راہ فقر دیدار الٰہی۔۔۔۔سید واثق گردیزی

” فقر ” سے مراد وہ راستہ اپنانا ہے جس سے بندہ اور اللہ کے درمیان حجابات اٹھ جائیں اور بندہ اپنے خالق ومالک اللہ سے وصل اور دیدار الٰہی سے مستفید ھو جائے۔اس دنیا میں ھمارے دین اسلام کی اصل حقیقت اور کام یہی ھے کہ اللہ کسی نہ کسی طرح اللہ کے دیدار تک رسائی حاصل کرے اور یہی اصل راستہ ھے جو اللہ کا راستہ کہلاتا ھے اور اولیاءاکرام اور ھمارے سلف صالحین کا اللہ تک رسائی کا طریقہ ھمیشہ سے رھا ھے ۔اور جو اس راستے کی حقیقت سے خبردار ھو جاتے ھیں وہ ھمیشہ اسی راستے پر چلتے ھیں جس کی آخری منزل اللہ کا دیدار اور مجلس محمد صلّی اللہ علیہ وسلّم میں حاضری۔ھمارے علمائے ظواھر اس راستے یعنہ راہ فقر سے ناواقف ھیں اس لئے انہوں نے عوام الناس کو شریعت کی ظاھریت پرستی کی طرف الجھا کر رکھا ھوا ھے حالانکہ شریعت نے واضح طور پر اللہ تک رسائی حاصل کرنے کا حکم دیا ھوا ھے۔عوام علمائے ظواھر کے مطابق صرف شریعت کے ظاھر میں الجھ گئی ھے اور انہوں نے یہ سمجھ لیا ھے کہ صرف نماز روزہ اور دیگر ارکان دین تک ھی دین اسلام محدود ھے حالانکہ ارکان اسلام کی مدد سے ھی مسلمان اللہ کے راستے کی طلب کرسکتا ھے بشرطیکہ انہیں اس کا درست علم فراھم کیا جائے آج مسلمان “فقر” اور اسکی اصل حقیقت سے اتنا ھی ناواقف ھے جتنا کہ غیر مسلم اس سے نا آشنا ھیں۔ اور ان دونوں میں فرق کچھ بھی نہیں۔ رسول خدا محمد صلّی اللہ علیہ واله وسلّم اور دیگر جملہ انبیاءاکرام نے ھمیشہ لوگوں کو اللہ کے راستے کی دعوت دی ھے اللہ اکا راستہ اللہ کے دیدار کی طرف لے کر جاتا ھے۔
فرمایا رسول خدا محمد صلّی اللہ علیہ واله وسلّم نے” الفقر فخری والفقر منی” فقر میرا فخر ھے اور فقر مجھ سے ھے” اس قول سے یہ بات واضح ھو جاتی ھے کہ وہ عمل جس پر رسول خدا محمد صلّی اللہ علیہ واله وسلّم نے فخر کیا ھے وہ راہ فقر ھے جس پر چل کر بندہ اللہ سے واصل ھوکر دیدار الٰہی حاصل کر جاتا ھے ۔اور انسان کی پیدائش وتخلیق کا بنیادی مقصد بھی یہی ھے کہ وہ اس دنیا میں اللہ کی معرفت حاصل کرے ۔کیونکہ فرمان الٰہی ھے۔”میں ایک چھپا ھوا خزانہ تھا اور میں نے چاھا کہ میں پہچانا جاؤں تو میں اپنے پہچان کے لئے مخلوق کو پیدا کیا۔” اس لئے انسان جو اللہ کی سب سے اشرف مخلوق ھے اس پرخصوصی طور پر یہ فرض ھو جاتاھے کہ وہ اللہ کی معرفت حاصل کرے۔
اللہ کی معرفت کیسے حاصل ھو تو اسکے لئے رسول خدا محمد صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا۔
“من عرف نفسہ فقد عرفہ ربہ”۔
جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔
اپنے رب کو پہچاننے کے لئے قرآن نے بے شمار دلائل دے رکھے ھیں اور احادیث اور اولیائے اکرام نے اس پر اپنی کتب میں بے شمار دلائی اشارہ کنایہ میں دے رکھے ھیں۔ اور اللہ نے اپنے خاص بندوں کو اس کام کے لئے متعین کررکھا ھے ان کو تلاش کرو چاھے اپنے شہر میں یا ملک کے کسی بھی حصّے میں اس تک رسائی حاصل کرو تمھاری جان اس وقت تک عذاب میں رھے گی جب تک تم اللہ تک رسائی حاصل کرنے کاعلم وطریقہ حاصل نہیں کرلیتے۔” اور ھمارا کام تو تم تک صاف صاف پہچا دینا ھے.
” القرآن”

Facebook Comments

Syed Wasiq Gardezi
سکوں و اماں کی تلاش میں عذاب آگہی میں مبتلا ایک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply