑی علاقہ شروع ہو گیا۔” اور اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی۔ گھڑی کی سوئیاں تقریباً آٹھ بجا رہی تھیں۔ اور موسم بھی کافی خوشگوار ہو چکا تھا۔ مردان، تخت بائی اور نہ جانےکون کون سا شہر گذر چکا تھا۔ بھوک بھی اب اپنے لگنے کا احساس دلا رہی تھی۔ ہم وادی سوات میں داخل ہو چکے تھے۔ ہر طرف سبزہ تو تھا مگر وادی سوات کے سیلیٹی رنگ ابھی ہم سے پردہ کئے ہوئے تھے۔ مینگورہ گزر چکا تھا اور اب ہماری گاڑی بحرین کی جانب رواں دواں تھی۔ اگر آپ مقامی ٹرانسپورٹ استعمال کرنا چاہیں تو مینگورہ سے بحرین یا کالام تک کی گاڑی آپ کو آسانی سے مل جائے گی۔ مینگورہ میں دو بس استینڈز ہیں ۔ ایک پشاور بس اڈہ جہاں سے گاڑیاں دور کے شہروں کو جاتی ہیں جبکہ دوسرا قریب کے شہروں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ اچھی بات یہ ہے کہ کالام کے لیے آپ کو گاڑی دونوں جگہ سے مل جاتی ہے ۔ راولپنڈی سے چونکہ ہماری کوسٹر بک تھی، اس لئے ہم مینگورہ میں نہیں رکے اور سیدھے بحرین کو چل دئیے۔ بحرین سے بہت پہلے ایک مقام پر بہت تھوڑا مگر ذرا تیز پانی تھا۔ ساتھ ہی ایک چھوٹا سا ہوٹل تھا تو ناشتے کی غرض سے وہاں رک گئے۔ شروع میں یہ پانی میرے ٹخنوں سے بھی نیچے تھا۔ یہیں پتھروں کے پاس ہی بائیں جانب ایک بچہ بھی میرے پاس ہی کھڑا تھا۔ (ہماری گاڑی میں ایک فیملی بھی تھی اور یہ بچہ انہی کا تھا)۔ اچانک اس کی ماں چیخی کہ میرے بچے کو بچاؤ۔
میں تھوڑا آگے بڑھا مگر تھوڑا اور معصوم نظر آنے والا پانی اس قدر تیز تھا کہ میرا اپنا توازن بری طرح بگڑا اور میں وہیں رک گیا۔ کچھ ہی لمحوں میں وہ بچہ ڈوبتا ہوا دور اور بہت دور ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ پانی آگے جا کر مڑ گیا اور وہ بچہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ پیچھے سے جا کراس بچے کو پکڑںا ناممکن تھا۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر کہ ذرا فاصلے پر ایک مقامی بندہ کھڑا تھا۔ اس نے صورتحال کو سمجھا اور ڈوبتے ہوئے بچے کے ساتھ ساتھ سڑک پر دوڑ لگانا شروع کر دی۔ بچے سے آگے نکل کر اس فرشتہ صفت انسان نے پانی میں چھلانگ لگا دی اور پھر بچے کو پکڑ کر باہر نکالا۔ وہ مقامی تھا اسی لئے جانتا تھا کہ بچے کو پیچھے سے پکڑنا ناممکن ہو گا۔ ورنہ ہم میں سے کوئی اگر تیرنا جانتا بھی ہوتا تو وہیں سے کودتا۔ بچے کی جان تو جاتی ہی جاتی، شائد اس کی اپنی جان بھی مشکل میں پڑ جاتی۔ خدارا جب بھی سیر کے لئے جائیں تو خود بھی پانی سے دور رہیں اور بچوں کو بھی پانی سے دور رکھیں کیونکہ پانی صرف اور صرف بہنا جانتا ہے، بہاؤ جانتا ہے۔ اسکے علاوہ اسے کسی رشتہ سے کوئی غرض نہیں کہ ڈوبنے والا کسی کا اکلوتا بھائی ہے یا کسی کا اکلوتا بیٹا۔
ناشتے کے بعد ایک بار پھر سفر کا آغاز ہوا۔ ایک خاص موڑ کے بعد پانی نے ہمارےساتھ ساتھ چلنا شروع کر دیا تھا۔ جوں جوں ہم بحرین سے قریب ہوتے جا رہے تھے توں توں پانی کی چنگھاڑ میں اضافہ ہو رہا تھا۔ پانی کی چنگھاڑ اور خوب صورتی میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ بعض اوقات شور اتنا بڑھ جاتا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔ خوب صورت نظر آنے والا پانی اب خطرناک حد تک چنگھاڑ رہا تھا۔ ۔ ایک نالہ کی صورت میں بہنے والا پانی کب دریائے سوات میں تبدیل ہو گیا تھا ہمیں پتہ ہی نہیں چلا تھا۔ دریائے سوات اب شیردل بنتا جا رہا تھا اور ہم بحرین پہنچ رہے تھے۔ بحرین شہر کے اندر سے گزرتے ہوئے کچھ بے انتہا خوبصورت پوائنٹس آتے ہیں جہاں شیردل دریائے سوات اچھی طرح چنگھاڑتے ہوئے اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے لیکن اگر آپ وادی سوات کے اصلی سلیٹی رنگ دیکھنا اور بروقت کالام پنچنا چاہتے ہیں تو چپ چاپ بحرین سے آگے کو نکل جائیں۔ کیونکہ اصل سوات تو کالام کےبعد شروع ہوتا ہے۔ مینگورہ، مدین اور بحرین تو شہر ہیں لیکن کالام کالام ہے اور ضمیر جعفری کی بات کے آگے اور کس کی بات ہو سکتی ہے کہ
جام تک آئے مئے گلفام تک آئے نہیں
جو سوات آئے مگر کالام تک آئے نہیں
بحرین کی آبشاریں اور شیردل دریائے سوات کا شور اپنے عروج پر تھا اور ہمیں مسلسل روک رہا تھا کہ ظالمو تھوڑی دیر تو رک جاؤ۔ مگر ہمیں نہ رکنا تھا اور نہ ہم رکے کیونکہ ہماری منزل کالام تھی جو ابھی بہت دور تھی۔ بحرین میں ہی جمعہ کی نماز کا وقت ہو گیا۔ مسجد بھی دریائے سوات کے ساتھ ہی تھی۔ شیردل دریائے سوات اب ہمارا کچھ کچھ دوست بن رہا تھا اور اب اسے کالام تک ہمارے ساتھ ہی چلنا تھا۔ مخالف سمت میں ہی سہی مگر رہنا ساتھ ہی تھا۔ جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر کالام کی طرف پھر سفر کا آغاز کیا۔ اچانک ایک بورڈ پر نظر پڑی تو لکھا تھا۔ ” کالام 34 کلومیٹر ” دل خوش ہو گیا کہ کالام آیا ہی چاہتا ہے۔ مگر ابھی عشق کے امتحاں اور بھی تھے۔ ذرا آگے گئے تو تباہ حال سڑک نے ہمارے سارے ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔ سڑک پر کام ہو رہا تھا اور جگہ جگہ یہ مکمل بند تھی۔ ۔
ٹریفک کی لمبی لمبی لائنیں لگی ہوئی تھیں۔ ٹریفک بند ہونے سے ہمیں ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ ہم نے کالام روڈ پر ذرا ٹریکنگ کر لی۔ دریائے سوات کی دوسری طرف جانے کےلئے تھوڑے فاصلے پر معلق پل موجود تھے۔ چھوٹے چھوٹے مقامی بچے ان پر بھاگ رہے تھے جیسے ہم لوگ اپنی گلیوں میں گھومتے ہیں۔ ہم دونوں بھی لپک کر چڑھ گئے۔ دریائےسوات کا بہاؤ اس قدر تیز تھا کہ ہمیں پل دائیں جانب چلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ میں تو پہلے ہی کمزور دل تھا۔ پل کے درمیان سے ہی بھاگ کر واپس آ گیا۔ بحرین کے بعد کوہستان کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے اورکوہستانی علاقوں میں شام بڑی تیزی سے اترتی تھی۔ جوں جوں ہم کالام کی طرف بڑھ رہے تھے، خنکی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ شام اتر رہی تھی اور کہیں کہیں اب برفیلی چوٹیاں بھی دکھائی دے رہی تھیں۔ کالام سے ذرا پہلے کا لینڈ اسکیپ بقیہ سوات سے بالکل مختلف تھا۔ یہ اونچے اونچے پہاڑوں، برفانی چوٹیوں اور تودوں کا علاقہ تھا جس کے پار چترال تھا۔ 34 کلومیٹر کا وہ سفر جو ہم نے دوپہر تقریباً دو بجے شروع کیا تھا، وہ شام اترنے کے ساتھ ساتھ ختم ہو رہا تھا۔ کالام کا شہر اب آیا ہی چاہتا تھا۔ ہلکی ہلکی پھوار شروع ہو چکی تھی۔ وادی کالام کا حسن ہمیں اپنی بانہوں میں جکڑ رہا تھا۔ ٹھنڈ اچھی خاصی بڑھ چکی تھی۔ ٹوٹا پھوٹا روڈ اب ذرا پختہ ہو رہا تھا۔ ہمارا امتحان ختم ہو چکا تھا۔ وادی سوات میں شام اتر چکی تھی اور سامنے کالام شہر کا مال روڈ نظر آ رہا تھا۔ ہم اس وقت سطح سمندر سے6565 فٹ کی بلندی پر تھے جہاں
بارش نے سردی میں اضافہ کر دیا تھا اور مجھ سمیت ہر بندہ کانپ رہا تھا۔
میں نے ایک بڑی بے وقوفی یہ کی تھی کہ کالام جانے سے پہلے اس کے موسم کے بارے میں بالکل بھی معلومات حاصل نہ کی تھیں۔ میں ایسے ہی سیالکوٹ کے موسم کے مطابق کپڑے پیک کر کے چل دیا تھا، جس کا خمیازہ اس وقت کانپ کانپ کر بھگت رہا تھا۔ سونے پر سہاگہ یہ تھا کہ میری ساری شرٹس آدھی آستینوں والی تھیں۔ باقی سب لوگ اپنے ساتھ گرم جیکٹس لائے ہوئے تھے۔ سب نے اپنے گرم کپڑے نکال لئے تھے۔ میں نے ایسے ہی شوق میں اپنے بیگ میں دو کرتے رکھ لئے تھے۔ جن کا اب مجھے واحد فائدہ یہ تھا کہ وہ پوری آستینوں والے تھے۔ جب ہم کوسٹر سے باہر نکلے تو بوندا باندی اب بھی جاری تھی مگر قدرے کم ہو چکی تھی۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ کچھ دیر بعد یہ رک جائے گی۔ دھول مٹی نے سب کا برا حال کیا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر کہ ہوٹل میں گرم پانی موجود تھا۔ سب نہا کر تازہ دم ہو گئے اور کچھ ہی دیر میں سب موسم کے عادی ہو گئے۔ نہا دھو کر فارغ ہوئے تو کھانا لگ چکا تھا۔
کالام کی چکن کڑاہی عجیب تھی جس میں چکن کم اور ٹماٹر بہت زیادہ تھے۔ ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے ہم چکن کڑاہی نہیں بلکہ ٹماٹر کڑاہی کھا رہے ہوں۔ کھانے کے بعد مال روڈ کی سیر ضروری تھی۔ سردی کافی حد تک کم ہو چکی تھی اور رہی سہی کسر ” کافی ” نے دور کر دی۔
مال روڈ سے واپسی پر سب اتنے تھک چکے تھے کہ ہوٹل آتے ہی سب اپنے اپنے بستروں میں گھس گئے تھے۔ آنکھوں میں جھیل ” مہوڈنڈ ” کے سپنے لئے ہم جلد ہی نیند کی آغوش میں چلے گئے ۔
کل ہم نے پھر گھوڑا ہو جانا تھا کہ ہمیں جھیل مہوڈنڈ جانا تھا۔ کالام کی صبح ہی نرالی تھی۔ ہمارے ہوٹل کےبالکل سامنے ایک سلیٹی پہاڑی پر برف پڑی تھی۔ ناشتے سے فارغ ہوئے تو جیپ آ چکی تھی۔ کالام سے مہوڈنڈ جانے کے لئے آپ کو آسانی سے پانچ ہزار تک کی جیپ مل جاتی ہے۔ اب اصلی سوات شروع ہونےجا رہا تھا۔ جھیل تک جاتے ہوئے راستے میں بہت سی آبشاریں آتی ہیں۔ ان کا پانی اتنا ٹھنڈا ہوتا ہے کہ کچھ سیکنڈز سے زیادہ آپ ان پانیوں میں کھڑے نہیں ہو سکتے۔ شیردل دریائے سوات اب بھی ہمارے ساتھ ساتھ ہی تھا اور اس نے جھیل تک ہمارے ساتھ ہی رہنا تھا۔ وادی سوات کے سلیٹی رنگ اب ہم پر جادو کر رہے تھے۔ ہر دو منٹ کےبعد ایسے مناظر آ رہے تھے کہ بس وہیں رہ جانے کو دل کر رہا تھا مگر ہمیں ابھی مہوڈنڈ جانا تھا۔ راستہ گندا ضرور تھا مگر محفوظ تھا۔ قریبی پہاڑوں سے برف پگھل چکی تھی لیکن ذرا دور کے پہاڑوں پر ابھی تک برف پڑی تھی۔ ذرا تصور کیجئے کہ آپ کے سامنے سبزہ زار سلیٹی پہاڑ کھڑے ہیں اور ان کے پیچھے واقع برف پوش پہاڑوں کی چوٹیاں۔ کبھی وہ چوٹیاں بادلوں میں چھپ جاتی تھیں اور کبھی تیز دھوپ میں چمکنے لگتی تھیں۔ اگر آپ نے یہ مناظر نہیں دیکھے تو آپ کا ان مناظر کو تصور میں لانا ذرا مشکل ہے۔
جھیل کے راستے میں ایک چشمہ آتا ہے جو” آب شفاء ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ بہت پہلے آس پاس کے علاقوں میں ایک بزرگ رہتے تھے۔ وہ ایک بار شدید بیمار ہو گئے۔ بہت جتن کئے مگر کچھ افاقہ نہ ہوا۔ ایک رات عشاء کی نماز میں بارگاہ الٰہی میں رو رو کر اپنی صحت یابی کے لئے دعا کی۔ کہا جاتا ہے کہ اسی رات ان کو خواب میں بشارت ہوئی کہ وہ اس چشمے کا پانی جا کر پیئں۔ تبھی سے اس چشمے کا نام آب شفاء پڑ گیا۔ مقامی لوگوں کے مطابق جو شخص بھی دل میں کوئی وہم لائے بغیر وہ پانی پیتا ہے، اسے شفاء ملتی ہے۔ جبکہ بہت سے لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ یہ چشمہ چونکہ بلند و بالا پہاڑوں سے بہتا ہوا نیچے آتا ہے، تو راستے میں آنے والی مختلف جڑی بوٹیوں کے اثرات بھی اپنے ساتھ نیچے تک لے آتا ہے اس لئے اس چشمے کے پانی میں شفاء ہے۔ وہاں سے گزرنے والے بہت سے لوگ رک کر اس چشمے سے پانی پی بھی رہے تھے اور اپنے ساتھ بوتلوں میں پانی بھر کر بھی لے جا رہے تھے۔
شیردل دریائے سوات اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چنگھاڑ رہا تھا کہ اچانک دریا کا شور ختم سا ہو گیا۔ اور ہماری آنکھوں کےسامنے ایک خوبصورت منظر آ گیا۔ یہی جھیل مہوڈنڈ تھی۔
کالام سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع جھیل مہوڈنڈ میں مچھلیوں کی بہتات ہے اور اسی لئے اسے مہوڈنڈ یعنی مچھلیوں والی جھیل کہا جاتا ہے۔ تقریباً دو کلو میٹر لمبی اور 1.2 کلو میٹر چوڑی جھیل کشتی رانی کے لئے بھی بہت مشہور ہے ۔ 9400 فٹ بلندی ہونے کے باوجود جھیل پر صبح کے وقت سردی کا احساس نہیں ہوتا مگر رات یقینا ٹھنڈی ہوتی ہو گی۔ جھیل کے کنارے ایک لمبی لائن میں کیمپ لگے تھے۔ جھیل کے کنارے پر رات گزارنے کا بھی اپنا ہی ایک لطف ہو گا مگر ابھی وہ لطف ہمارے نصیب میں نہیں لکھا گیا تھا۔
میرے ذہن میں جھیل کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ میں اپنی زندگی کی پہلی جھیل دیکھ رہا تھا اور یہ جھیل مہوڈنڈ میرے لئے پہلی محبت کی مانند تھی۔ پہلی محبت جس میں آپ کو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ یہ کیوں ہے؟ کیا ہے ؟ کیسا ہے؟ بس آپ اپنی محبت میں خوش ہوتےہیں۔ ایک الگ ہی دنیا میں ہوتے ہیں۔ میں بھی اس وقت ایک الگ ہی دنیا میں تھا۔ اپنی ” نیلی جھیل ” کے ساتھ تھا۔ جھیل بے زبان تھی اور میں زبان رکھتے ہوئے بھی چپ تھا۔ میں ایک ایسی کائنات میں تھا جو صرف میرے لئےتخلیق کی گئی تھی۔ کہتے ہیں کہ جھیلیں بھی عورتوں کی طرح ہوتی ہیں۔ آپ جانے انہیں کس روپ میں دیکھتے ہیں، کس رنگ میں نگاہ کرتےہیں۔ یہ صرف اور صرف آپ پر منحصر ہوتا ہے۔ میرے سامنے مہوڈنڈ اس وقت اپنی بہترین شکل میں موجود تھی۔ سورج کی پہلی کرنوں یا ڈوبتے ہوئے سورج کے ساتھ وہ کیسی لگتی تھی۔ مجھے اس بات سے کوئی غرض نہ تھی۔ مجھے اپنی کائنات میں رہنے کے لئے صرف چند گھنٹے دئیے گئے تھے اور میں ان لمحوں کو ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں مکمل طور پر اس کے عشق میں کھو جانا چاہتا تھا اور میں کھو گیا تھا۔
جھیلیں عام طور پر پہاڑوں میں گھری ہوتی ہیں۔ محفوظ اور پوشیدہ۔۔ اپنی ذات کی تنہائی میں گم۔ مگر مہوڈنڈ ایسی نہ تھی۔ وہ میری کیفیت سے واقف تھی۔ اس نے اپنے سارے راز مجھ پر کھول دئیے تھے۔ کوئی حجاب نہیں رکھا تھا۔ وہ میرے سامنے عیاں ہو گئی تھی۔ میں مہوڈنڈ کے سبز ٹہرے ہوئے پانیوں میں اترنا چاہتا تھا یا کم از کم اسے ایک بار چھونا چاہتا تھا۔ میں ان پانیوں کو محسوس کرنا چاہتا تھا۔ ہم سب جلدی سے کشتی میں بیٹھ گئے اور تب پہلی بار میں نے جھیل مہوڈنڈ کے پانیوں میں ہاتھ ڈالا تھا۔ اس نے منجمد کر دینے والی یخ بستگی میں میرا ہاتھ تھام لیا۔ میں اب اس کے اندر تھا۔ اس کے وجود کا ایک حصہ تھا۔ میری سردی اب ختم ہو چکی تھی اور اس کی جگہ ایک نرم آسودہ گرمی نے لے لی تھی۔ اب میں جھیل مہوڈنڈ کے پانیوں میں سانس لے رہا تھا۔
اس جھیل میں بلندیوں سے پانی آبشاروں سے آ رہا تھا۔ میں ان آبشاروں کی اونچائی تک پہنچنا چاہتا تھا۔ ان پہاڑوں سے اوپر بھی کچھ دیکھنا چاہتا تھا مگر اسی لمحے مجھے شفیق الرحمٰن کی ” نیلی جھیل ” کی کچھ سطریں یاد آئی تھیں۔ کہ ” خود فریبی کی نیلی جھیلیں اور دوسرے کنارے عمر بھر پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ہم اپنے آپ کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو چیز یہاں نہیں ہے وہ وہاں ہے۔
دوسرا کنارہ بس دور سے ہی اچھا لگتا ہے۔ ”
دوپہر کے دو بج رہے تھے اور جھیل پر گرم گرم پکوڑوں کی سوندھی سوندھی خوشبو ہمیں تنگ کر رہی تھی۔ ہم پکوڑوں والے کے پاس ہی بیٹھ گئے اور ساتھ ہی چائے کا آرڈر بھی کر دیا۔ جھیل کنارے ان پکوڑوں کا لطف اور گرما گرم چائے اور سامنے برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑ، سب کچھ ناقابل بیان حد تک دلفریب تھا۔ ہماری چارپائی کے پاس ہی ایک کرسی پر ذرا پکے سے رنگ کے ایک انکل بیٹھے تھے۔ وہ بھی اپنے دوستوں کے ہمراہ جھیل پر لاہور سے آئے تھے۔ ان کو دیکھ کر مجھے شدید ترین خوشگوار حیرت ہوئی کہ وہ اس عمر میں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ آئے تھے۔ وہ انکل جن کا یقیناً کچھ کچھ نام بھی ہو گا۔ لاہور میں گورنمنٹ سرونٹ تھے اور ان کے ساتھ آنے والے ان کے جونئیر کولیگز۔ ان کے ساتھ بڑی زبردست گپ شپ رہی۔
میں۔ ” سر آپ کی بیوی آپ کو تنگ نہیں کرتی کہ دوستوں کے ساتھ کیوں جا رہے ہیں؟ اس نے لڑائی نہیں کی آپ سے ؟ ”
وہ انکل جن کا کچھ نام بھی تھا، (مسکراتے ہوئے)۔ ” دو دن ہمارے گھر میں لڑائی رہی ہے اور ابھی بھی جب میں گھر سے نکل رہا تھا تو وہ مجھ سے ناراض تھی کہ آپ دوستوں کے ساتھ نکل جاتے ہیں۔ ہمیں کبھی نہیں لے کر جاتے۔ ”
محبوب سے بچھڑنے کا وقت اب قریب آ رہا تھا۔ مگر میں اداس بالکل بھی نہ تھا کہ جھیلوں کے ساتھ ابھی میری محبت شروع ہوئی تھی۔ ابھی مجھے عشق میں بہت آگے جانا تھا۔ مجھے ایک ہی دوارے پر ماتھا ٹیک کر نہیں بیٹھنا تھا۔ ہم سب نے خوشی خوشی ” نیلی جھیل ” کو الوداع کہا اور واپس کالام کی طرف چل پڑے۔
ہماری جیپ مسلسل سفر کی وجہ سے کافی گرم ہو چکی تھی۔ ہم دریائے سوات کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ ایک مقام پر جہاں سڑک ذرا چوڑی تھی، ایک سروس اسٹیشن بنا ہوا تھا۔ ڈرائیور نے جیپ وہیں کھڑی کر دی۔ وہاں ایک چھوٹا سا پکنک اسپاٹ بھی بنا ہوا تھا۔ اور ذرا پرے ہو کر دریا کنارے تین چار لکڑی کے بینچ بھی پڑے تھے۔ دریا چنگھاڑتا ہوا وہاں سے گزر رہا تھا۔ سامنے مگر دور ایک برف سے ڈھکا ہوا پہاڑ کھڑا تھا اور اس کے آگے درختوں سے گھرے ہوئے بہت سے چھوٹے چھوٹے سلیٹی پہاڑ کھڑے تھے۔ میں دریا کنارے پڑے پتھروں پر بیٹھ گیا۔ دریا کا شور حہاں آپ کو ڈراتا دھمکاتا ہے وہیں آپ پر ایک رومانس اور دکھ کے ملے جلے جذبات بھی طاری کرتا ہے۔ میں ایک پتھر پر بیٹھا مسلسل اس برف پوش پہاڑ کو دیکھ رہا تھا مگر میرے کان دریا کی چنگھاڑ پر اور پاؤں پانی کے اندر تھے۔ ایک عجیب سی موسیقی میرے کانوں میں میٹھا رس بھر رہی تھی۔ اچانک میرے دائیں جانب ایک صاحب نمودار ہوئے اور بولے۔ ” تُسی ایتھے وی آ گئے او۔ ” اور ہم دونوں بچوں کی طرح زور زور سے ہنسنے لگے۔ یہ وہی جھیل والے انکل تھے جن کا کوئی نام بھی تھا۔ اور ان کے بوٹ بالکل میرے بوٹوں جیسے تھے۔ واپسی پر ہمیں بہت دیر ہو چکی تھی ورنہ ہمارا ارادہ اوشو جنگل جانے کا بھی تھا۔ اوشو جنگل کا راستہ اوشو کے علاقے سے ہی نکلتا ہے۔ اوشو کے پل کے نیچے دریائے سوات چیختا ہوا گزرتا ہے اور اس چیخ میں اضافہ پل کے نیچے پڑٰی ہوئی ایک بڑی چٹان کر دیتی ہے۔ آپ جب بھی مہوڈنڈ جائیں تو واپسی ذرا جلدی کر لیں اور کوشش کر کے اوشو جنگل ضرور جائیں۔
ہمارے کالام واپس پہنچنے تک شام کی ہلکی ہلکی سرخی پھیل رہی تھی۔ سب لوگ ہی ٹھنڈے ہو چکے تھے۔ اس ٹھنڈ کو دور کرنے کے لئے دریا کنارے کھانے کے بعد بون فائر کا پلان تھا۔ جولائی کے مہینے میں آگ بہت سکون دے رہی تھی۔ دریا کنارے بیٹھ کر ذرا بھی اندازہ نہ ہو رہا تھا کہ ہم پنجاب کی کس قدر گرمی سے اٹھ کر آئے تھے۔ یہاں پھر میں نے اپنے صبح والے تجربے کو دوہرایا تھا مگر اس بار میری آنکھیں دہکتی ہوئی آگ پر تھیں اور کان دریا کی چنگھاڑ پر۔ یہ بھی ایک عجیب قسم کا تجربہ تھا۔ آپ جب بھی کسی ایسے علاقے میں جائیں جہاں پانی بہت تیز ہو۔ وہاں یہ تجربہ ضرور کر کے دیکھیں۔
اگلے روز ہمارے گروپ کی واپسی تھی مگر مجھے اور خذیفہ کو مینگورہ پہنچ کر گروپ کو خدا حافظ کہہ دینا تھا۔ مینگورہ پہنچ کر ہم ٹورسٹ سے سیاح ہو ہو گئے تھے۔
مینگورہ اورکالام دونوں ہی وادی سوات میں واقع ہیں مگر دونوں کےموسم میں بہت فرق ہے۔ مینگورہ اور سیدو شریف سے چند کلومیٹر کے فاصلے پرخوبصورت وادی مرغزار میں سفید محل واقع ہے۔ مینگورہ شہر سے آپ رکشے میں بیٹھ کر آسانی سے محل تک جا سکتے ہیں ۔یہ محل اس وقت کی ریاست سوات کے بانی میاں گل عبدالودود نے 1941ء میں تعمیر کروایا۔ محل کی تعمیر میں استعمال ہونے والے سفید ماربل کی وجہ سے اسے سفید محل کا نام دیا گیا۔ یہ ماربل خصوصی طور پر آگرہ سے لایا گیا تھا۔ یہ محل سطح سمندر سے تقریباً سات ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ والی سوات، ملکہ الزبتھ، فیلڈ مارشل ایوب خان اور دیگر کئی شخصیات کے قیام کی وجہ سے اس کی ایک تاریخی اہمیت ہے۔ محل میں دو بڑے کانفرنس ہال ہیں جو اس وقت کی کابینہ کے اجلاس کے لئے استعمال ہوتے تھے۔ بائیں جانب وزیروں اور مشیروں کی رہائش کے لئے چھ کمرے ایک بلاک میں تعمیر کئے گئےتھے۔ والی سوات کی دونوں بیویوں کے لئے تین تین کمرے اور تین کمرے خادموں کے لئے، ہر ایک کے لئے علیحدہ صحن جس میں سنگ مرمر کے بنچ بنوائے گئے تھے۔ لیکن اب یہاں والی سوات کی چند ایک تصویریں اور ایک دو بندوقوں کےسوا کچھ بھی نہیں۔ صوبائی حکومت اس کی قصور وار ہے کہ وہ والی سوات کی رہائش گاہ اور سامان کو قومی ورثہ کے طور پر محفوظ نہ کر سکی۔ رہائش گاہ پر اب ایک ہوٹل بن چکا ہے۔ اگر آپ باہر سے آ رہے ہیں تو برآمدے میں بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہیں۔
لیکن اب یہاں والی سوات کی چند ایک تصویریں اور ایک دو بندوقوں کےسوا کچھ بھی نہیں ۔
صوبائی حکومت اس کی قصور وار ہے کہ وہ والی سوات کی رہائش گاہ اور سامان کو قومی ورثہ کے طور پر محفوظ نہ کر سکی۔ رہائش گاہ پر اب ایک ہوٹل بن چکا ہے۔ اگر آپ باہر سے آ رہے ہیں تو برآمدے میں بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہیں
محل کے باہر مقامی دستکاری کی بہت سی دوکانیں موجود ہیں۔ جہاں آپ کو ملبوسات کےساتھ ساتھ پوری وادی کی ثقافت دیکھنے کو ملتی ہے۔ کیا شیشے کے پٹھانی کرتے اور کیا ہی مختلف ، ہر چیز ایک سے بڑھ کر ایک تھی۔ بہت کچھ خریدنےکو دل کر رہا تھا مگر کچھ بھی خریدنے کی جیب نے قطعاً اجازت نہ دی۔ اور ابھی ہمیں وادی سوات کے بلند ترین مقام مالم جبہ بھی جانا تھا لہذا شرافت اور عقل مندی اسی میں تھی کہ ہم چپ چاپ دوکانوں سے باہر نکل جائیں۔
یہاں سے فارغ ہو کر ہم نے مینگورہ کے لاری اڈے کی طرف دوڑ لگا دی جہاں ایک آدمی ” جبہ جبہ مالم جبہ ” چیخ رہا تھا۔ ہم گاڑی میں سوار ہو گئے اور قریباً 3 بجے ہماری گاڑی چل پڑی ۔ اب ہماری منزل وادی سوات کا سب سے اونچا مقام مالم جبہ تھا۔ اگر آپ ” سب سے اونچا ” سے ڈر رہے ہیں تو بالکل بھی مت ڈرئیے کیونکہ سڑک انتہائی کشادہ ہے ، ہاں خراب ضرور ہے لیکن محفوظ ہے۔ پہاڑ کے گرد بہت سے موڑ ایسے بھی ہیں جہاں آپ کو لگتا ہے۔ ” لوو جی۔ ہون تے گئے ” مگر آپ جاتے کہیں بھی نہیں۔ انھی میں ایک آسمانی موڑ بھی مشہور ہے، جہاں سڑک مڑ کر ایک دم نیچے چلی جاتی ہے۔
سطح سمندر سے تقریباً 8 ہزار 7 سو فٹ بلند مالم جبہ سردیوں میں برف کی چادر اوڑھ لیتا ہے۔ اور یہ پاکستان میں موجود واحد سکی انگ ریسورٹ ہے۔ مینگورہ سے ملم جبہ آپ صرف 150 روپے میں پہنچ سکتے ہیں اور وہاں ہوٹلوں کے کرائے بھی بہت مناسب ہیں ۔ 1000 روپے میں آپ آسانی سے ایک اچھا کمرہ حاصل کر سکتے ہیں ۔

نور جہاں کےسرمئی آنچل کی طرح رات تیزی سے پھیل رہی تھی۔ ہر طرف سرخی پھیل چکی تھی مگر مالم جبہ ابھی بہت دور تھا۔ جب ہم مالم جبہ پہنچے تو رات مکمل طور پر پھیل چکی تھی۔ ٹورسٹ نہ ہونے کے برابر تھے مگر ایک عجیب سا سکوں تھا اس جگہ پر۔ یہاں ہمارا قیام گرین ہوٹل میں تھا۔ جہاں ” آصف زرداری ” ہمارا منتظر تھا۔
اور یہ آصف زرداری ہر گز ایسا زرداری نہ تھا جو سرے محل کا مالک ہوتا۔
یہ ایک ایسا زرداری تھا جو قدرے غریب تھا اور اس ہوٹل کے مالک کا بھانجا تھا
اور یہ ایک سیاستدان بھی نہیں تھا۔
بلکہ یہ ایک ایسا طالب علم تھا جوبہت محنت کش تھا اور دسویں جماعت میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ گرمیوں میں پارٹ ٹائم کام بھی کرتا تھا۔
نہ جانے زرداری نام کا اثر تھا یا اس کی فطرت ہی ایسی تھی کہ وہ بہت جنسی طرز کی آنکھ مارتا تھا۔ اور ان دونوں آصف زرداریوں میں نام کے بعد یہ واحد قدر مشترک تھی۔
مرغزار میں ہاف کڑاہی کا رواج نہیں ہے لہذا ہمیں فل کڑاہی ہی لینا پڑی تھی۔ اب دو بندے کتنا کھا سکتے تھے، باقی جو بچا تھا وہ ہم نے پیک کروا لیا تھا۔ مرغزار سے جب مینگورہ شہر واپس پہنچے تھے تو گرمی اس قدر شدید تھی کہ ملم جبہ پہچنے تک اس کے خراب ہو جانے کی پیشن گوئی کر دی تھی مگر حیرت انگیز طور پر وہ کھانا ٹھیک رہا تھا۔ آصف زرداری کی والدہ محترمہ نے اس کڑاہی میں دال ماش ملا کر ایسا زبردست سالن بنا ریا تھا کہ پوچھئیے متت اور گھر کی روٹی ایسی لذیر کہ میں اقرار کرتا ہوں کہ میرے گھر سے بھی ایسی روٹی کوئی نہیں بنا سکتا۔ اس رات ہم نے سستا ترین مگر بہترین کھانا کھایا تھا۔ کھانے میں جو کسر رہ گئی تھی وہ چائے نے پوری کر دی تھی۔ آصف زرداری کو طالبان پر بہت غصہ تھا کہ ان کی وجہ سے اس کی تعلیم کا ایک سال ضائع ہو گیا۔ وادی سوات میں ہم جہاں جہاں بھی گئے، سب نے طالبان کے طوفان بدتمیزی کا رونا رویا اور ان کی ناانصافیوں کو بیان کیا۔ طالبان کی ہی وجہ سے کالام سے آگے بھی پاکستانی فوج کو چوکیاں قائم کرنا پڑیں۔ مالم جبہ میں بھی اب باقاعدہ طور پر فوج کا ایک یونٹ ہر وقت موجود ہوتا ہے۔ اگر آپ وادی سوات کی سیر کا ارادہ رکھتے ہیں تو اپنا شناختی کارڈ ہر وقت اپنے پاس رکھیں۔
ہم دونوں بے انتہا تھک چکے تھے۔ سر درد سے پھٹ رہا تھا مگر آصف زرداری کے گھر کا کھانا کھا کر سب تھکاوٹ غائب ہو گئی۔ روٹی اتنی خوبصورت اور مزے کی تھی کہ پوچھئے مت۔ذہنی طور پر ہم بالکل فریش تھے مگر جسمانی طور پر ہم اس قدر تھک چکے تھے کہ چائے پینے کے فوراً بعد بڑے بڑے خراٹےلینےلگے۔
صبح کے الارم کے ساتھ ایک بہترین صبح کا آغاز ہوا۔ ناشتے کے فوراً بعد ہم نے اوپر چلے جانا تھا۔ بس تھوڑا سا ٹریک تھا۔ ہم مقامی لوگوں کی باتوں میں آ گئے اور ایک مختصر مگر یک دم چڑھائی والا راستہ اختیار کر لیا جس نے میرے سانس اوردل دونوں کا بیڑا غرق کر دیا۔
دل کا کیا کریں صاحب۔۔۔۔۔
مگر اس طرف جنگل کے مناظر ایسے خوبصورت تھے کہ سانس اپنے آپ بحال ہونے لگتا تھا۔ مالم جبہ کی اونچائی پر کسی زمانے میں PTDC کی سفید عمارت بہت مشہور تھی۔ طالبان اس عمارت میں بھی گھس آئے تھے۔ اور پھر مجبوراً جیٹ طیاروں کی مدد سے اس عمارت کو تباہ کرنا پڑا۔ یہ واقعہ ایک مقامی پٹھان نے تقریباً روتے ہوئے سنایا تھا کہ کیسے طالبان نے سب کو یرغمال بنا رکھا تھا۔ عمارت پر بھی قبضہ کیا ہوا تھا اور پاکستانی فوج نے کس طرح ان کی مدد کی۔ اس عمارت کی جگہ اب ایک شاندار پانچ ستارہ زیر تعمیر ہے۔ ہماری بدقسمتی کہ مالم جبہ پر ماضی قریب میں لگنے والی چیئر لفٹ بند تھی۔ مقامی لوگوں سے ہونے والے کسی جھگڑے کے باعث مالک نے لفٹ بند کر دی تھی۔ اور اس جھگڑے کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ ایمانداری تھی۔ قصہ کچھ یوں تھا کہ گورنمنٹ نے لفٹ کے ٹکٹ کی قیمت 35 روپے مقرر کر رکھی تھی ۔ کچھ دن پہلے عید کی وجہ سے یہاں کافی رش تھا تو مینجر صاحب نے کچھ زیادہ ہی کمائی کرنے کے چکر میں ٹکٹ 100 روپے کا کر دیا۔ مقامی افراد کو جب اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے اس کی مزاحمت کی، جھگڑا بڑھا تو مقامی افراد نے دو ٹوک کہہ دیا کہ یہ لفٹ گورنمنٹ کے مقرر کردہ ٹکٹ پر ہی چلے گی۔ ورنہ ہم اسے چلنے نہیں دیں گے۔ مالک بھی نہ جانے کیسی عقل رکھتا تھا۔ اس اللہ کے بندے نے لفٹ ہی بند کر دی۔
اسی لفٹ نے ہمیں وادی سوات کے بلند ترین مقام پر لے کر جانا تھا۔ اور ہمارے سامنے بند پڑی وہ لفٹ ہمارا منہ چڑھا رہی تھی، بالکل ایسے ہی جیسے کمرہ امتحان میں موجود استاد چپ چاپ اپنے شاگردوں کو دیکھتا ہے۔ پہاڑی کہہ رہی تھی۔ ” نکمو ، ہمت کرو اور بالآخر ہم نے ہمت کر لی تھی۔ ایک پانی کی بوتل ہاتھ میں پکڑے ہم نے پہاڑی پر چڑھنا شروع کر دیا تھا۔ پہاڑی پر چڑھنے کی ہماری رفتار بہت کم تھی۔ (یہاں ہماری سے مراد صرف میری لیا جائے) میں راستے میں بار بار رک کر اپنا سانس درست کر رہا تھا۔ ذرا اوپر گئے تو نیچے دیکھا کہ سات آٹھ سال کے بچے اپنے ماں باپ کے ساتھ پہاڑی پر چڑھ رہے تھے۔ میں نے خذیفہ سے کہا ۔ ” وہ دیکھو۔ وہ بچے بھی اوپر آ رہے ہیں۔ ” کچھ دیر بعد جب میں پہاڑی پر پڑے ایک پتھر پر سستا رہا تھا اور خذیفہ تصویریں بنوانے میں مصروف تھا تو وہی بچے ہمارے پاس سے گذر گئے۔ اب کی بار میں نےخذیفہ سےکہا۔ ” وہ دیکھو بچے اوپر جا رہے ہیں۔ ” دائیں جانب ایک اور بلند پہاڑی تھی جس پر گھنا جنگل نظر آ رہا تھا۔ ہماری والی پہاڑی پر سورج آنکھ مچولی کھیل رہا تھا۔ کبھی مکھڑا دکھا رہا تھا اور کبھی چھپ رہا تھا۔ مگر اس دائیں جانب والی پہاڑی پر مسلسل کالے بادل تھے۔ عجیب جادوئی منظر تھا۔
ہم آہستہ آہستہ بلکہ کچھ زیادہ ہی آہستہ بلندی کی طرف بڑھ رہے تھے کہ اسی اثناء میں نیچے سے دو اور دوست اوپر آ گئے۔ وہ دونوں مردان سے موٹر سائیکل پر آئے تھے۔ کہتے ہیں کہ اگر آپ نے اصل پٹھان ثقافت دیکھنی ہو تو آپ کو مردان جانا چاہئے۔ اصل پٹھان آپ کو پشاور نہیں بلکہ مردان میں ملیں گے۔ مالم جبہ میں ہمیں کچھ ایسے پٹھان بھی ملے جنہیں اردو بالکل بھی نہیں آتی تھی۔ انھی مردان والے پٹھان بھائی نے بتایا کہ مالم جبہ میں اکثریت ” جٹ ” لوگوں کی ہے۔ مین نے ان پٹھان بھائی سے پوچھا کہ پٹھانوں میں بھی جٹ ہوتے ہیں کیا؟ تو وہ مسکراتے ہوئے بولے کہ یہان کی مقامی زبان میں ان پڑھ بندے کو جٹ کہا جاتا ہے
۔
۔ ہم نے ہمت نہ ہاری اور ٹھیک 57 منٹ کے بعد ہم وادی سوات کے بلند ترین مقام پر تھے۔ اس قدر تکلیف دہ ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ہم بے حد مایوس تھے کیونکہ بلند ترین مقام ہونے کے باوجود بھی مناظر کچھ خاص نہ تھے۔ اچانک خذیفہ کی نظر دائیں جانب ایک اور دوسری پہاڑی پر پڑی۔ میرا اس پر چڑھنے کا بالکل بھی ارادہ نہ تھا مگر لالچ میں آ کر چڑھتا گیا۔ اب یہاں بلندی پر آ کر جو قدرتی نظارے ہماری آنکھوں نے دیکھے۔ اس نے ہماری ساری تھکن اتار دی تھی اور سانس مکمل طور پر بحال کر دیا تھا۔ آس پاس اور کوئی بھی نہ تھا۔ مناظر اس وقت صرف اور صرف ہماری ہی قسمت میں لکھے گئے تھے۔ ان نظاروں پر مر مٹنے کو دل کرتا تھا۔ بس دل کرتا تھا کہ بندہ آنکھ بھی نہ جھپکائے۔ ہر طرف پہاڑ، پہاڑوں پر گھنے جنگل اور جنگلات کی نوکیں کالے سیاہ بادلوں میں ڈوبی ہوئیں۔ ایک عجیب سا طلسم تھا ان کالی گھٹاؤں میں۔ جنگلات کا سبزہ اور بادلوں کی سیاہی، دونوں مل کر کوئی تیسرا ہی رنگ بنا رہی تھیں اور یہ رنگ کم از کم اس کائنات کا تو بالکل نہ تھا۔ وہاں سب کچھ تھا مگر صرف دو چیزوں کی کمی تھی۔ عطار کے پرندوں کی اور تارڑ کی تتلیوں کی۔ عطار کے پرندوں میں سے صرف ایک مکمل سیاہ کوا ہی ہمیں مل سکا تھا۔ باقی شائد ہدہد کی سربراہی میں سیمرغ بادشاہ کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے
میں نےاس سفر کے لئے کچھ خاص تدابیر نہیں کی تھیں۔ مثلاً سن بلاک کا استعمال۔ جس کی وجہ سے مجھے واپسی پر سن برن ہو گیا تھا اور میرے چہرے سے اسکن اترنا شروع ہو گئی تھی۔ دکھ کی بات یہ تھی کہ اسکن اترنے پر بھی اندر سے میں ہی نکل رہا تھا۔ آپ بھی اگر ایسے علاقوں میں سفر کے لئے نکلیں تو سن بلاک کا استعمال ضرور کریں اور ٹوپی تو بالکل نہ بھولیں۔ سفر میں بار بار منہ دھونے سے مکمل پرہیز کریں کیونکہ کچھ دیر بعد پھر آپ کی پہلے والی حالت ہو جاتی ہے۔۔
ہم نے پچھلے چند دن اتنے خوبصورت طریقے سے گذارے تھے کہ ہمیں بچھڑنے کا ذرا بھی غم نہ ہو رہا تھا۔ پہاڑی سے اتر کر ہم نے اپنا سامان ہوٹل سے پکڑا اور مینگورہ کی طرف چل پڑے، جہاں سے ہمیں پنڈی جانا تھا۔ راولپنڈی سے ہماری راہوں نے جدا ہو جانا تھا۔
خذیفہ مانسہرہ اور میں نے سیالکوٹ کی گاڑی پر سوار ہو جانا تھا۔
” اچھا ہوا ہم نے مالم جبہ دیکھ لیا۔ ”
میرے منہ سے صرف اتنا ہی نکلا تھا۔۔
ختم شد
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں