گوری ہمسائی میں نے دیسی کھانوں سے پھنسائی ۔۔۔فوزیہ قریشی

مجھے نئے فلیٹ میں شفٹ ہوئے کچھ ماہ ہی ہوئے تھے کہ   روایتی مشرقی عادت سے مجبور ہیلو ہائے سے ابتدا کی ۔۔پھر اُس کے آنے  جانے والے اوقات کا بھی بغور مشاہدہ کیا کیونکہ مجھے اس کے دل میں اترنا تھا۔ وہ بھی اپنے دیسی پکوان کِھلا کر ۔ہم ایشین اکثر اِس گمان میں رہتے ہیں کہ دل میں اُترنے کے لئے بہترین طریقہ خوش ذائقہ کھانے ہی ہیں ، جس کے ذریعے اگر آپ کسی مرد کے دل میں جگہ بنا سکتے ہیں تو کسی کے دل میں بھی بسیرا کر سکتے ہیں۔۔ ازل سے خوش فہم ہم مشرقی عجیب عجیب سی لاجک کسی نہ کسی دیسی ایجاد اور محاوروں میں نکال ہی لیتے ہیں۔۔۔ خیر واپس آتے ہیں اُس خوش فہمی پر جس کے پیشِِ نظر میں نے اپنی گوری ہمسائی کو دیسی کھانے بھیجنا شروع کئے تھے۔ اب تو وہ بھی عادی ہوگئی تھی۔ آتے جاتے جب اسے میرے فلیٹ کے پاس سے گزرتے خوشبو محسوس ہوتی تو بس اتنا کہتی واؤ نائس سمل wow nice smell یعنی بس تو سمجھ جا ۔۔۔۔۔
آج کا میرا حصہ کدھر ہے ؟
اگر نہیں بھجوایا میرے گھر تو میں آ گئی ہوں چل جلدی سے بھیج دے۔ کبھی کبھی کم ہوتے ہوئے بھی صرف اس نائس سملNice smell کی خاطر بھجوانا پڑتا۔ چند مہینوں میں ہی میں اس کے دل میں اُتر گئی تھی، اب تو اس کے جوان بچے بھی جب میرے فلیٹ کے قریب سے گزرتے تو کچن کی کھڑکی سے ہاتھ انگوٹھے سے اشارہ کر دیتے واؤ نائس سمل از کمنگ۔۔۔۔۔۔۔ مطلب ساڈا حصہ کتھے اے؟

عادت کیونکہ خود ڈالی تھی اس لئے برا منانا اب بنتا نہیں تھا۔ ویسے بھی ہمسایوں کے حقوق بچپن سے سُنتے آئے تھے بلکہ یہاں تک سُن رکھا تھا کہ شوربے کو زیادہ پانی ڈال کر بڑھا دو اور کوشش کرو تمہارے ہاتھ کے بنے کھانوں کی خوشبو سے تمہارا ہمسایہ محفوظ رہے۔
اسی طرح چند ماہ گزر گئے۔۔۔۔ ایک دن میری ہمسائی فلیٹ کے قریب سے گزری میں اپنی دوست کے انتظار میں دروازے پر کھڑی تھی۔۔۔۔ ۔کھانا مہمان دوست کے لئے خاص بنایا تھا اور اس دوست کو واپسی پر بھی ساتھ رات کے لئے دینا میری ایک اور عجیب عادت تھی۔وجہ یہ تھی کہ وہ بیچاری فل ٹائم جاب کرتی تھی اور ایسے میں جیسا کھانا وہ پورے ہفتے میں تیار کرتی ، اسے کھا کھا کر وہ تنگ آ چکی تھی، اسی لئے جب وہ میرے گھر آتی تو میں واپسی کے لئے بھی اسے کھانا ڈال کر دیتی تھی اور وہ بھی خوشی خوشی لے لیتی ۔۔اس دن بھی صرف اسی وجہ سے گوری آنٹی کی بات پر بس سمائل ہی دے سکی کیونکہ اس دن کھانا نہ دے سکتی تھی۔۔ اس دن پہلی بار اس نے فرمائش کی کہ اسے کھانا بنانا سکھا دُوں ۔میں نے حامی بھر لی اور اسے کہا جب وقت ہو بتا دے سکھا دوں گی۔
اس نے کہا ویک اینڈ ٹھیک ہے، مجھے چکن مصالحہ ود پیس اینڈ پوٹیٹو بنانا سیکھنے ہیں۔ جو تم کبھی کبھی بھیجتی ہو باقی پھر کبھی سیکھ لوں گی۔۔۔
میں نے کہا ٹھیک ہے آجانا ہفتے کو ۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وعدے کے مطابق وہ اپنے کام نپٹا کر آ گئی۔ میں اُسے کچن میں لے گئی اور پکانے کی تیاری شروع کردی پہلے ہانڈی میں کٹی پیاز ڈالی براؤن کرنے کے لئے۔۔۔۔۔۔
پیاز کی یہ حالت دیکھ کر وہ مُجھے دیکھنے لگی لیکن کچھ نہ بولی ۔۔پھر میں نے لہسن اور ادرک کی پیسٹ ڈالی بُھوننے کے لئے اب اس سے رہا نہ گیا تو بول پڑی تم نے پیاز کے سارے وٹامنز مار دیے ۔میں چُپ رہی۔ اب تم   لہسن کا بھی ریپ (بلاتکار ) کر رہی ہو۔۔۔۔
کیا تم نہیں جانتی ہو؟
ان سبزیوں میں وٹامنز پائے جاتے ہیں۔۔۔
خاص کر لہسن جو امراض قلب کے لئے مفید ہے اور اس میں پائے جانے والے سلفر مرکبات غذا کے ساتھ ہضم ہوکر جسم پر اپنے اہم اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اس میں کیلوریز کی مقدار بہت کم لیکن غذائیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ 28 گرام لہسن میں 23 فیصد مینگنیز، 17 فیصد وٹامن بی 6، 15 فیصد وٹامن سی، کچھ مقدار میں سیلینیئم، فائبر، فولاد، پروٹین اور دیگر مفید کیمیکلز ہوتے ہیں لیکن کیلوریز کی مقدار صرف 42 ہوتی ہے۔جو دل اور انسانی جسم کی قوت مدافعت کے لئے بہت ضروری ہیں ۔ تم سبزیوں کا ریپ کر رہی ہو۔
اس وقت مجھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے میں نے اپنے گھر میں ایک لیکچرار بلا لی ہے۔۔میں اس کی باتیں سنتی رہی کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ سِکھانے کی حامی جو بھر بیٹھی تھی یہ سوچے بغیر کہ یہ لوگ تو پُھونک پُھونک کر کھاتے ہیں اور اور ایج بڑھ جائے تو اور Conscious ہوجاتے ہیں۔۔
میں نے کہا آنٹی، ہم تو ایسے ہی بناتے ہیں سیکھنا ہے یا میں کام یہیں روک دوں ۔وہ کہنے لگیں، تم جاری رکھو۔۔۔ اب سیکھنا نہیں صرف دیکھنا ہے کہ تم لوگ سبزیوں کے ریپ (بلاتکار) میں کس حد تک جا سکتے ہو؟
میں دیسی کِچیچی وڈتے ہوئے منہ اُدھر کرکے خود کو اُس کے سامنے نارمل شو کرنے کی بھونڈی ایکٹنگ کئے جاری تھی۔۔۔۔
میں   دوبارہ اسی کے کہنے پر باقی کا مرحلہ جلد مکمل کرنے کی کوشش میں لگ گئی۔ اس کے بعد ٹماٹر ڈالے نمک، مرچ، ہلدی ، پسا ھوا دھنیا اور زیرہ ڈالا اور لگی مصالحے کو بُھوننے پھر اس میں ہلکا فرائی چکن ڈالا اور خوب بھونا اس کے بعد آلو اور مٹر کو بھی ڈال کر خوب بُھونا ۔۔وہ ٹماٹر، آلو اور مٹر کے ساتھ ہونے والے اتیا چار پر تھوڑی تھوڑی دیر بعد کچھ نہ کچھ کہہ دیتی۔۔۔۔۔۔۔یہ کہہ کر کہ جانتی ہو۔۔۔ آلو میں بڑی مقدار میں پوٹاشیم اور کیلشیم پایا جاتا ہے۔۔جو ہڈیوں کے لئے بہت ضروری ہے اور آلو بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھتا ہے۔۔ اسی طرح مٹر میں فیٹ یا چربی کم ہوتی ہے ۔ ایک کپ میں سو کیلریز ہوتی ہیں جب کہ ایک بڑی مقدار میں پروٹین، فائبر اور مائیکر نیوٹریئنٹس موجود ہوتے ہیں ۔ اس کے استعمال سے وزن نہ زیادہ بڑھتا ہے نہ کم ہوتا ہے بلکہ اس میں توازن برقرار رہتا ہے اور اسی طرح آلو میں موجود الفا لیپوئک ایسڈ دماغی صحت کو بہتر کرتا ہے۔۔۔۔ مجھے لگ رہا تھا میں انگلش کی کلاسز لے رہی ہوں جن میں وٹامنز اور ان کی افادیت پر دھواں دار لیکچر چل رہا ہے۔۔۔۔۔ وہ بولتی جارہی تھیں اور میں ڈھیٹ بن کر سنی ان سنی کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔
یہ سوچ کر کہ بچو اب تو منتیں بھی کرے گی۔۔۔۔
تب بھی نہیں سکھاؤں گی اور نہ ہی تجھے اب چکن کڑاہی، حلیم،بریانی،مٹن قورمہ ،پلاؤ بھیجوں گی پھر تجھے احساس ھوگا۔
اللہ اللہ کرکے میں نے کھانے کو بُھون بھان کر دَم لگایا ۔۔۔۔۔۔
پھر اس کو کہا، یہ ہے طریقہ جب ڈِش آؤٹ کروں گی تو اس سے پہلے پِسا ہوا گرم مصالحہ ، ہرا دھنیہ اور کٹی ہوئی ادرک ڈالوں گی۔۔۔۔
اس سارے عمل میں انگلش بول بول کر میری با چھیں تھک چکی تھیں اور اس کا تقریر بھرا لیکچر سُن کر میرے دماغ کی دہی ہو چکی تھی۔
لیکن!! اسے پل بھر کے لئے بھی اس بات کا احساس نہیں ہوا ۔۔۔۔۔
وہ تو بس اس طریقہ واردات پر لگاتار لیکچر دیے جارہی تھی۔ آخر میں تنگ آکر میں نے اسے کہا ٹھیک ہے۔ آج کے بعد میں تُمہیں اس طرح کے اتیا چاری کھانے نہیں بھیجوں گی۔
کیونکہ ! تمہاری صحت سے بڑھ کر میرے لئے کچھ نہیں ہے۔۔۔
اس نے کہا، تم بھی اس طرح کھانے بنانا چھوڑ دو بوائل یا گَرل grill کھاؤ۔۔۔۔ ہلکی سی نمک اور کالی مرچ والے
یہ مصالحے تمہارے لئے بھی نقصان دہ ہیں۔
میں نے کہا دیکھیں آنٹی، یہ تو ناممکن ہے کیونکہ ہم بچپن سے عادی ہیں۔ اس لئے ہم ان کے بغیر نہیں رہ سکتے۔۔ پھر میں نے اسے اپنے نانا اور پھپھو کی بات سنائی کہ ان کو ڈاکٹرز نے مرغن غذائیں کھانے سے منع کیا تھا لیکن نانا جی نے اپنی خُو نہ چھوڑی اور یہی فرماتے رہے کہ مرنا ہی ہے تو بندہ کھا پی کر مرے۔ یہی حال پھپھو کا تھا لال اور ہری مرچ سے پیار اس قدر تھا کہ آخری وقت میں بھی ہسپتال سے گھر آکر روٹی کے ساتھ چٹنی کھانے کی فرمائش کر ڈالی۔۔۔
اس لئے آنٹی جی، ہم یہ سب نہیں چھوڑ سکتے۔۔۔۔ جیسے آپ کے منہ کو مے نوشی لگ چکی ہے۔۔ آپ چاہ کر نہیں چھوڑ سکتیں۔۔۔۔ اسی طرح ہمارے منہ کو یہ مرچ مصالحے والی غذائیں لگ چکی ہیں۔۔۔۔۔۔ ۔ہم بھی نہیں چھوڑ سکتے۔ بس اتنی عنایت کر سکتی ھوں آپ کو نہیں بھیجوں گی۔
اس پر وہ فرمانے لگیں ، پھر مجھے عادت کیوں ڈالی ؟
اب تمہاری سزا ہے کہ اس کی خوشبو باہر نہ آئے۔ جب میں تمہارے فلیٹ کے آگے سے گزروں۔۔ ورنہ اس دن مجھے بھی بھیجنی پڑے گی۔۔۔۔۔
“ہائے او ربا کتھے پھنس گئی”
دل میں سوچا باتیں بھی کرنی ہیں لیکن کھانا بھی ضروری ہے۔۔۔۔
واہ رے گوری آنٹی تیرے تضاد۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply