کلام اللہ ۔۔عہد جدید میں۔۔۔۔ محمود چوہدری

 

عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ  کسی بچے کے سوچنے سمجھنے یا ہوش سنبھالنے کی عمراس وقت شروع ہوتی ہے جب وہ بولنا شروع کرتا ہے لیکن ایک تحقیق کے مطابق ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ والدین کو چاہیے کہ وہ نوزائدہ بچوں کو پیدائش کے پہلے چھ مہینے سے ہی کتابیں پڑھ کر سنائیں ۔ 2006ءمیں ہونے والی تحقیق کے مطابق ایسے بچے عملی زندگی میں دوسرے بچوں سے زیادہ ذہین ثابت ہوتے ہیں ۔ یورپ میں ایسی ورکشاپس ہوتی ہیں جن میں نوزائدہ بچوں کے والدین اپنے بچوں کو کو کہانیوں کی کتابیں پڑھ کر سناتے اور ان میں موجود تصویریں دکھاتے ہیں ۔حال ہی میں ایک نئی تحقیق کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ حاملہ عورت کو اپنے پیٹ میں پلنے والے بچے کو بھی کتابیں اونچی آواز میں پڑھ کر سنانی چاہیے ۔ اس قسم کی آواز یں بچوں کی ذہنی نشوونما اور سننے کی حس میں حیران کن طریقے سے مد دگار ثابت ہوتی ہیں ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حمل کے چوبیسیویں ہفتے سے بچوں کے سننے والی حس بیدا ر ہوجاتی ہے۔ ہماری ماﺅں نے یہ تحقیق تو نہیں پڑھی ہوئی تھی لیکن انہیں بچوں کو ذکر اللہ اور قرآن سنانے کی عادت جانے کس محقق نے ڈالی تھی ۔ ہماری دادیاں ہمیں الا اللہ کا ورد کرواتی تھیں اور اب سمجھ آیا کہ مسلمان بچے کی پیدائش پر ہی اس کے کانوں میں اذان کیوں دے دی جاتی ہے۔
ہندووں کی مذہبی کہانی مہا بھارت میں ابھیمانو کہتا ہے کہ جب وہ ماں کے پیٹ میں تھا تو اسکے والدنے اس کی ماں کو جنگوں میں ”چکر ویو“ توڑنے کا طریقہ سنایا تھا اوروہ ماں کے پیٹ میں یہ سن رہا تھا ۔ یمن کے ایک عالم شیخ عبد المجید الزندانی نے ایک انوکھا کام کیا ۔ انہوں نے اپنی سربراہی میں مسلم اسکالرز کا ایک گروپ بنایا، ان سے ایمبریولوجی و دیگرسائنسی علوم کے بارے میں قرآن وحدیث سے معلومات جمع کروائیں ،ان کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور اسے یونیورسٹی آف ٹورانٹو میں ایمبریالوجی کے ہیڈ اور عالمی شہرت یافتہ پروفیسر ڈاکٹر کیتھ مورکوبھیج دیا تاکہ اس تحقیق پر اس کی رائے لی جائے ۔ ڈاکٹر کیتھ مور نے جب قرآن کی آیات”’ اِ نَّا خَلَقنا الانسان من نّطفَةٍ اَمشَا جٍٍٍ نَّبتَلِیہِ فَجَعَلنٰہ سَمِیعًا بَصِیرً ا ہ۔ ہم نے انسان کوایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس فرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔۔۔“ جیسی آیات کا مطالعہ کیا تو وہ چونک کر رہ گیاکہ قرآن بیان کر رہا ہے کہ ماں کے پیٹ کے اندر بچہ سب سے پہلے سننے والی حس کا مالک بنتا ہے ۔ ساری تحقیق پڑھ کر اس نے تسلیم کرلیا کہ جنینیات کے متعلق قرآن میں چودہ سو سال پہلے بیان کئے گئے رموز آج کی جدید سائنس سے بالکل مطابقت رکھتے ہیں ۔

اہل علم کے مطابق قرآن کی ایک ہزار سے زیادہ آیات جدید سائنس کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں لیکن ہم مسلمانوں نے قرآن کے ساتھ بھی وہی کیا جو ہم دیگر کتب کے ساتھ کرتے ہیںہمارے معاشرے میں کتب بینی ایک معیوب فعل بن چکا ہے ۔ اس بات کا اندازہ آپ اس محاورے سے لگالیں کہ اگرہمیں کوئی بہت ہی مشکل کام دے دیا جائے تو ہم محاورة بولتے ہیں ”او یار تم نے توہمیں پڑھنے پا دیا ہے“ ۔ یعنی ہمارے ہاں پڑھنا ایک انتہائی جان جوکھن والاکام ہے ۔ ہم اپنے بچوں سے غیر نصابی کتابیں چھین لیتے ہیں اور اسے ڈانٹتے ہیں کہ صرف کورس کی کتابیں پڑھو ۔ ہماری ساری دوڑبچے کو امتحان میںزیادہ نمبر دلوانے پر محیط ہو تی ہے ۔ہمیں ایک اچھا انسان بنانے سے کوئی سرو کار نہیں ۔وہی بچہ جب فرعون نما آفیسر ، قصائی نماڈاکٹر ،متشدد ٹیچراور بدتہذیب پولیس آفیسربن کر سامنے آتا تو ہم حیران ہوتے ہیں۔ ہمارے طلبا ءکوقطار بنانے ، بس میں چڑھنے ، اشارے پر رکنے ، صفائی کا خیال رکھنے اورنرمی سے بات کرنے تک کی تمیز نہیں ہوتی کیوں ؟ کیونکہ انہوں نے صرف کورس کی کتابیں پڑھی ہیں دیگر کتب سے ان کا کوئی شغف نہیں ۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں پچاسی فیصد لوگوں نے کبھی لائبریری کا منہ تک نہیں دیکھا۔

قرآن مجید بھی ایک کتاب ہے اور یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جس کے بارے میں اس کے ماننے والوں نے ہی یہ قدغن لگا دی ہے کہ اسے طوطے کی طرح پڑھنا ہے اور ثواب کا بھڑولا بھرنا ہے۔ اس کے اندر جو آفاقی کلام ہے اس کو سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی ۔ اسے گھر میں سب سے اونچی جگہ پررکھنا ہے ۔ اس سے تعویز لکھنے۔ دم درود کرنے ، بیماریوں سے شفا ءحاصل کرنے اور چھاڑ پھونک والے سارے کام لئے جاتے ہیں لیکن اس کتاب کو سمجھا اور پڑھا نہیں جاتا حیران کن بات ہے کہ مذہبی طبقہ ہی اسکی تعلیم میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔رمضان آتے ہی تراویح میں زیادہ دفعہ قرآن سنانے اور روزہ داروں کا ثواب کے لئے اس مکمل کرنے کا مقابلہ تو ہو گا لیکن اسے سمجھنے کی دعوت نہیں دی جائے گی

میرے ایک دوست ہیں ۔صاحبزادہ کلیم اللہ۔وہ ہالینڈ میں قیام پذیر ہیں ۔کچھ سال پہلے انہوں نے مجھے بذریعہ ڈا ک ایک کتاب بھیجی جو ان کے والد گرامی پروفیسر ڈاکٹر حجتہ اللہ کی لکھی ہوئی تھی ۔کتاب کا عنوان تھا ”امت مسلمہ کے خلاف مقدمہ “ اتنے جدید انداز میںایک مذہبی کتاب آج تک میری نظر سے نہیں گزری۔ یہ کتاب آپ کو جکڑ لیتی ہے اورآپ کواسے ایک نشست میں ختم کرنا پڑتا ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ بالی ووڈ نے اپنی فلم ”او مائی گاڈ “کے لئے ایسی ہی کسی کتاب سے آئیڈیا چرایا ہو گا ۔اس کے بعد میں پروفیسر صاحب کا فین ہو گیا۔ صاحبزادہ کلیم اپنے والد صاحب سے بہت محبت کرتے ہیں ۔ وہ پروفیسر صاحب سے اکثر میری فون پربات کرواتے رہتے ہیں ۔پروفیسر حجتہ اللہ ایک سائنسدان اور محقق ہیں انہوں نے سائنسی مضامین پر مقالے لکھے ہیں وہ سعودی عرب اور لیبیا کی یونیورسٹیوں میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے ہیں ۔ان کا خاندان ایک روحانی سلسلے سے منسلک ہے ۔ میرے جیسے مادیت پرست جو اس زعم میں ہیں کہ روحانیت کا سلسلہ اب بند ہے اور اب اس پر ڈبہ پیروں کا قبضہ ہے انہیں جب پروفیسر ڈاکٹر ، سائنس دان حجتہ اللہ جیسے محقق سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے جن کی شخصیت نرمی، سادگی ،حلم اورعلم کا مرقع ہے تو ایک دفعہ پھر سے روحانیت پر یقین آنا شروع ہوجاتا ہے

پچھلے ہفتے صاحبزادہ کلیم اللہ نے مجھے پروفیسر حجتہ اللہ کی نئی تخلیق بھیجی ہے جس کا موضوع ہے ”کلام اللہ ۔عہد جدید میں “ یہ کتاب آج کے طالبعلم کے لئے ایک ریسرچ ورک ہے ۔ اس میں قرآن کی تنظیم و ترتیب سے لیکر آیات و سورہ تک کے ربط کلام جیسے موضوعات پر تفصیلی تحقیق پیش کی گئی ہے قرآن کے لئے اللہ نے عربی زبان کا انتخاب کیوں کیا ؟ اس کی تنظیم وترتیب اس طرح کیوں ہے ؟ مصحف عثمانی کیا ہے ؟اس کتاب میں قرآنی طرز استدلال سے سائنس کی پردہ کشائی تک ۔ قرآنی فلسفہ وفکر سے لیکرقرآن پر کفار کے پروپیگنڈوں اوراس کی تفسیر تک ہر موضوع کا تاریخی ، علمی ، اور تحقیقاتی جائزہ لیا گیا ہے ۔ یہ کتاب مدرسوں کے طلبا ءکے لئے تو سود مند ہے ہی لیکن سائنسی و جدید علوم کے متلاشیوں کے لئے بھی ایک چشمے کا کام دے گی

اس کتاب میں پروفیسرحجتہ اللہ صاحب بڑی ہی خوبصورتی سے ایک طرف تو قرآن کو طوطے کی طرح رٹے مارنے والوں کو پیار بھرا پیغام دیتے نظر آتے ہیں کہ ”یارو ایسا نہ کرو کہ قرآن کھولنے سے پہلے اپنا دماغ چھٹی پر بھیج دو ۔ دنیا میں ہر کتاب پڑھنے سے پہلے دماغ کو حاضر کیا جاتا ہے ۔ آخر قرآن پڑھنے سے پہلے دماغ پر پٹی باندھنا کیوں ضروری ہے ؟ “ لیکن دوسری جانب وہ اس دلیل کو بھی سختی سے رد کر تے ہیں کہ قرآن کو صرف ترجموںکی صورت میں ہی پڑھا جائے ان کا ماننا ہے کہ اس کی روحانی لذت خدا کی جانب سے اترے ہوئی زبان میں ہی حاصل ہو گا ۔ ان کا لکھنا ہے کہ ‘”قرآن مجید بیک وقت ہدایت بھی ہے اور نور بھی ۔ صرف سرسری معنو ںپر اکتفا کرکے نور الہی سے صرف نظر کرنا شخصی و ملی فتنوں کا ایسا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے جہاں سے ان گنت گمراہیاں راہ پا سکتی ہیں “اتنی تحقیقاتی کتاب لکھتے ہوئے مصنف نے کمال کی متوازن رائے دی ہے کہ قاری کوقرآن کا صرف ترجمہ پڑھنے کی بجائے اسے عربی زبان سیکھنے کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں ۔یعنی عقل وخر د کے روشندان بھی کھلے رکھے جائیں اور روحانی نور سے بھی پہلو تہی نہ کی جائے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

موجودہ حکومت اپنے دعووں میں قرآنی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنانے کا اعلان کرتی رہتی ہے میرا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ ایسی کسی بھی خواہش کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے ڈاکٹر حجتہ اللہ جیسے سائنسدانوں کی خدمات حاصل کریں جن کے پاس آج کے جدید قاری سے مخاطب ہونے کی آئیڈیاز بھی ہیں اور قرآ ن کی زبان سیکھنے کی فکر بھی موجود ہے ۔قرآن جیسی آفاقی کتاب کو نصاب کا حصہ بنانے کے لئے منبر و محراب پر بیٹھنے والے خطباءاور علماءکے ساتھ ساتھ ایسے لوگوں کی بھی ضرورت ہے جو اس کی عصری تقاضوں کے متنوع موضوعات پر بھی گرفت رکھتے ہوں ۔ ان ذہنی مشقوں سے جدید علوم کے طلباءفرقہ پرستی کی لعنت سے دور ہوں گے اور پوری دنیا کو قرآن کا مثبت پیغام پہنچائیں گے

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کلام اللہ ۔۔عہد جدید میں۔۔۔۔ محمود چوہدری

  1. ماشاء اللہ آپ کا یہ مضمون نئی نسل کے لیے بہت احسن انداز میں رہنمائی کرتا ہے اور ساتھ ساتھ ماں باپ کی ذمہ داریوں کا احساس بھی سمجھ میں آتا ھے اور بطور مسلمان تلاوت قرآن کو کس طرح اپنی زندگی کا وطیرہ بنانا ہے

Leave a Reply to محمد یعقوب نقشبندی Cancel reply