دور رس تبدیلی

ہم سب جانتے ہیں کہ “فیبئین سوشلسٹوں” کے نزدیک تعلیم سوشلزم لانے کے عمل کی کنجی ہے۔ اسے “سائنٹفک سوشلزم” والے “یوٹوپئین سوشلزم” گردانتے ہیں۔
یہ تصور خاص طور “کمیونزم وادیوں” میں عام تھا، جو ایک زمانے تک تشدد کو ناگزیر اور ان میں بعض گروہ اسے مستحسن سمجھتے تھے۔ (یہاں میں کمیونزم کی رنگا رنگ شکلوں کے درمیان اور ایک طرف ان کے اور دوسری طرف مارکس وادیوں کے درمیان فرق نہیں کر رہا)۔
اب جب کہ تقریباّ سبھی کمیونزم وادی، تشدد کے بجائے جمہوری جدوجہد کو اپنی راہ قرار دیتے ہیں، سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ان کے اور فیبئین لوگوں میں کوئی فرق رہ گیا ہے؟
میرے خیال میں “کمیونسٹ وادی” تعلیم کے ساتھ عوامی جدو جہد کو لازم سمجھتے ہیں۔ یہ عوامی جد و جہد صرف پارلیمان تک محدود نہیں ہے۔ ان کے نزدیک پارلیمان سے باہر یعنی ایکسٹرا یا پیرا پارلیمانی جدوجہد بھی اہمیت رکھتی ہے۔ (ضمنی طور پر یہ عرض کروں کہ آخری این اے پی کا منشور جو بنیادی طور پر میرے سیاسی گروہ کی سوچ کے تحت میری کاوش تھی، اس میں سوشلزم کو اپنی منزل اور پارلیمانی اور غیر پارلیمانی جدو جہد کو اپنا ذریعہ جد و جہد قرار دیا کیا گیا تھا) ۔ میرے خیال میں یہی درست موقف ہے۔
اس کا ایک ضمنی نتیجہ یہ ہے کہ آپ جب جمہوری اور پیرا پارلیمانی جدو جہد کو اختیار کرتے ہیں تو پرولتاریہ کی آمریت کا نظریہ غیر متعلقہ ہو جاتا ہے۔ جمہوری جدوجہد کے تحت الیکشن میں انقلابی پارٹی یا ترقی پسند پارٹیوں کے بلاک، جس میں انقلابی پارٹی شامل ہو، وہ ہار بھی سکتی ہے، جیسا کہ ہمارے ہمسایہ ملک میں ہوتا ہے۔
یہاں ایک پیراڈاکس کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ صنعتی عمل کے بڑھنے کے ساتھ محنت کش طبقے کی تعداد میں اضافہ اور اس کے ہنروں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس صورت میں سماج کا بڑا حصہ محنت کش طبقے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس صورت میں تھیوریٹکلی محنت کش طبقے کی آمریت کے بجائے اس کی جمہوریت کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔ لیکن معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہے۔ ریاست جیسے فوج، قانون، پر سرمایہ داروں کا غلبہ اور اس کے ساتھ سول سوسائٹی کے اداروں جیسے میڈیا، نصاب تعلیم پر ان کے قبضے کی وجہ سے محنت کش طبقہ نظریاتی طور پر ان کے زیر اثر رہتا ہے۔ اس سب چیزوں کے با وجود جد و جہد کا راستہ بھول بھلیوں سے ہی گزر کے جاتا ہے۔
البتہ عدم تشدد کے موقف کے ہوتے ہوئے، ایک استثنی کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ کسی ملک میں گھٹن کی فضا میں عوام کا ریلا تمام تنگنایوں کو روندتا ہوا ایک غضب ناک ناقابل تحدید طوفان کو جنم دے۔ اس وقت انقلابی یا ترقی پسند پارٹیوں کے لئے ناگزیر ہو جاتا ہے کہ وہ سیاسی خلا کو پورا کرنے کے لئے تاریخی ذمہ داری پوری کرے۔ میرے خیال میں ۱۹۱۷ کے روسی انقلاب اور افغانستان کے انقلاب ثور کے موقعے پر یہی ہوا تھا۔ اس کے بعد جو ہوا، وہ الگ کہانی ہے۔
پاکستان ایک ایسی صورت حال میں مبتلا رہتا ہے جس کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ یہاں ہر قسم کے حالات کی توقع کی جا سکتی ہے۔ عام حالات میں بہر حال جمہوری جدوجہد ہی، جس میں پارلیمانی اور بالائے پارلیمانی جدوجہد شامل ہیں، ہمارا مقدر ہیں، اور کسی قسم کی خطرپسندی سے گریز کرنا لازم ہے۔ لیکن ترقی پسندانہ تبدیلی کے داعی، ہر قسم کے حالات کے لئے تیار رہتے ہیں۔
مجھے احساس ہے کہ فیبئین سوشلزم کے ساتھ اور کمیونزم اورمارکسزم کے بارے میں انصاف نہیں کر سکا۔ یار زندہ صحبت باقی۔
ایک تو یہ کم بخت کمپیوٹر پر اردو ٹائپنگ بھی ایک وبال جان ہے۔ اللہ اس سے بچائے۔
بشکریہ “امین مغل ون”

Facebook Comments

امین مغل
امین مغل بائیں بازو کے معرود دانشور اور استاد ہیں۔ ضیا دور میں جلاوطنی اختیار کی اور اب لندن میں طلبا کو سیراب کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply