ایک ہولناک خواب ۔۔۔ معاذ بن محمود

گاڑی استعمال شدہ ہی لینی تھی۔ نئی اب ممکن بھی کہاں تھی۔ ابا دنیا بھر میں بدمعاش مشہور تھے البتہ دل کے بہت شریف تھے۔ خوب ضد کر کے میں نے ابا کو گاڑی دلانے پر مجبور کر ہی لیا۔ ابو ہمیشہ کہتے “بیٹا تم سے نہ ہو پائے گا” مگر ممجھے بس گاڑی چاہئے تھی۔ یہ ایک الگ حقیقت ہے کہ ابا کو صرف میری صلاحیتوں پہ جبکہ مجھے اپنی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ اپنی نیت پر بھی شک محسوس ہوا کرتا۔ ابا کہتے رہے کہ پانچ سال مزید رک جاؤ تھوڑے اور بڑے ہوجاؤ تو گاڑی اچھی حالت میں دلواؤں گا مگر مجھے جلدی تھی۔ پانچ سال مزید انتظار کرتا تو کہیں وہ گاڑی جو مجھے پسند تھی کسی بڑے حادثے کا شکار ہی نہ ہوجاتی۔ 

میری ضد کے آگے ہار مانتے ہوئے ابا نے میری پسند کی گاڑی لینے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ گاڑی چونکہ کسی اور کے استعمال میں تھی لہذا حل تو نکالنا تھا۔ سب سے پہلے ابا نے اس کے جائز ڈرائیور سے ڈرائیونگ سیٹ چھین لی۔ اس کے بعد پرانے مالک کو گاڑی سے اٹھا کر باہر پھینکا اور پھر پر اس بیچارے پر سات آٹھ بڑے بڑے پرچے کروا کر اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے پھینک ڈالا۔ 

میں ہمیشہ ایک ہی دعا مانگتا: اے خدا میرے ابو سلامت رہیں!

اب میں اس گاڑی کا مالک بن چکا تھا۔ میں اسے جیسے چاہتا چلا سکتا تھا۔ میں اسے تیز بہت تیز چلانا چاہتا تھا۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ محلہ والے مجھے اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرتے۔ لوگوں نے بے پر کی اڑا رکھی ہے کہ مجھے ناک سے لکیریں کھینچنا پسند ہیں۔ چند ناہنجار ہر دوسرے دن میرے (جھوٹے) معاشقے یاد کرتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ میری ذاتی زندگی ہے۔ کسی کو کوئی حق نہیں کہ ان پر بات کرے۔ ویسے بھی آپ نے کون سی پاکباز زندگی گزاری ہے جو ابھی بھویں سکیڑ رہے ہیں؟ خیر۔۔ ابا ان سب باتوں سے باعلم ہونے کے باوجود بھی مجھے ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھانا چاہتے تھے۔ میں شرط لگانے کو تیار ہوں آپ میں سے کسی کو اوپر والے نے ایسا ابا نہیں دیا ہوگا۔ 

دل سے بس یہی دعا نکلتی: اے خدا میرے ابو سلامت رہیں!

نئی گاڑی ہاتھ آتے ہی میں نے سب سے پہلے اپنے سارے سنگی، یار دوست بٹھائے۔ میری سب پر متواتر نظر تھی کہ ان میں سے کون سا غریب آدمی گاڑی چھیننے کے چکر میں ہے۔ کراچی سے تعلق اور آموں سے محبت رکھنے والے ایک دوست کی نیت میں کھوٹ محسوس ہوا تو اسے گاڑی سے اتار پھینکا۔ اس کے بعد میں نے پڑوسی کو چھوٹی گاڑی کا طعنہ مارا۔ کافی شور و غل مچا مگر مجھے کیا۔ 

میرے پاس میرے ابا تھے۔ روز دعا کیا کرتا: اے خدا میرے ابو سلامت رہیں!

اس کے بعد میں نے گاڑی چلانا شروع کی۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ مجھے گاڑی تیز چلانی تھی۔ میرے پاس موقع تھا مگر ایک مسئلہ سامنے کھڑا تھا۔ مجھے راستہ بالکل بھی معلوم نہیں تھا۔ بس اندازے تھے جن کے تحت گاڑی دوڑائے جا رہا تھا۔ گاڑی کو نچلے گئیر میں خوب تیزی سے چلاتا تو وہ خوب آواز کرتی۔ لوگ دیکھتے اور مجھے چس آجاتی۔ میں ایسے ہی انجن کا زور دکھاتے کئی سڑکوں پر گیا مگر وہاں سے مجھے ہر بار یو ٹرن لینا پڑا۔ لوگ مذاق اڑاتے مگر میں موجیں مارنے میں مصروف تھا۔ 

ہر سانس پہ بس یہی امید رکھتا: اے خدا میرے ابو سلامت رہیں!

بدمعاش کا بیٹا تو میں تھا ہی، لہذا شروعات میں لوگ میری گاڑی دیکھ کر ایک جانب ہو جاتے اور اپنی راہ پکڑتے۔ بعد ازاں لوگوں نے مجھ پر توجہ دینا کم کر دی۔ میں نے ایسے لوگوں پہ اپنے جہلم اور سوات والے دوست چھوڑنے شروع کر دیے۔ یہ دونوں دوست دانت بھینچ بھینچ کر لوگوں کو گالیاں دیتے اور مجمع صاف کرتے۔ جہلم والا دوست مجھے گاڑی ملنے سے پہلے بھی میرا ہر کچرہ صاف رکھنے میں کوئی کثر نہ چھوڑتا تھا۔ سوات والا دوست سب کو یہی بتاتا کہ “جب میرا دوست کا گاڑی آجائے گا پہلا دن میرا دوست گاڑی کا سب قرضہ اتارے گا۔ دوسرے دن میرا دوست گاڑی پہ کام کرنے والوں کو الٹا لٹکائے گا-“

دنیا میرے سب دوستوں کا مذاق اڑاتی اور ہم سب بس یہی دعا کرتے: اے خدا میرے ابو سلامت رہیں!

اب تک کافی وقت گزر چکا تھا مگر میں راستہ نہیں سمجھ پایا تھا۔ ابا جی نے ہر مقام پر ساتھ دیا۔ میرے تمام یو ٹرن دیکھ کر بھی خاموش رہے۔ گاڑی چلاتے ہوئے ساتھ بیٹھے میرے نمونے نما دوستوں کو بھی برداشت کیا۔ کئی بار مجھے اور میرے دوستوں کو دفتر بلا کر چائے کے ساتھ سپر ڈیکو مکھن ٹافی بھی کھلائی جو میرے جہلم والے دوست کو بہت پسند تھیں۔ میرا سواتی دوست البتہ ٹافیوں کے نام پر غصے میں آجایا کرتا۔ غرضیکہ ابا حضور نے گاڑی چلانے میں ہر ممکن کوشش کی تاہم راستے پر غور کرنے کی محنت ہم کرکے نہ آئے تھے اور دوستوں میں سارے ہی لچے لفنگے تھے جو یہ محنت کرنے کے اہل نہ تھے۔

ابا کا چہرہ دیکھتے بس یہی دعا ہوتی: اے خدا میرے ابو سلامت رہیں!

ابا کہتے تھے بیٹا گاڑی تیری ہے میں کبھی ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا۔ لیکن ساتھ ہی مسکراتی شیطانی ہنسی چہرے پر لاتے آنکھوں میں چمک کے ساتھ میری گاڑی پر رال بھی ٹپکاتے۔ ایک انجان خوف میری ریڑھ کی ہڈی میں سرایت کر جاتا۔ ابا کے پاس غنڈے ہی غنڈے اور ہاتھ میں ڈنڈا ہوا کرتا تھا۔ مجھے اس ڈنڈے سے بہت خوف آتا۔ 

لیکن میں جانتا تھا کہ ابا کا غصہ میرے لیے نہیں۔ میں ہمیشہ ان کے بارے میں دعائیہ الفاظ نکالا کرتا۔ اے خدا میرے ابو سلامت رہیں!

پھر یوں ہوا ایک دن مجھے راستہ سمجھ آنا شروع ہوگیا۔ میرے نالائق دوست بھی اب میری مدد کرنے لگے تھے۔ سب کچھ قابو میں آنے والا تھا مگر ایک مسئلہ تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ جس جگہ سے مجھے راستہ سمجھ آتا وہاں ایک دیوار کھڑی کر دی جاتی۔ کافی غور کرنے کے بعد سمجھ آئی کہ یہ دیوار تو ابا جی کے غنڈے کھڑی کرواتے ہیں۔ 

غصے میں آکر ابا سے شکایت کی اور پوچھا یہ دیواریں کیوں؟ ان دیواروں کے ہوتے میں گاڑی ہموار کیسے چلا سکتا ہوں؟ ایک تو گاڑی پرانی اوپر سے سڑکوں پر کھڈے اور پھر یہ دیواریں؟ آخر ان دیواروں کے پیچھے چھپی ہموار راہیں کھول کیوں نہیں دیتے تاکہ میں اپنی اور اپنے دوستوں کی کارکردگی دنیا کے سامنے رکھوں۔  

شاید میں اوقات سے بڑھ کر بول گیا تھا۔ 

ابا نے ڈنڈا اٹھایا، اپنے غنڈوں کو آواز دی اور ہمیں چار چوٹ کی مار سے متعارف کروایا۔ خوب پٹائی کے بعد مجھ سے گاڑی چھینی، مجھے اپنی ولدیت اور تمام تر اثاثوں سے عاق فرمایا، کوکین کے استعمال سے لے کر خواتین کے ساتھ معاشقوں کے (جھوٹے) واقعات ہر دوسری گلی میں زبان عام کروائے اور آخر میں مجھے جیل کی سلاخوں کے پیچھے پھینک دیا گیا۔ جاتے جاتے ابا نے ایک نئے لے پالک بیٹے کا تعارف کروایا۔ یہ بیٹا بس ایک ہی بات کہے جاتا: “اے خدا میرے ابو سلامت رہیں! اے خدا میرے ابو سلامت رہیں! اے خدا میرے ابو سلامت رہیں!”

میں اپنے زخموں اور دردوں سمیت ہوش سے مدہوشی کی جانب رواں ہوں۔۔۔ کاش۔۔۔ کاش یہ ایک خواب ہو اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہو!

(منظر تبدیل ہوتا ہے)

وزیراعظم اپنے بستر سے اٹھتے ہیں۔ ان کے چہرے پہ خوف چھایا ہے۔ جسم پسینے سے شرابور ہے۔ سانسیں بکھری ہوئی ہیں۔ وہ ارد گرد دیکھتے ہیں مگر خاتون اوّل دکھائی نہیں دیتیں۔ 

Advertisements
julia rana solicitors

“بیگم۔۔۔ بیگم۔۔۔ بیگم خدا کے لیے یہاں آئیے۔۔۔ بیگم۔۔۔ میں نے وہی ڈراؤنہ خواب آج پھر دیکھا ہے۔ آپ کا پچھلا وظیفہ کارآمد ثابت نہیں ہوا۔ بہت خوفناک خواب تھا بیگم۔۔۔ آپ کو اللہ رسول کا واسطہ مجھے اثر کرنے والا وظیفہ دیجئے۔ جی؟ ہاں ہاں کیوں نہیں۔ آج ہی ننگے پیر پاک پتن چلتے ہیں۔ آپ بس وظیفہ لکھ دیجیے۔ سجدے میں کر لوں گا۔”

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply