عمران خان،بنگالی افغانی مہاجرین اور گلگت بلتستان۔

وزیر اعظم پاکستان نے گزشتہ دنوں کراچی کا دورہ کیا۔ اپنے اُس دورے میں وزیر اعظم نے جہاں کراچی کے مسائل کے حل کیلئے جامع پروجیکٹ پر کام کرنے کا عندیہ دیا وہیں پاکستان میں مقیم بنگالیوں اور افغانیوں کو پاکستانی شہریت دینے کا بھی وعدہ کیا۔ اُنہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ بنگالی اور افغانی مہاجرین کو شناخت دینا انسانی حقوق کا مسئلہ ہے لہذا قوم کو فیصلہ کرنا پڑے گا۔ یقینا ًًً اُن کا یہ بیان اُنکی  سوچ کی عکاسی کرتا ہے جس پر منفی یا مثبت کچھ لکھا نہیں جاسکتا۔ اُنہوں نے پختونخواہ میں بھی گڈ طالبان کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کی تھی اور وزیر اعظم بننے کے بعد بھی اُنہوں اپنے کسی خطاب میں کہا تھا کہ ہم نے مدرسوں سے ڈاکٹر انجینئر اور سائنسدان پیدا کرنے ہیں۔لیکن اُن کا  اشارہ صرف ایک مسلک کی طرف تھا یا پاکستان میں موجود تمام مسالک کے مدرسوں کی بات تھی اس بارے میں مجھے ذاتی طور پر کچھ علم نہیں۔لیکن ہمیشہ کی طرح اس بار بھی میرا مقدمہ گلگت بلتستان ہی رہے گا ۔

افغانیوں اور بنگالیوں کو شہریت دینے کے بیان پر گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والےلوگوں نے ایک قیامت بھرپا کی ہوئی ہے فیس بُک اور ٹویٹر پر ہر دوسرا شخص اُنکے بیان کو گلگت بلتستان کی اکہترسالہ محرومیوں سے موازنہ کرکے نوحہ کناں نظر آتا ہے۔لیکن میرا ذاتی نظریہ مسئلہ کشمیر اور مملکت پاکستان کی  خارجہ پالیسی اور کشمیر کاز کے ساتھ اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کو سامنے رکھتے ہوئے بلکل مختلف ہے۔ گوکہ میں خود بھی عرصہ دار تک یہی سمجھتا رہا  کہ یہ کشمیر والے حقوق گلگت بلتستان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں  لیکن شعور نے جب ذہن پر دستک دی تو تاریخ کا مزید مطالعہ کرنے کا شوق پیدا ہوگیا۔ اور آج اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ گلگت بلتستان کے عوام کا شکوہ اور شناخت کا ماتم بے عمل مولوی کا دین کے اوپر درس دینے کی  مانند ہے۔

قارئین تاریخ بلور سے لیکر ریاست تبت تک اور رنجیت سنگھ کی حکمرانی سے لیکر ہری سنگھ اور کرنل مرزا حسن خان کی قیادت میں یکم نومبر 1947 کی آزادی اور 16 دن کی حکومت پھر ایف سی آر کے نفاذ سے لیکر معاہدہ کراچی تک کے مطالعے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ گلگت بلتستان کے شہری نہ افغانی ہیں نہ بنگالی۔بلکہ اس خطے کی اپنی الگ قانونی، جعرافیائی اور تاریخی شناخت اور پہچان ہے جسے آج تک یہاں کے عوام نے محسوس نہیں کیا اور حق لینا نہیں آیا۔یہ الگ بات ہے کہ گلگت بلتستان کی  تدریسی کتابوں میں اس خطے کی تاریخ پڑھانے کی بجائے دیگر اقوام اور علاقوں کی  تاریخ پڑھائی جاتی  ہے ۔لہذاگلگت بلتستان کے عوام کاخود کا بنگالی اور افغانی مہاجرین سے موازنہ کرکے شناخت کیلئے رونا پیٹنا اپنے ساتھ تاریخی مذاق ہے۔

یہ بات بھی تاریخی حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ کسی ملک یا شہر میں پناہ گزین نہیں جنہیں کسی ملک کی شہریت دی جائےبلکہ یہاں کے شہری مکمل طور پرشہریت تشخص اور پہچان کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس خطے میں قانونی شہریت معطل ہے ۔جبکہ اس خطے کی دیگر اکائیوں میں متنازعہ حیثیت کے مطابق قانون باشندہ ریاست جموں کشمیر 1927 کے تحت سٹیٹ سبجیکٹ رول نافذ ہیں مگر گلگت بلتستان میں اس قانون کی کھلے عام خلاف ورزی ہورہی ہے۔

یہاں سوال یہ ہے کہ نئے پاکستان کے دلیر وزیر اعظم کو اپنے کسی بھی خطاب میں گلگت بلتستان کا نام تک یاد کیوں نہیں آیا؟۔ یہاں تک کہ دیامر بھاشا ڈیم گلگت بلتستان میں بن رہا ہے لیکن رائلٹی پختونخوا کے کھاتے میں ڈالنے کیلئے بھاشا کا نام استعمال کیا جارہا ہے حالانکہ بھاشا سے پہلے ہی ڈیم کیلئے پانی کو روکا جارہا ہے۔ لیکن وزیر اعظم صاحب دیامر گلگت بلتستان کا نام تک لینا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔

قارئین کو اگر یاد ہے توافغانیوں اور بنگالیوں کو شہریت دینے کے اعلان کے بعد قومی اسمبلی میں بھی ہنگامہ کھڑا ہواگیا تھا۔ ممبران اسمبلی کو یہاں کہتے سُنا کہ افغانی کھاتے پاکستان سے ہیں اور اُن کا ملک وفاداری ہندوستان کے ساتھ نبھاتا ہے ،سوشل میڈیا پر بھی اس بیان کو لیکر قیامت برپا ہے۔مگر وزیر اعظم نے اپنے اعلان کا دفاع کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس حوالے سے بین الاقوامی قوانین ہیں آپ مہاجرین کو زبردستی اُن کے ملک نہیں بھیج سکتے لہذا اُن کیلئے کوئی پالیسی بنانا پڑے گی۔

بطور باشندہ گلگت بلتستان کے ہمارا بھی قانونی اور جمہوری حق ہے کہ جس وزیر اعظم کو ہم ووٹ نہیں کرسکتے لیکن وہ ہمارے بھی وزیراعظم ہیں گلگت بلتستان میں بھی اُنکی پارٹی ہے اور آج کل لوگ اُچھل اُچھل کر تحریک انصاف میں شامل ہونے کیلئے بےقرار نظر آتے ہیں ۔صحافیوں اور لوکل سیاست دانوں اور دیگر پارٹیوں کے کارکنوں کی ایک بڑی کھیپ پہلے ہی تحریک انصاف میں شامل ہوچُکی ہے۔

عرض یہ کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے بھی کچھ بین الاقوامی قوانین اور چارٹرڈ ہیں ۔لیکن ایسا لگتا  ہےکہ گلگت بلتستان کی  مقامی قیادت اس خطے کے مسائل اور اکہتر سالہ محرومیوں کے بارے میں عمران خان کو بریفنگ دینے میں ناکام ہوئی ہے ۔گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں قیادت کی سرد جنگ چل رہی ہے راجہ جلال مقپون کے بارے میں سُنا ہے کہ وہ صدر ہیں اور اُنہوں نے گزشتہ ماہ عمران خان کے  وزیراعظم بننے کی خوشی میں سکردو شہر کے اندر جوریلی نکالی تھی اُس میں وزیر اعلیٰ راجہ جلال کے بینرز بھی لگوائے لیکن بعد میں اُنکا نام گورنر کیلئے نامزد ہونے کی خبر ملی تو بھی وہ خوش ہوئے ،یعنی گلگت بلتستان میں لوگ اصولی نہیں بلکہ مفاداتی سیاست کرتے ہیں جس کیلئے ہمیشہ سادہ لوح عوام استعمال ہوتے ہیں اور نعرہ گلگت بلتستان کے حقوق کا لگتا ہے۔یہاں حقوق کا نعرہ لگا کر مذہبی جماعتوں نے بھی اقتدار کے مزے لوٹے اور پیپلزپارٹی نے بھی اور  تحریک انصاف آج کل اقتدار کے مزے انجوائے کر رہی ہے۔ مگر نعرہ وہی ہے ہم آپکو کو حقوق دلائیں گے۔کیا کریں ہمارے عوام کے اندر سادہ لوحی کی انتہا یہ ہے کہ کوئی بھی شخص اُٹھ کرآجائے یا کوئی پنجاب کا بابو یا وزیر یا صاحب انصاف گھومنے پھرنے سیاحت کی غرض سے یہاں آتے ہیں تو ہم حقوق کا رونا رو کر ثقافتی چوغہ اور( ہیق) یاک پیش کرتے ہیں۔

محترم قارئین عمران خان نئے پاکستان کا وزیر اعظم بننے کے بعد گلگت بلتستان کے بائیس لاکھ عوام جنہیں مردم شماری میں کم کرکے 15 لاکھ کے لگ بھگ بتایا ہے،کی نگاہیں اُنکی طرف تھیں  کہ گلگت بلتستان کو شاید نشان حیدر کا صلہ ملے، شمالی اور جنوبی وزیرستان سے لیکر سیاچن کے محاذ تک پاکستان کی حفاظت کیلئے سینہ سپر جوانوں کی دھرتی کی  سترسالہ محرومیوں کا بھی ذکر کرے ۔ لیکن یہاں کے عوام کا یہ ارمان بھی چکنا چور ہوگیا۔مگر اُن کے منشور میں گلگت بلتستان کی محرومیاں ختم کرنے کے حوالے سے قابل تعریف سفارشات موجود ہیں ۔دعا ہے کہ وہ گلگت بلتستان کے حوالے سے پارٹی منشور پر قائم رہیں ۔ تحریک انصاف کے منشور کی سب سے اہم شق جس کو لیکر گلگت بلتستان کی نئی نسل تحریک انصاف کی طرف مائل ہورہی ہے وہ کچھ یوں ہے۔گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کو خودمختاری دیکر گلگت بلتستان کے عوام کو بااختیار بنانا۔ یہ وہ شق ہے جو گلگت بلتستان کے عوام کا  ہمیشہ سے مطالبہ رہا ہے یہاں کے عوام کا مطالبہ ہی یہی ہے کہ چونکہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف اور اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کی روشنی میں گلگت بلتستان کے عوام کی دلی خواہش کے باوجود آئینی صوبہ ممکن نہیں لہذا مسئلہ کشمیر کو خراب کئے بغیرخطے کی متنازعہ حیثیت کے مطابق اقوام متحدہ کے چارٹرڈ پر عمل کرتے ہوئے مکمل داخلی خومختاری اور آئین ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لائیں۔ دوسری  اہم شق یہاں کے وسائل پر مقامی افراد کو حق ملکیت دینا اور سی پیک میں گلگت بلتستان کو ٹھوس مواقع فراہم کرنے کا وعدہ ہے۔

اس وقت مسلم لیگ نون کی حکومت میں ان تین اہم ایشوز  پر بات کرنے والوں کو غدار کہتے ہیں یہاں پُرامن سیاسی جدوجہد کرنے والوں پر فورتھ شیڈول لگایا جاتا ہے ایکشن پلان کا گلگت بلتستان میں ناجائز استعمال ہورہا ہے اس حوالے سے گزشتہ برس ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان بھی اپنے خدشات کا اظہار کرچُکے ہیں۔نون لیگ کا ایک تخفہ یہ بھی ہے کہ اُنہوں نے گلگت بلتستان آرڈر 2018 جاری کیا تو معلوم ہوا کہ یہ حقوق نہیں بلکہ گلگت بلتستان کیلئے کالونیکل نظام کا ایک حکم نامہ ہے جس کے تحت گلگت بلتستان کے عوام اپنے ہی گھر میں قید کیے جائیں گے اوریہاں ایک شاہی نظام رائج ہوگا ۔ خوشی اس بات پر بھی ہے کہ مسلم لیگ نون نے جن افراد کو سیاسی جدوجہد کرنے والوں پر غداری جیسے الزامات لگا کر پابند سلاسل کیا تھا اب اُنکی ضمانت پر رہائی شروع ہوگئی ہے جو کہ ایک بہترین اقدام ہے۔ کیونکہ لوگوں کو قید کرکے خاموش کرنے کا فارمولہ دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ انقلاب کی شکل میں درج ہت۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہاں یہ بات بتانا بہت ضروری ہے گلگت بلتستان کے عوام کل بھی پاکستان سے محبت کرنے والے تھے آج بھی ہیں اور آنے والی نسلیں بھی پاکستان سے محبت کرنے والی ہوں گی۔لیکن اس ملک کے حکمرانوں نے قدرتی وسائل اور آبی ذخائر سے مالا مال خطے کو سیاسی طور پر ایمپاور کرنے کے بجائے مقامی سطح  کے جھوٹ کے محلات بنابنا کر اب نئی نسل میں احساس محرومی ایک لاوے کی طرح پک رہا ہے جسے ہم سوشل میڈیا پر  صبح شام دیکھتے ہیں ۔نئی نسل تمام تر الزامات اور پکڑے جانے کے خوف، فورتھ شیڈول کی تلوار کی موجودگی کے باوجود سوال اُٹھا رہے ہیں کہ ہماری قومی شناخت آخر کب تک معطل رہے گی؟ ہمار ا قصور کیا ہے ہمیں کس بات کی سزا دی جارہی ہے۔ لہذا بنگالیوں اور افغان مہاجرین سے پہلے دفاعی،جعرافیائی،اور سیاحتی اور سب بڑھ کر سی پیک کا گیٹ وے گلگت بلتستان کی اکہترسالہ محرومیوں کو ختم کرنے کیلئے پارٹی منشور پر جلد از جلد عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply