جیب کترا۔۔۔۔راحیل افضل

بدقسمتی سے جیب کترا پکڑا گیا۔ لوگوں سے بھرے بنک روڈ پر ایک دم جیسے چونچال آگیا۔ دو منٹ سے بھی کم وقت میں دو درجن لوگ ایک دائرے کی صورت اختیار کرگئے. جس کی جیب کٹی وہ جیب کترے کی ٹھکائی کر رہا تھا۔ کچھ منچلوں نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ اگلے 5 منٹ میں جیب کترے کی قمیض پھٹ گئی، ہونٹوں اور ناک سے بہتا خون اُس کے سینے کو تر کر رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

لوگ جذباتی ہو گئے اور بھانت بھانت کے مشورے دینے لگے۔ ایک صاحب بولے اس کو جلا دو، پولیس اس کو پھر چھوڑ دے گی۔

اتنی دیر میں جیب کترا اٹھ کر کھڑا ہوا، بازو سے اپنا منہ اور ناک صاف کیا، لوگوں پر ایک نگاہ ڈالی اور بولا۔

“میں چور نہیں ہوں۔ میں غریب ہوں، بھوکا ہوں اور بے روزگار ہوں، میں شادی شدہ ہوں، چار بچے ہیں۔ میری بیوی کو کینسر ہے وہ ہسپتال میں زندگی کی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ میرے پاس اپنے اور بچوں کے کھانے کے لیے روٹی نہیں۔”

جیب کترا چند سیکنڈز کو رکا ایک بار مجعے پر ایک نگاہ ڈالی اور پھر بولا۔

“میں تعلیم یافتہ انسان ہوں، میں نے بی-اے کیا ہے۔ اور میں جانتا ہوں کہ اس حالت میں اگر میں تھانے چلا جاؤں تو جو حالت آپ لوگوں نے میری کی ہے آپ سب لوگ حوالات میں ہو گے کیونکہ میرے پاس اس کا پرس نہیں ہے.”

اچانک لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں، کچھ لوگ تین قدم پیچھے ہٹ گئے، کچھ نے مجمع چھوڑ دیا۔ جس کی جیب کٹی تھی وہ چلا اٹھا، “میرا پرس اسی کے پاس ہے، اس کہ تلاشی لو”.

جیب کترا اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا، چند سیکنڈ بعد لڑکھڑا کر اٰٹھا۔ پھٹی قمیض سے ایک بار پھر اپنا منہ صاف کیا۔ اپنی قمیض کا پلو اوپر اٹھایا اور کچھ بولنے کی کوشش کی۔

“کون ہے جو میری مدد کرے گا؟ میرے بچوں کے کھانے کے پیسے دے گا؟ میری بیوی کی دوائیوں کے پیسے دے گا؟”
مجمع واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم نظر آتا تھا۔ کچھ لوگ اس کشمکش میں تھے کہ جیب کترے کو مظلوم سمجھیں یا چور۔

آخرکار ایک آدمی نے جیب میں ہاتھ ڈالا، دو قدم آگے بڑھائے اور دس کا نوٹ اس شخص کی جھولی میں ڈال دیا۔ بہت سارے لوگوں کا حوصلہ بڑھا اور مبینہ جیب کترے کی جھولی بھرتی گئی۔

جس شخص کی جیب کٹی تھی وہ پہلے سر نیچے کیے چپ چاپ بیٹھا رہا پھر مارنے کو دوڑا لیکن اب حالات بدل چکے تھے۔ لوگوں نے اسے روک دیا سب کی ہمدردیاں اس مبینہ جیب کترے کے ساتھ تھیں۔

پھر یوں ہوا کہ جس پر جیب کترا ہونےکا الزام تھا اسے مجمعے نے اپنی حفاظت میں محفوظ فاصلے تک پہنچایا۔

جس لمحے جیب کٹوانے والا گھٹنوں میں سر دئیے اپنے 3000 کو رو رہا تھا عین اسی لمحے میٹرو بس سٹاپ پر کھڑا ایک شخص تڑے مڑے نوٹوں کو ترتیب سے اپنی جیب میں رکھ کہ میٹرو بس کا ٹکٹ خرید رہا تھا۔

Facebook Comments

راحیل افضل
بائیں ہاتھ سے لکھتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply