مین سٹریم میڈیا، سوشل میڈیا اور گٹر

چند دن پہلے مین سٹریم میڈیا ٹائیکون اور جنگ گروپ کے کرتا دھرتا میر شکیل الرحمن نے غالباً عدالت میں سوشل میڈیا کے لیے “گٹر میڈیا” کی اصطلاح استعمال کی۔ سوشل میڈیا میں اس بیان کا شدید ردعمل آیا اور کم و بیش تمام سوشل میڈیا گروپس اور پیجز پہ اس کی مذمت کی گئی۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سوشل میڈیا نے مین سٹریم میڈیا کی منافقت سامنے لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کی حد تک جو آزادی مشرف سرکار نے پرائیویٹ چینلز کو عطا فرمائی، اس کا مثبت کردار ججز بحالی مہم کے فوراً بعد ہائی جیک ہونا شروع ہوچکا تھا۔ جیو نیوز جس کا کردار تجربے اور آزادی کی بنیاد پر کہیں زیادہ میچور ہونا چاہیے تھا، نے باقاعدہ “نواز” نواز پالیسی اپنائی اور پیپلز پارٹی مخالف بیانیے کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔ زرداری حکومت کے آخری دنوں میں تحریک انصاف کا بول بالا ہونا شروع ہوا اور یہاں سے میڈیا ہاؤسز کی باقاعدہ جنگ شروع ہوئی۔ اے آر وائے اور جیو نیوز تب سے آج تک سینگ پھنسانے بیٹھے ہیں جس کا ردعمل میڈیا ہاؤسز سے عوام کے بدظن ہونے کی صورت میں سامنے آیا۔ یوں ہماری عوام جس جیو نیوز کی بندش پہ سپہ سالار اعظم مشرف بہادر پر تبرا فرماتی تھی، اسی جیو نیوز کے خلاف آج باقاعدہ “بنٹی” ہوئی ہے۔ اے آر وائے جسے کبھی زرداری کا حلیف سمجھا جاتا تھا، آج نواز مخالفت میں کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔

یہاں قصور صرف میڈیا ہاؤسز کا ہوتا تو یہ چینلز بہت جلد اپنے ہی وزن سے منہدم ہو چکے ہوتے۔ مسئلہ ہماری عوامی منافقت اور بغض کا بھی ہے۔ عامر لیاقت جیسے دورِ حاضر کے ابلیس کو سب جانتے ہیں۔ آپ شرطیہ دس بندوں سے اس کے بارے میں رائے لے کر دیکھ لیں، کم از کم نو کی زبان پہ عامر کے لیے گالیاں ہوں گی، منافقت کے الزام ہوں گے لیکن یہ دس اگر نواز مخالف ہیں تو اسی عامر لیاقت پہ لعنت بھیجنے کے بعد اس کی شعلہ بیانی کے معترف بھی ہوں گے۔ میڈیا کے لیے “دجالی میڈیا “کی اصطلاح عام ہے لیکن پھر بھی ہماری رائے جیو یا اے آر وائے دیکھ کر ہی استوار ہوتی ہے۔

یہ موبلٹی کا دور ہے جہاں معلومات ہمارے ہاتھوں میں بذریعہ موبائل دستیاب ہے۔ امریکی نسل پرستی کے لیے میرے پاس معلومات کے کئی ذرائع ہیں جن میں معتبر ترین میرا سگا بھائی ہے جو امریکہ میں مقیم ہے۔ کیا مجھے میڈیا کا سرٹیفکیٹ چاہیے یہ جاننے کے لیے کہ آیا امریکہ میں نسل پرستی کی حقیقت کیا ہے، جبکہ میرا اپنا بھائی مجھے یہ معلومات دے سکتا ہے؟ کیا مجھے چوہڑ چوک راولپنڈی میں بجلی و پانی کے مسائل سے جیو نیوز بہتر آگاہ کر سکتا ہے جبکہ میرا مرشد مشتاق وہیں اپنے خاندان سمیت رہتا ہے؟ یا میرے اندر کا بغض مجھے مجبور کرتا ہے کہ میں اپنے ذاتی مشاہدے یا اپنے دوست یاروں کے مشاہدات کو بائی پاس کر کے جیو یا اے آر وائے پر چل رہے تبصرے سن کر اپنی رائے قائم کروں؟

پس مجھے یہ کہنے دیجئے کہ میڈیا کو “گٹر” کرنے کا عمل مین سٹریم میڈیا نے خود ہی ایک فریق کو “گٹر” اور دوسرے کو “گڑ” بنا کر پیش کرتے ہوئے شروع کیا۔ البتہ یہاں تشویش کی بات کچھ اور ہے۔ سنجیدہ ترین مسئلہ سوشل میڈیا میں انجیکٹ ہونے والی ان کمرشل کمپینز کا ہے جن کے پیچھے سیاسی و مذہبی جماعتوں کا سرمایہ مستعمل ہے۔ سوشل میڈیا دنیا کو اپنی جانب کھینچتا رہا جب تک لوگوں کا اصل اس کا مآخذ رہا۔ آج حالات یہ ہیں کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں سے لے کر سیاسی و مذہبی جماعتوں اور الحاد کی نمائندگی کرنے والے تمام ہی دھڑے اپنی دھڑے بازی کے لیے سوشل میڈیا کا بےدریغ استعمال کر رہے ہیں۔ بھینسے اور موچی، بوٹوں کے خلاف، بوٹ پارلیمان کے خلاف اور پارلیمان عدلیہ کے خلاف ایک سرد جنگ میں مصروف ہیں۔ یہاں ہتھیار صرف ایک ہے اور وہ ہے” سوشل میڈیا”۔

اس قسم کی باقاعدہ کمپینز کا فائدہ تو شاید صرف فریقین کا ہو البتہ بحیثیت قوم ہم نقصان اور صرف نقصان سے دوچار ہیں۔ آپ اس حقیقت سے اندازہ لگائیے کہ ذاتی طور پر اب تک تین سے چار کزن، نصف درجن دوست اور اتنے ہی کولیگ میری سیاسی وابستگی کو بنیاد بنا کر قطع تعلقی کا اظہار فرما چکے ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ ہم ہندوستان سے میچ کے دوران بھی اپنے منتخب وزیراعظم جو کہ عالمی سطح پر ریاست کا نمائندہ ہے، کے کپڑے اتارنے میں ایک لذت محسوس کرتے ہیں۔ ہم عالمی سطح پر جمائمہ کے گھر کے آگے مظاہرے کر کے اپنی اصلیت دنیا کے سامنے لاتے ہیں۔ ہم 14 اگست کے دن نواز، عمران بحث کر کے آزادی و اتحاد کی روح کے ساتھ زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ آمنے سامنے جن رشتے ناطوں اور موقع محل کا لحاظ ہم عموماً کرتے ہیں،سوشل میڈیا پہ اس شدت کے بد لحاظ بنتے ہیں کہ جس کی کوئی مثال نہیں اور یہی وہ وجہ ہے جس کے باعث آہستہ آہستہ لوگ سوشل میڈیا سے بھی بدظن ہوتے جارہے ہیں۔میر شکیل الرحمٰن بھلے کیسی ہی قابل نفرت شخصیت ہو، ایک بار اپنی فیس بک یا ٹویٹر ٹائم لائن پہ نظر ڈالیے اور اندھی تقلید، بلا تحقیق کیچڑ اچھلتا ہوا دیکھ کر ذرا سوچیے، کیا مین سٹریم میڈیا کے بعد اب سوشل میڈیا بھی ایک” گٹر” نہیں بنتا جارہا؟

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply