عام صحافی کس کے ہاتھ پر اپنالہو تلاشے۔۔۔۔ اے وسیم خٹک

اگر کوئی آپ سے یہ پوچھے کہ دنیا میں کونسا پیشہ بدترین ہے تو شاید آپ سوچنا شروع کردیں اور بڑی مغز ماری کے بعد کوئی نتیجہ حاصل کرنے میں ناکام ہوجائیں تو ہم آپ کو بتاہی دیتے ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ اوربدقسمت شعبہ صحافت کا ہے اور صحافی سب سے بد قسمت پیشہ ور ہے جو ایک شاندار کام کرنے کے بعد ایک بیحد مشکل زندگی گذارتے ہیں ان کے پاس نوکری ہوتے ہوئے بھی کوئی اختیار نہیں ہوتا ‘ اس کے علاوہ انھیں اپنے پیشہ سے انصاف کرنے کیلئے کافی خطرہ مول لینا پڑتا ہے اس شعبے سے وابستہ کارکن غلام اور مفلوک الحال ہیں۔یہ کھلے عام قتل بھی ہوتے ہیں اور سسک سسک کر مربھی رہے ہوتے ہیں۔پاکستان میں صحافیوں کی بہت سی قسمیں ہیں مگر دو زیادہ تر مشہور ہیں جس میں ایک کو ہم خوشحال صحافیوں کے زمرے میں ڈالیں گے جبکہ ایک کو ہم عام صحافی کے زمرے میں ڈالیں گے عام صحافی انتہائی پڑھا لکھا ہوکر بھی سڑک پر کھڑے مزدور سے کم اجرت پر نوکری کرتا اور وہی جلسے جلوسوں میں مرتااور زخمی ہوتا ہے۔ ریاست بچانے اور قوم کو دہشت گردی کے خلاف کھڑا کرنے اور اس کاشعور اجاگر کرنے سمیت بہت سے مثبت اور جراتمندانہ کام ان عام صحا فیوں کی قدروقیمت میں اضافہ کرتے ہیں لیکن پاکستان میں عام صحافی بہت زیادہ غیر محفوظ ہوچکے ہیں،اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ آج اگرپاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت رہا ہے تو اس میں عام صحافیوں کا نمایاں کردار ہے۔کرپٹ مافیاؤں سے ٹکر لے کروہ جان سے بھی گذرجاتے ہیں گویا آج کے صحافی ملک کی فکری اور نظریاتی ہی نہیں جغرافیائی سرحدوں کے بھی امین بن چکے ہیں حالانکہ یہ کام پولیس اور عسکری ادارے سرانجام دیکربے پناہ مراعات لیتے اور آسودہ زندگی کا خواب پورا کرتے ہیں لیکن صحافی کو نہ سٹیٹ کی جانب سے اور نہ ہی سیٹھ مالک کی طرف سے جان ومال کا تحفظ ملتا ہے۔

ہمارے پالیسی ساز اور ملک کی سلامتی کے ادارے اس بات کا قطعاً خیال نہیں رکھ رہے کہ جب دنیا بدل رہی ہے تو ملکوں کو صرف عسکری بنیادوں پر محفوظ نہیں بنایا جاسکتا بلکہ سٹریٹجک وار اور نیشنل پروفائلز کے لئے میڈیا کو فرنٹ لائن پر کھڑا کرنا ضروری ہوگیاہے۔روز سنتےہیں کہ میڈیا سے کچھ صحافیوں کو بے دخل کردیا گیا ہے حالیہ بول چینل کے کچھ ویڈیوز سامنے آئیں ہیں جس میں اینکرز، رپورٹرز، پروڈیوسرز یہی رونا رو رہے تھے کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہورہی ہے اسی طرح ایکسپریس ٹریبیون وقتا فوقتا اپنے کارکنوں کو نوکریوں سے بے دخل کردیتا ہے ـ جس سے ہر وقت صحافی دوست پریشانی کا شکار ہوتے ہیں کہ کب انہیں کہا جائے کہ آپ بس کل سے نہ آئیں ـ تو پھر وہ کیا کریں گے ـ صحافی بے چارے آواز نہیں اُٹھاسکتے کیونکہ انکی آواز دبا دی جاتی ہے ـ ان کی فلاح کے لئے تنظیمیں تو کام کر رہی ہیں مگر ان کو اپنا ذاتی مفاد عزیز ہے وہ عام صحافی کو کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتے اس طرح ماضی میں بھی اداروں نے کیا ہے مگر کچھ بھی نہیں ہوا کوئی پوچھنے والا نہیں کہ آخر صحافی بھی انسان ہے ان کی بھی عزت ہے ان کی  عزت نفس بھی مجروح ہوسکتی  ہے ، وہ بھی خاندان کے واحد کمانے والے ہوسکتے ہیں مگر میڈیا مالکان کو اس کی پرواہ کب ہے، بول اربوں کھربوں میں کھیل رہا ہے ایکسپریس ٹریبیون جو کہ لاکھانی گروپ کا اخبار ہے جن کے سو سے زیادہ پراڈکٹ ہیں اور یہ اخبارات کا دھندہ صرف خانہ پری اور دھاک بٹھانے کے لئے شروع کیا گیا تھا ملٹی نیشنل کمپنیوں میں حصص  کے بڑے  کاروبار ان کا خاصہ ہے اردو اخبار سمیت ان کا ٹی وی چینل بھی کام کررہا ہے انگلش ٹی وی چینل کوبند کردیا گیا پھر نیویارک ٹائم کے ساتھ معاہدہ طے پایا گیا اور یہ نیویارک ٹائم کے پارٹنر بن گئے اور ایکسپریس ٹریبیون اخبار نکالا جس نے بہت کم وقت میں مقبولیت حاصل کی اور لوگ اسے ڈان اور نیوز کے ہم پلہ سمجھنے لگے مگر صحافی کش پالیسی سے ہمارے دوستوں میں ہر وقت بے چینی پھیل پیدا کرتا رہتا ہے اور یہ واقعی میں سوچنے والی بات ہے کہ ہمارے ان دوستوں کی  فلاح اور تحفظ کے لئے کوئی مستقل اقدام نظر نہیں آتا حالانکہ صحافیوں کے خون سے ملک اور مالک کی ترقی کے چراغ جل اٹھتے ہیں مگر خود انکے گھر کا دیا بجھا ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

صحافیوں کو مالی تحفظات فراہم کرنے کے لئے عدالتیں اور ویج بورڈ پائیدار کام کرسکتے ہیں لیکن معاملہ یہ ہے کہ ویج بورڈ ٹربیونل کی کارکردگی انتہائی سست اور کارکن دشمن ہوچکی ہے۔دوسری جانب عدالتوں میں انصاف کے لئے دھکے کھاتے کارکنوں کی حالت زار کو ملاحظہ کیا جاسکتاہے۔ کرپٹ عدالتی نظام ان کے کیسوں کو سالہا سال تک لٹکاتا ہے تو ظالم میڈیا مالکان عدالتی اور حکومتی رسوخ کو ان کے خلاف استعمال کرنے میں لحاظ نہیں کرتے۔ میڈیا مالکان ملک کے قانون اور انسانی حقوق کی کوئی پراوہ نہیں کرتے اور اس کا اندازہ ایک عام شخص کو بھی ہے۔میڈیا مالکان کی کارکن کشی کا ایک حل بڑا سادہ ہے۔پاکستان میں بہت سے میڈیا ہاوسز جنہیں سیاسی حکومتیں اشتہارات سے مالا مال کرتی ہیں اور وہ دنوں میں ارب پتی بن جاتے ہیں،انہیں لیبر لا کا پابند اور ویج بورڈ کے تقاضے پورے کرنے پر مجبور کیا جائے۔ یہ ماہانہ کروڑوں روپے کماتے ہیں لیکن یہ کئی کئی ماہ تک کارکنوں کو تنخواہ نہیں دیتے۔ عام طور پرزیادہ ترمیڈیا ہاؤسزکارکن صحافیوں کو بنیادی قانونی حقوق بھی نہیں دیتے۔ حکومت چاہے تو سرکاری اشتہارات کو کارکنوں کو دی جانے والی مکمل قانونی مراعات سے مشروط کرسکتی ہے اور ویج بورڈ میں قابل اور دیانتدار چیئرمین تعینات کردیا جائے تو صحافیوں کے گھروں کے چولہے جلنا شروع ہوجائیں گے اور یہ جو میڈیا مالکان کی کارکن کش پالیسی ہے اس کا بھی خاتمہ ہوجائے گا ـ پھر عام صحافی بھی بڑے صحافیوں کی طرح خوشحال ہوسکتا ہے مگر اتنا بھی نہیں جو کروڑوں میں کھیلتے ہیں اور کارخانوں کے مالک بنے ہیں ـ۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply