• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • ہمارے نظامِ شمسی کے آٹھ سیارے(مریخ)۔۔۔۔ زاہد آرائیں /قسط 7

ہمارے نظامِ شمسی کے آٹھ سیارے(مریخ)۔۔۔۔ زاہد آرائیں /قسط 7

مریخ نظام شمسی میں سورج سے فاصلے کے لحاظ سے چوتھا اور عطارد کے بعد دوسرا سب سے چھوٹا سیارہ ہے۔ قدیم رومی مذہب میں مریخ کو جنگ کا خدا کے نام سے پکارا جاتا تھا کیونکہ وہ مریخ کی پرستش کرتے تھے۔ مریخ کی سرخ رنگت کی وجہ سے اسے سرخ سیارہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سرخ رنگ مریخ کی سطح پر آئرن آکسائڈ کی کثرت کی وجہ سے ہے۔ مریخ کی سرخی مائل رنگت اسے کھلی آنکھ سے نظر آنے والے دوسرے سماوی اجسام سے ممتاز کرتی ہے ۔ مریخ ایک زمین مماثل سیارہ ہے جو زمین کی نسبت ہلکا کرہ ہوائی رکھتا ہے۔ اس کے سطح پر زمین کے چاند کی طرح شہاب ثاقب یا کسی دوسرے سماوی جسم کے ٹکرانے سے بننے والے گڑھے موجود ہیں اور اس کی سطح پر زمین کی طرح وادیاں اور صحرا بھی موجود ہیں۔ زمین کی طرح اس کے قطبین پر بھی برف جمی رہتی ہے۔ مریخ کا محوری گردش کا دورانیہ اور موسموں کی گردش زمین جیسی ہے اور زمین کی طرح اس کا محور بھی جھکا ہوا ہے جو موسموں کے تغیر کا باعث بنتا ہے۔ مریخ پر ایک بہت بڑا آتش فشاں پہاڑ ہے جسے کوہ اولمپس مونس کہتے ہیں یہ پہاڑ نظام شمسی کے سیاروں پر اب تک دریافت ہونے والے پہاڑوں میں سے سب سے بڑا پہاڑ ہے اور اس پر ایک بہت بڑی وادی جسے [وادئی میرینرس] کہتے ہیں یہ وادی نظام شمسی کے سیاروں پر اب تک دریافت ہونے والی وادیوں میں سب سے بڑی وادی ہے۔ مریخ کے شمالی کرہ میں ایک ہموارطاس (جغرافیہ) ہے جسے بوریالس طاس کہتے ہیں یہ طاس مریخ کے 40 فی صد رقبے کو گھیرے ہوئے ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کسی سماوی جسم جیسے شھاب ثاقب کے ٹکرانے سے بنا ہے۔ مستقبل میں مریخ پر فلکی حیاتیات کے منصوبوں کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے جن میں مریخ 2020 اور ایکسو مارس رور منصوبہ شامل ہے۔ مریخ کی سطح پر کم کرہ ہوائی دباؤ کی وجہ سے مائع پانی کا وجود نہیں ہے البتہ اس کے دونوں قطبین پر برف جمی ہے۔ اس کے جنوبی قطب پر برف کی اتنی مقدار ہے کہ اگر یہ برف پگھل کر پانی میں تبدیل ہوجائے تو یہ 11 میٹر (36 فٹ) کی گہرائی تک پورے مریخ کی سطح کو گھیر لے گا۔ نومبر 2016 میں ناسا نے مریخ کے اتوپیا پلانیٹیا نامی علاقے میں بڑی مقدار میں زیر زمین برف دریافت کی اس کے پانی کے حجم کا اندازہ جھیل سپیریئر کے پانی کے برابر لگایا گیا ہے۔ مریخ کو زمین سے عام انسانی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے۔

طبیعی خصوصیات
مریخ کا قطر زمین کے قطر سے تقریباً آدھا ہے اور اس کا سطحی رقبہ زمیں کے کے خشک حصے کے کل رقبے سے تھوڑا سا کم ہے۔ مریخ زمین کی نسبت کم کثیف ہے اور یہ زمین کے حجم کا 15 فیصد، کیمیت کا 11 فی صد اور سطحی کشش ثقل کا 38 فی صد رکھتا ہے۔ اس کا سرخ نارنجی رنگ آئرن آکسائڈ کی وجہ سے ہے دوسرے عام سطحی رنگ جیسے سنہری بھورے اور سبزی مائل رنگ ان میں موجود معدنیات پر انحصار کر تے ہیں۔

اندرونی ساخت
زمین کی طرح مریخ کے اندرونی کثیف دھاتی مرکزہ کے اوپر کم کثیف دھاتی مرکزہ کا خول چڑھا ہوا ہے۔ اس کے اندرونی مرکزہ کا رداس 65 ± 1,794 کلو میٹر (1,115 ± 40 میل) ہے۔ جو بنیادی طور لوہے اور نکل سے بنا ہے اور اس میں 16 سے 17 فی صد گندھک کی آمیزش ہے۔ مریخ کے اس آئرن سلفائڈ مرکزہ کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ زمین کے مرکزہ میں پائے جانے والے ہلکے عناصر کی نسبت یہ دوگنے بھاری ہیں۔ مریخ کے مرکزہ کے گرد سلیکیٹ کا غلاف ہے جو سیارہ پر مختلف آتش فشانی اور ٹیکٹونک عمل سے بنا ہے لیکن یہ بے حس وحرکت نظر آتا ہے۔ سلیکون اور آکسیجن کے علاوہ مریخ کے قشر میں لوہا،میگنیشیم، الومینیم، کیلشیم اور پوٹاشیم کی کثیر مقدار پائی جاتی ہے۔ مریخ کے قشر کی اوسط موٹائی 50 کلومیٹر (32 میل) ہے جبکہ اس کی زیادہ سے زیادہ موٹائی 125 کلومیٹر (78 میل) ہے جبکہ قشر الارض کی موٹائی 40 کلومیٹر (25 میل) ہے۔

گردش اور مدار
مریخ کا سورج سے اوسط فاصلہ 230 ملین کلومیٹر (143,000,000 میل) ہے اور اس کی سورج کے گرد مداری گردش کا دورانیہ 687 (زمینی) دنوں کے برابر ہے۔ مریخ کا شمسی دن زمین کے شمسی دن سے تھوڑا زیادہ ہوتا ہے یعنی مریخ کا ایک شمسی دن 24 گھنٹے 39 منٹ اور 35.244 سیکنڈ کا ہوتا ہے جبکہ زمین کا ایک شمشی دن 23 گھنٹے 56 منٹ اور 4.0916 سیکنڈ کا ہوتا ہے۔ مریخ کا ایک شمشی سال زمین کے 1.8809 سال کے برابر ہے یعنی مریخ کا ایک سال زمین کے 1 سال 320 دن اور 18.2 گھنٹوں کے برابر ہے۔ مریخ کا اس کےمستوی مدار سے محوری جھکاؤ 25.19 ڈگری ہے۔ جو زمین کے محوری جھکاؤ جیسا ہے جس کی وجہ سے مریخ پر موسم زمین جیسے ہیں لیکن موسم زمین کی نسبت تقریباً دوگنے ہیں کیونکہ اس کا مداری دورانیہ طویل ہے۔ موجودہ دور میں مریخ کے شمالی قطب کا رخ ستاروں کے جھرمٹ ہنس (دجاجہ) کے ستارے دنب کی طرف ہے۔

خلائی جہازوں سے کی گئی تحقیقات
آج کل امریکہ اور یورپ کے بیشتر ممالک، مریخ کی سطح پر اُتر کر اس کی تحقیق کرنے والے خلائی جہاز بھیج رہیں ہے۔ 2004 میں امریکہ کے دو خلائی جہاز مریخ کی سطح پر اترے جبکہ ہندوستان کا ایک خلائی جہاز مریخ کے مدار میں داخل ہوا۔ جنہوں نے وہاں کی تاذہ ترین تصاویر اور اس کی مٹی کی مشاہدات زمین کو بھیجیں۔ اس تحقیق کا مقصد مریخ میں پانی اور زندگی کے آثار ڈھونڈنا ہے۔ کیونکہ اکثر سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مریخ پر کسی زمانے میں زندگی موجود تھی۔ اس تحقیق کے اب تک یہی نتائج نکلے ہیں کہ مریخ پر کسی زمانے میں پانی تو موجود تھا مگر اس میں زندگی نہ پیدا ہو سکی تھی۔ یورپ کے ممالک نے بھی اپنے تحقیقی خلائی جہاز مریخ پر بھیجے مگر وہ اس کی سطح پر اترنے سے پہلے ہی تباہ ہو گئے۔ امریکا میں اب اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ آیا مریخ میں کسی انسان کو بھیجا جائے یا نہیں؟! مارس روور جسے مریخ گاڑی اور مریخ نورد بھی کہا جاتا ہے، ایسی خودکار موٹر گاڑی ہے جو مریخ کی سطح پر پہنچ کر خود بخود چلنے کے قابل ہے۔ عام مشینوں کی نسبت یہ خودکار گاڑیاں زیادہ مفید ہوتی ہیں کہ یہ زیادہ رقبے کا مشاہدہ کر سکتی ہیں، انہیں مطلوبہ جگہوں تک بھیجا جا سکتا ہے، سرد موسم میں سورج کی روشنی تک پہنچ سکتی ہیں اور انہیں دور سے چلایا کر اس عمل میں بہتری بھی لائی جا سکتی ہے۔
مریخ پر کئی گاڑیاں بھیجی گئی ہیں:
مارس دوم جس پر پراپ ایم نامی گاڑی لدی تھی۔ یہ مہم اترنے کے عمل کے دوران ناکامی کا شکار ہوئی اور اس پر سوار گاڑی بھی تباہ ہو گئی۔
مارس سوم پر بھی مندرجہ بالا پراپ ایم گاڑی کی مماثل گاڑی لدی تھی۔ اس گاڑی نے نیچے اترنے کے بیس سیکنڈ بعد پیغام رسانی چھوڑ دی۔
سویورنر گاڑی، مارس پاتھ فائینڈر مہم کے ذریعے بھیجی گئی اور کامیابی سے 4 جولائی 1997ء کو مریخ کی سطح پر اتری۔ 27 ستمبر 1997ء کو مواصلاتی رابطہ منقطع ہو گیا۔
بیگل دوم، سیارے کی سطح کے نیچے والا آلہ 2003ء میں مارس ایکسپریس نامی مشن کی تباہی کی وجہ سے ضائع ہو گیا۔ اس پر لگے ہوئے سپرنگ کی مدد سے گاڑی کو ہر پانچ سیکنڈ میں ایک سینٹی میٹر جتنی حرکت دینا ممکن تھا جو حرکت کرتے ہوئے سطح میں سوراخ کر کے نیچے کے نمونے جمع کرتا۔
سپرٹ، مریخی تحقیقاتی گاڑی 10 جون 2003ء کو بھیجی گئی اور 4 جنوری 2004ء کو مریخ پر کامیابی سے اتری۔ اپنی مہم کے اصل دورانیے کے چھ سال بعد اس گاڑی نے کُل 7.73 کلومیٹر فاصلہ طے کیا اور پھر ریت میں پھنس گئی۔ 26 جنوری 2010 کو ناسا نے اسے ریت سے نکالنے کی کوشش میں اپنی ناکامی کا اعتراف کیا اور اعلان کیا کہ اب یہ گاڑی اسی جگہ پر رک کر ہی اپنا کام کرتی رہے گی۔ اس گاڑی سے موصول ہونے والے آخری مواصلاتی رابطے 22 مارچ 2010ء کو ختم ہو گئے۔ 25 جنوری 2011ء کو ناسا نے اس گاڑی سے رابطے کی کوششیں ختم کر دیں۔
اپرچونٹی گاڑی بھی مریخی تحقیقاتی گاڑی ہے جو 7 جولائی 2003ء کو بھیجی گئی اور 25 جنوری 2004ء کو مریخ کی سطح پر کامیابی سے اتر گئی۔ 20 مئی 2014ء کو اس گاڑی نے زمین کے علاوہ کسی بھی جگہ کسی گاڑی کے سب سے زیادہ طے کردہ فاصلے کا ریکارڈ توڑ دیا جو 40.25 کلومیٹر بنتا ہے۔
کیوراسٹی مریخی سائنسی لیبارٹری تھی جو ناسا نے 26 نومبر 2011ء کو بھیجی۔ یہ گاڑی ماؤنٹ شارپ کے پاس گیل نامی کھائی میں 6 اگست 2012ء کو اتری۔ تاحال یہ گاڑی فعال ہے۔

مریخ کے چاند
مریخ کے دو چاند ہیں جنہیں فوبوس اور دیموس کہتے ہیں یہ چاند چھوٹے اور بے ترتیب شکل کے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ بھی قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ چھوٹے سیارچے ہو سکتے ہیں جنہیں مریخ کی کشش ثقل نے پکڑ لیا ہو جس کی وجہ سے یہ مریخ کے گرد گھوم رہے ہیں۔
ہمارے نظامِ شمسی کے آٹھ سیارے

مریخ پر آبادکاری
مریخ ممکنہ انسانی آبادکاری کی سائنسی تحقیق کے لیے بہت زیادہ مرکز نگاہ رہا ہے۔ مریخ پر پہنچنا زہرہ کے بعد سب سے زیادہ کفایت شعار ہو گا۔ یہاں پہنچنے کے لیے زہرہ کے بعد فی کمیت اکائی کے لحاظ سے سب سے کم توانائی کی ضرورت ہو گی۔ تاہم کم توانائی کے استعمال کے باوجود عصر حاضر کے جدید کیمیائی ایندھن سے چلنے والا خلائی جہاز بھی یہاں تک کے سفر میں 6 تا 7 ماہ کا عرصہ لے گا۔

زمین سے نسبتی مشابہت
زمین اپنی “جڑواں بہن” زہرہ سے اجزائے ترکیبی، حجم اور سطحی ثقل میں کافی مشابہ ہے، تاہم مریخ کی زمین سے مشابہت، آباد کاری کے حوالے سے زیادہ موزوں ہے۔ مثلاً مریخی دن دورانیہ کے لحاظ سے زمین سے خاصا قریب ہے۔ مریخ پر ایک شمسی دن کا دورانیہ 24 گھنٹے 39 منٹ اور 35.244 سیکنڈ کا ہوتا ہے۔ مریخ کی سطح کا رقبہ زمین کا 28.4 فیصد ہے، زمین پر موجود خشکی کے رقبے سے تھوڑا کم (جو زمین کی سطح کا 29.2 فیصد ہے)۔ مریخ کا خشکی حصہ زمین کے مقابلے میں نصف قطر آدھا ہے جبکہ اس کی کمیت زمین سے دس گنا کم ہے۔مریخ اپنے محور پر 25.19° جھکا ہوا ہے، جیسا کہ زمین 23.44° پر جھکی ہوا ہے۔ نتیجتاً مریخ کے موسم کافی حد تک زمین کے مشابہ ہیں، اگرچہ ان کا دورانیہ لگ بھگ دو گنا ہوتا ہے کیونکہ مریخی برس زمینی 1.88 برس کے برابر ہوتا ہے۔ مریخی شمالی قطب فی الوقت دجاجہ کی طرف رخ کیے ہوئے ہے جبکہ زمین کے قطب شمالی کا رخ دب اکبر کی طرف ہے۔ ناسا کے مریخی پڑتال گر مدار گرد، ای ایس اے کے مریخی ایکسپریس اور ناسا کے فینکس خلائی گاڑی سے کیے گئے تازہ مشاہدات نے مریخ پر آبی برف کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔

زمین سے اختلافات اور مزید معلومات
اگرچہ کچھ سخت جان جاندار ایسے ہیں جو زمین پر شدید سخت حالات میں بھی باقی رہ سکتے ہیں، بشمول وہ نقلی حالات جو مریخی حالات جیسے ہوتے ہیں، پودے اور جانور عموماً مریخ کی سطح پر موجود عصر حاضر کے حالات میں زندہ نہیں رہ سکتے۔ مریخ کی سطح کی قوّت ثقل زمین کا 38 فیصد ہے۔ اگرچہ ثقل اصغر کی وجہ سے صحت سے متعلق کچھ مسائل جیسا کہ پٹھوں کی کمزوری اور ہڈیوں میں نمکیات کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے، ابھی یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ آیا مریخی قوت ثقل کا بھی انسانی صحت پر ایسا ہی اثر ہو گا یا نہیں۔ مریخی ثقلی حیاتی سیارچہ ایک ایسا منصوبہ ہے جو اس لیے بنایا جائے گا تاکہ انسانوں پر مریخ کی کم قوت ثقل کے اثرات کے بارے میں جان سکے۔ مریخ زمین کی نسبت بہت زیادہ سرد ہے، اس کا اوسط درجہ حرارت 186 اور 268 کیلون کے درمیان رہتا ہے۔ زمین پر انٹارکٹکا میں سب سے کم درج کیا جانے والا درجہ حرارت 180 کیلون ہے۔ مریخ پر پانی کچھ مختصر عرصے کے لیے پایا جا سکتا ہے تاہم ایسا بہت ہی مخصوص حالات کے زیر اثر ہوتا ہے۔ کیونکہ مریخ لگ بھگ سورج سے 52 فیصد زیادہ دور ہے، لہٰذا اس کی اوپری فضاء میں داخل ہونے والی شمسی توانائی فی اکائی رقبے کے لحاظ سے زمین کے بالائی کرۂ فضائی میں داخل ہونے والی شمسی توانائی کا صرف 43.3 فیصد ہی ہوتی ہے۔ بہرحال مہین کرۂ فضائی کی وجہ سے سطح پر زمین کے مقابلے زیادہ شمسی توانائی داخل ہوتی ہے۔مریخ پر زیادہ سے زیادہ شمسی درخشانی 590 W/m² ہے جبکہ زمین پر یہ درخشانی لگ بھگ 1000 W/m² کی ہوتی ہے۔ مزید براں یہ کہ مریخ پر سال بھر جاری رہنے والے دھول کے طوفان سورج کی روشنی کی ہفتوں بھر کے لیے سطح پر پہنچنے سے روک دیتے ہیں۔ مریخ کا مدار زمین کے مقابلے میں زیادہ بیضوی ہے جس کی وجہ سے درجہ حرارت اور شمسی دن یا شمسی مستقل میں کافی تغیر آتے رہتے ہیں۔ مقناطیسی میدان کی کمی، شمسی ذرّات اور کائناتی شعاعیں آسانی کے ساتھ مریخی سطح پر پہنچ جاتی ہیں۔ مریخ پر کرۂ فضائی کا دباؤ آرمسٹرانگ کی حد سے کہیں زیادہ کم ہے۔ یہ وہ حد ہے جس پر لوگ دباؤ کو برداشت کرنے والے لباس کے بغیر رہ سکتے ہیں۔ کیونکہ ارض سازی کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نہیں ہے، مریخ پر رہائشی جگہ بنانے کے لیے خلائی جہاز جیسے دباؤ والی چیزیں بنانی پڑیں گے جو اس قابل ہوں کہ 30 تا 100 kPaکے درمیان کا دباؤ جھیل سکیں۔
مریخی کرۂ فضائی 95فیصد کاربن ڈائی آکسائڈ،3 فیصد نائٹروجن، 1.6 فیصد ارگان اور دوسری گیسوں پر مشتمل ہے بشمول آکسیجن کے جو کل ملا کر 0.4 فیصد سے بھی کم ہے۔ مریخی ہوا کا جزوی دباؤ کاربن ڈائی آکسائڈ کا 0.71 kPa ہے جبکہ اس کے مقابلے پر زمین کا یہ دباؤ 0.031 kPa ہوتا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائڈ کا انسانوں میں ہونے والا زہریلا پن لگ بھگ 0.10 kPa پر ہوتا ہے۔ پودوں کے لیے بھی کاربن ڈائی آکسائڈ کی سطح 0.15 kPa سے زیادہ زہریلی ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مریخی ہوا پودوں اور جانداروں دونوں کے لیے کم دباؤ پر ایک جیسی ہی زہریلی ہوگی۔ مہین کرۂ فضائی سورج کی بالائے بنفشی روشنی کو چھان نہیں سکتی۔

انسانی سکونت کے لیے حالات
مریخ کی سطح پر موجود حالات درجہ حرارت اور کرۂ فضائی کے دباؤ کے لحاظ سے کسی بھی دوسرے سیارے یا چاند کی نسبت زمین سے زیادہ قریب ہیں۔ تاہم ان کی مشابہت زہرہ کے بادلوں کے اوپر حصّے میں موجود ماحول سے کم ہے۔ اس طرح سے نظام شمسی میں زہرہ کے بادلوں کے اوپری حصّے زمین کے ماحول سے سب سے زیادہ مشابہت رکھ سکتے ہیں۔ بہرحال ان تمام باتوں کے باوجود سطح انسانوں یا معلومہ حیات کی کسی بھی شکل کے لیے مہربان نہیں ہے اس کی وجہ وہاں ہوا کا کم دباؤ اور 0.1% فیصد سے کم آکسیجن رکھنے والا کرۂ فضائی ہے۔
2000ء میں بتایا گیا کہ کچھ کائی اور شائنو جرثومے نقلی مریخی حالات میں 34 دن گزارنے کے بعد نہ صرف زندہ باقی رہ گئے بلکہ انہوں نے ضیائی تالیف کے لیے حیرت انگیز مطابقت پذیری کی صلاحیت کو ظاہر کیا۔ یہ نقلی مریخی ماحول مارس سیمولیشن لیبارٹری میں بنایا گیا تھا جس کو جرمن ایرو اسپیس سینٹر چلاتا ہے۔کچھ سائنس دان سمجھتے ہیں کہ مریخ پر خود کفیل انسانی بستی بنانے کے لیے شائنو جرثومے بہت ہی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کی تجویز کے مطابق شائنو جرثومے براہ راست طور پر کچھ جگہوں پر جیسے خوراک، ایندھن اور آکسیجن کی پیداوار کے لیے نہ صرف استعمال کیے جا سکتے ہیں بلکہ ان کا بالواسطہ استعمال کر کے دوسرے جانداروں کی نشوونما ہوسکتی ہے اس طرح سے یہ مریخی وسائل پر انحصار کرتے ہوئے وسیع حیات کو سہارا دینے والے حیاتیاتی عمل کے لیے راستہ کھول دیتے ہیں۔
انسانوں نے زمین کے کچھ ایسے حصّوں کی چھان بین کی ہے جو ایک طرح سے مریخ کے ماحول سے تھوڑی مطابقت رکھتے ہیں۔ ناسا کے جہاں گردوں سے حاصل کردہ اعداد و شمار سے معلوم ہوا ہے کہ مریخ پر درجہ حرارت (نشیبی عرض البلد میں) انٹارکٹکا سے کافی مشابہت رکھتا ہے۔ انسان بردار غباروں نے جو فضائی دباؤ بلند ترین عرض البلد(1961ء میں 35 اور 2012ء میں 38 کلومیٹر) پر جھیلا ہے وہ مریخ کی سطح پر موجود دباؤ کے مشابہ ہے۔
مریخ پر انسانی بقاء کے لیے پیچیدہ حیات کو سہارا دینے والی تدبیروں کونہ صرف اختیار کرنا ہوگا بلکہ مصنوعی ماحول میں رہنا پڑے گا۔
مریخ کی ارض سازی کے امکان پر بھی کافی بحث ہو چکی ہے تاکہ مریخ کی سطح پر بغیر کسی سہارے کے مختلف نوع کی حیات بشمول انسان زندہ رہ سکیں۔ ان مباحثوں میں ان فنیات پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے جو مریخ کی ارض سازی کے لیے درکار ہوں گی۔

تابکاری
مریخ کے پاس زمین کی طرح کے مقناطیسی میدان موجود نہیں ہیں۔ مہین کرۂ فضائی کے ساتھ مقناطیسی میدانوں کی غیر موجودگی کی وجہ سے آئن زدہ اشعاع کی کافی مقدار سطح تک پہنچ جاتی ہے۔ مریخی مہم خلائی گاڑی کے اوپر ایک آلہ موجود تھا جس کا کام انسانوں کے لیے اشعاع کے خطرات کو ناپنا تھا۔ اس آلے (میری) نے مریخ سے اوپر رہ کر مدار میں تابکاری کی سطح کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے مقابلے میں 2.5 گنا زیادہ درج کیاجسکی اوسط لگ بھگ 22 ملی ریڈس فی دن ہے۔ اس طرح کی تابکاری کی سطح کا تین برس کا سامنا ناسا کے حفظان صحت کے اصولوں کی حد کو پار کر جائے گا۔مریخی سطح پر تابکاری کی سطح کچھ کم ہو سکتی ہے جس کا انحصار مختلف جگہوں کے عرض البلد اور مقامی مقناطیسی میدانوں پر ہو گا۔ زیر زمین(ممکنہ طور پر پہلے سے موجود لاوے کی سرنگوں میں) رہنے کے قابل گھر وہاں کے انسانی رہائشیوں کے تابکاری کا سامنا کرنے کے خطرے کو کافی حد تک کم کر دیں گے۔ کبھی کبھار شمسی پروٹون نکلنے کے واقعات میں تابکاری کا سامنے کرنے کا خطرہ کافی حد تک بڑھ جاتا ہے۔
خلائی تابکاری کے بارے میں ابھی کافی کچھ جاننا باقی ہے۔ 2006ء میں کی گئی تحقیق میں معلوم ہوا کہ کائناتی تابکاری سے نکلنے والے پروٹون ڈی این اے کو اس سے دو گنا زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں جتنا پہلے سمجھا جاتا تھا۔ اس طرح سے خلا نوردوں کو سرطان اور دوسری بیماریوں کا سامنا کرنے کا خطرہ اور بڑھ جاتا ہے۔ مریخی ماحول میں بلند تابکاری کے نتیجے میں “مریخ ایک ایسی جگہ نہیں ہے جہاں آسانی کے ساتھ موجودہ فنیات کے ساتھ بغیر وسائل میں سرمایہ کاری کیے بغیر جایا جا سکے۔” یہ بات اس یو ایس ہیومن اسپیس فلائٹ پلانز کمیٹی کے جائزے کی رپورٹ کے خلاصے میں کہی گئی ہے جس کو 2009ء میں شایع کیا گیا تھا۔ ناسا متبادل طریقوں اور فنیات(ٹیکنالوجیز) پر کام کر رہا ہے جیسا کہ پلازما سے بنی منحرف کرنے والی حفاظتی ڈھال، جس سے خلا نوردوں اور خلائی جہاز کو تابکاری سے بچایا جا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply