وعدے اور دعوے کہاں گئے؟۔۔۔۔عبدالرؤف خٹک

انسان کے قول و فعل میں ہمیشہ سے تضاد رہا ہے ،یہ جب بھی بولے گا دعوے کے ساتھ بولے گا زبان سے نکلی ہوئی بات اس کے لئیے حرف آخر ہوگی ,اور یہ باور کرائے گا کہ میں نے جو کہا وہ حق سچ ہے اور میں اس کے معیار پر پورا اتروں گا ،
آپ اگر تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو اس میدان میں سب سے زیادہ زبان سے بڑے بڑے دعوے کرنے والے سیاستدان ہونگے ،جو عوامی رائے عامہ کو اپنی طرف متوجہ یا اپنی طرف موڑنے کے لئیے اسٹیج پر آکر بڑے بڑے دعوے کر جاتے ہیں ،
سیاست دانوں کی زبان سے نکلے ہوئے وہ دعوے جو ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں ، لیکن اقتدار کے ملتے ہی وہ دعوے وعدے سب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ،
اکثر اوقات یہ سیاستدان عوامی اجتماع میں ایسے وعدے بھی کرجاتے ہیں ،جسے اقتدار میں آنے کے بعد اپوزیشن اور عوام کی جانب سے توجہ دلائی جاتی ہے ،اگر حکومت اس وعدے کو نہیں نبھاتی تو عوام کی طرف سے شدید رد عمل آتا ہے ،
ایسے ہی کچھ وعدے اور دعوے پی ٹی آئی کے لیڈروں نے بھی کئیے تھے ، اگر یہ وعدے لگے لپٹے سابقہ سیاستدانوں کی طرح ہوتے تو عوام کو بھی قرار آجاتا ، لیکن یہاں خان صاحب نے عوام سے بڑے بڑے اجتماع میں جن تبدیلیوں کی بات کی تھی ، عوام اب وہ تبدیلی چاھتی ہے ،لیکن پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد دعوے سب اس کے برعکس ہیں ،
کہا گیا تھا پروٹوکول اک خواب اور سراب بن جائے گا ، اس خواب کو لوگوں نے کراچی کی شاہراہوں پر حقیقی آنکھوں سے دندناتے دیکھا۔
کہا تھا خان صاحب کوئی دورہ تین مہینے تک نہیں کریں گے ، خان صاحب مہینہ پورا بھی نہیں ہوپایا تھا کہ سعودی عرب کے دورے پر روانہ ہوگئے ، یہ کہہ کر عوام کے عظیم تر مفاد میں ،
کہا تھا ٹیکس نہیں لگائیں گے ،اس کے ثمرات ملنا شروع ہوگئے،کہا تھا آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے ،جانے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں ،
کہا تھا دہری شہریت کو ختم کریں گے ، اپنے ہی دوست زلفی بخاری جو دہری شہریت رکھتے ہیں ،انھیں اپنا مشیر بنادیا، اور اس پر مستزاد یہ کہ محترم نیب زدہ بھی ہے اور پاناما میں بھی نام ہے،یہ ہے وہ تبدیلی جس کا نعرہ عمران خان نے لگایا تھا،
ان تمام باتوں سے یہ بات ثابت ہوا  کہ خان صاحب کے بھی صرف نعرے ہی تھے جو کھوکھلے ہوئے ، لیکن غالب اکثریت کا خیال یہ ہے ابھی خان صاحب کو تھوڑا وقت دیں ،حالات بہتری کی طرف آئیں گے ،
خان صاحب کی نیک نیتی پر شک نہیں لیکن اس جماعت میں موجودہ اکثریت ان لوگوں کی ہے جو کبھی دوسری جماعتوں کا دم بھرتے تھے ،آج وہ لوگ خان صاحب کے دائیں بائیں بیٹھے ہیں ،کیا وہ خان صاحب کو نیک نیتی سے کام کرنے دینگے؟
لیکن یہ بات بڑی وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ خان صاحب اپنے فیصلوں میں خود مختار ہیں ،اور وہ اپنے فیصلوں میں جماعت کے کسی بھی شخص کو خاطر میں نہیں لاتے ،
نواز شریف ،مریم نواز اور صفدر کی رہائی کو بھی کسی بڑی ڈیل کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں ، اور سعودی عرب اس تمام معاملے میں ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں ، اگر ایسا کچھ ہے تو عوام کی طرف سے سخت رد عمل دیکھنے میں آئے گا ،اس کی وجہ عوام کا خان صاحب پر وہ اندھا اعتماد ہے ، جس کی بنیاد پر خان صاحب کو ووٹ پڑا ،خان صاحب نے اپنی ہر تقریر اور جلسے میں اس بات کو دہرایا کہ میں ان چوروں کو نہیں چھوڑوں گا جو اس ملک کا پیسہ باہر لیکر گئے ، میں ان سے پیسہ نکلوا کر رہونگا ،اب اگر ان کی رہائی کسی ڈیل کا نتیجہ قرار پاتی ہے تو پی ٹی آئی کے کارکنان کے لئیے یہ اک مایوس کن خبر ہوگی ،
اب لوگ دعوؤں پر اور تقریروں پر یقین نہیں رکھتے اب وہ نتیجہ مانگتے ہیں ، اب آپ کی باتوں کو حقیقت میں بدلتا دیکھنا چاہتے ہیں لوگ ، اور ویسے بھی یہ قوم ان روایتی سیاستدانوں سے کافی نالاں اور پریشان تھی ، وہ آپ کی شکل میں ایک لیڈر دیکھنا چاہتی تھی اور قوم نے آپ پر اندھا اعتماد کیا ، قوم کو اس سے بھی غرض نہیں، آپ کے ساتھ دائیں بائیں بیٹھے کون لوگ ہیں ؟ وہ آپ کی نیک نیتی پر اندھا اعتماد کرتی ہے ، اور آئندہ بھی کرتی رہے گی ،
لیکن قوم کے ساتھ کئیے وعدوں کو یکسر نظر انداز نہیں کر نا ، ورنہ قوم آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی ،

Facebook Comments

Khatak
مجھے لوگوں کو اپنی تعلیم سے متاثر نہیں کرنا بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے روشن افکار سے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔یہ ہے سب سے بڑی خدمت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply