خلافت سے کربلا تک : فتنۂ شہادت عثمان ؓ۔۔۔حسنات محمود/قسط7

تاریخ ِاسلامی کی چند مشکل ترین اور خطرناک ترین ابحاث میں سے ایک وہ ہے جس کا ذکر عنوان میں ہے – مشکل اس لیے کہ اس دور کے بارے میں جتنی غلط اور صحیح واقعات کی آمیزش کی گئی ہے شاید ہی اس کی کوئی اور نظیر ملتی ہو – اور خطرناک ترین اس لیے کہ یہ کسی معمولی انسان کا دور خلافت نہیں ، بلکہ اس شخصیت کا زمانہ  ہے جس کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنی دو  نورِ نظر عطا کیں – جو حضور کے پرانے ترین اور وفادار ترین ساتھیوں میں سے ہیں اور اپنی حیات میں ہی جنتی ہونے کی نوید اس زبان مبارک سے سن چکے ہیں جس پر حق کے سوا کچھ جاری نہیں ہوتا –

اس وضاحت کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ شاید اس دور میں پیش آنے والے حادثات کے جائزے کو کوئی نادان حضرت عثمان رضی الله عنہ کے کردار یا نیت پر حملہ تصور کر لے – ہم اپنے اصولِ صحت ِواقعات کو پیش نظر رکھتے ہوۓ صرف حالات و حادثات سے بحث کریں گے  اور صرف مستند ترین روایات پر بھروسہ کریں گے –

دور عثمان رضی الله عنہ کے بارے  میں حضرت عمر رضی الله عنہ کے خدشات :

حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنے دور میں اہل کتاب کے ایک عالم سے پوچھا :

” كَيْفَ تَجِدُ الَّذِي يَجِيءُ مِنْ بَعْدِي؟ ”  فَقَالَ: أَجِدُهُ خَلِيفَةً صَالِحًا غَيْرَ أَنَّهُ يُؤْثِرُ قَرَابَتَهُ،” قَالَ عُمَرُ: «يَرْحَمُ اللَّهُ عُثْمَانَ، ثَلَاثًا”

“تم میرے بعد آنے والے کے بارے میں اپنی کتابوں میں کیا پاتے ہو ؟” – تو اس نے کہا :”میں یہ پاتا ہوں کہ وہ ایک صالح خلیفہ ہو گا مگر اپنے رشتہ داروں کو دوسروں پر مقدم رکھے گا “اس کے بعد حضرت عمر رضی الله عنہ نے تین بار فرمایا :”الله عثمان پر رحم کرے !”

(سنن أبي داود، حدیث نمبر  ٤٣٥٦، و اسناد صحیح )

یعنی خود حضرت عمر رضی الله عنہ کو اپنے تجربے اور اصحاب ِرسول صلی الله علیہ وسلم سے آشنائی کی بنیاد پر اس بات کا اندازہ تھا کہ حضرت عثمان رضی الله عنہ اپنے قرابت داروں کے معاملے میں کمزور واقع ہوۓ ہیں – اس کی چند مثالیں جو حضور صلی الله علیہ وسلم کی حیات مبارکہ اور اس کے بعد ملتی ہیں حسب ذیل ہیں :

عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ أَمَّنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ، إِلَّا أَرْبَعَةَ نَفَرٍ وَامْرَأَتَيْنِ وَقَالَ: «اقْتُلُوهُمْ، وَإِنْ وَجَدْتُمُوهُمْ مُتَعَلِّقِينَ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ، عِكْرِمَةُ بْنُ أَبِي جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَطَلٍ وَمَقِيسُ بْنُ صُبَابَةَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي السَّرْحِ»، فَأَمَّا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَطَلٍ فَأُدْرِكَ وَهُوَ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ فَاسْتَبَقَ إِلَيْهِ سَعِيدُ بْنُ حُرَيْثٍ وَعَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ فَسَبَقَ سَعِيدٌ عَمَّارًا، وَكَانَ أَشَبَّ الرَّجُلَيْنِ فَقَتَلَهُ، وَأَمَّا مَقِيسُ بْنُ صُبَابَةَ فَأَدْرَكَهُ النَّاسُ فِي السُّوقِ فَقَتَلُوهُ، وَأَمَّا عِكْرِمَةُ فَرَكِبَ الْبَحْرَ، فَأَصَابَتْهُمْ عَاصِفٌ، فَقَالَ أَصْحَابُ السَّفِينَةِ: أَخْلِصُوا، فَإِنَّ آلِهَتَكُمْ لَا تُغْنِي عَنْكُمْ شَيْئًا هَاهُنَا. فَقَالَ عِكْرِمَةُ: وَاللَّهِ لَئِنْ لَمْ يُنَجِّنِي مِنَ الْبَحْرِ إِلَّا الْإِخْلَاصُ، لَا يُنَجِّينِي فِي الْبَرِّ غَيْرُهُ، اللَّهُمَّ إِنَّ لَكَ عَلَيَّ عَهْدًا، إِنْ أَنْتَ عَافَيْتَنِي مِمَّا أَنَا فِيهِ أَنْ آتِيَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَضَعَ يَدِي فِي يَدِهِ، فَلَأَجِدَنَّهُ عَفُوًّا كَرِيمًا، فَجَاءَ فَأَسْلَمَ، وَأَمَّا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي السَّرْحِ، فَإِنَّهُ اخْتَبَأَ عِنْدَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَلَمَّا دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ إِلَى الْبَيْعَةِ، جَاءَ بِهِ حَتَّى أَوْقَفَهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَايِعْ عَبْدَ اللَّهِ، قَالَ: فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَنَظَرَ إِلَيْهِ، ثَلَاثًا كُلَّ ذَلِكَ يَأْبَى، فَبَايَعَهُ بَعْدَ ثَلَاثٍ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ: «أَمَا كَانَ فِيكُمْ رَجُلٌ رَشِيدٌ يَقُومُ إِلَى هَذَا حَيْثُ رَآنِي كَفَفْتُ يَدِي عَنْ بَيْعَتِهِ فَيَقْتُلُهُ» فَقَالُوا: وَمَا يُدْرِينَا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا فِي نَفْسِكَ، هَلَّا أَوْمَأْتَ إِلَيْنَا بِعَيْنِكَ؟ قَالَ: «إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ خَائِنَةُ أَعْيُنٍ»

(سنن نسائی ، حدیث نمبر ٤٠٦٧ ، و سندہ صحیح )

مصعب بن سعد سے اپنے والد سے روایت کرتے ہے کہ جس روز مکہ مکرمہ فتح ہوا تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام لوگوں کو امن دیا (یعنی پناہ دی) – لیکن چار مردوں اور عورتوں سے متعلق فرمایا یہ لوگ جس جگہ ملے ان کو قتل کردیا جائے چاہے یہ لوگ خانہ کعبہ کے پردوں سے لٹکے ہوئے ہوں (مراد یہ ہے کہ چاہے جیسی بھی عبادت میں مشغول ہوں)- وہ چار لوگ یہ تھے عکرمہ بن ابوجہل عبداللہ بن خطل مقیس بن صبابہ اور عبداللہ بن سعد بن ابی السرح۔ تو عبداللہ بن خطل خانہ کعبہ کے پردوں سے لٹکا ہوا ملا تو اس کو قتل کرنے کے واسطے دو شخص آگے بڑھے ایک تو حضرت سعد بن حریث اور دوسرے حضرت عمار بن یاسر لیکن حضرت سعد حضرت عمار سے زیادہ جوان تھے تو انہوں نے اس کو قتل کردیا آگے بڑھ کر اور مقیس بن صبابہ بازار میں ملا تو اس کو لوگوں نے وہاں پر ہی قتل کردیا اور ابوجہل کا لڑکا عکرمہ سمندر میں سوار ہوگیا تو وہاں پر طوفان آگیا اور وہ اس طوفان میں گھر گیا تو کشتی والوں نے اس سے کہا کہ اب تم سب صرف اللہ تعالیٰ کو پکارو اس لئے کہ تم لوگوں کے معبود اس جگہ کچھ نہیں کرسکتے (یعنی سب بے بس اور مجبور محض ہیں) اس پر عکرمہ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم اگر دریا میں اس کے علاوہ کوئی مجھ کو نہیں بچا سکتا۔ اے میرے پروردگار میں تجھ سے اقرار کرتا ہوں کہ اگر اس مصیبت سے کہ میں جس میں پھنس گیا ہوں تو مجھ کو بچا لے گا تو میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوں گا اور ان کے ہاتھ میں ہاتھ رکھوں گا (یعنی جا کر ان سے بیعت ہوجاؤں گا) اور میں ضرور ان کو اپنے اوپر بخشش کرنے والا مہربان پاؤں گا۔ پھر وہ حاضر ہوا اور اسلام قبول کرلیا اور عبداللہ بن ابی سرح حضرت عثمان کے پاس جا کر چھپ گیا اور جس وقت اس کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو بلایا بیعت فرمانے کے لئے تو حضرت عثمان نے اس کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر کردیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے لا کھڑا کردیا اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عبداللہ کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیعت کرلیں۔ یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سر مبارک اٹھایا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ کی جانب تین مرتبہ دیکھا تو گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر ایک مرتبہ اس کو بیعت فرمانے سے انکار فرما دیا تین مرتبہ کے بعد پھر آخر کار اس کو بیعت کرلیا اس کے بعد حضرات صحابہ کرام کی جانب مخاطب ہوئے اور فرمایا کیا تم میں سے کوئی ایک شخص بھی سمجھ دار نہیں تھا کہ جو اٹھ کھڑا ہوتا اس کی جانب جس وقت مجھ کو دیکھتا کہ میں اس کو بیعت کرنے سے ہاتھ روک رہا ہوں تو اسی وقت عبداللہ کو قتل کر ڈالتا۔ ان لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک کی بات کا کس طریقہ سے علم ہوتا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آنکھ سے کس وجہ سے اشارہ نہیں فرمایا اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا نبی کی یہ شان نہیں ہے (یعنی نبی کے واسطے یہ مناسب نہیں ہے) کہ وہ آنکھ مچولی کرے۔

یعنی حضور صلی الله علیہ وسلم نے واضح حکم دیا تھا کہ ان چار افراد کو ہر حال میں قتل کیا جائے  اور حضرت عثمان نے اس کے باوجود اس کو اپنے گھر میں چھپا لیا – یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس آدمی کا ایسا کون سا جرم تھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایسا سخت حکم دیا اور بعد میں صحابہ کو ڈانٹا کہ اس کو قتل کیوں نہیں کیا گیا ؟ اس کی تفصیل بھی سنن نسائی میں ملتی ہے :

عَنْ ابْن عَبَّاسٍ قَالَ: فِي سُورَةِ النَّحْلِ: {مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ} [النحل: 106] إِلَى قَوْلِهِ {لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ} [النحل: 106] فَنُسِخَ، وَاسْتَثْنَى مِنْ ذَلِكَ فَقَالَ: {ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ هَاجَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوا ثُمَّ جَاهَدُوا وَصَبَرُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَحِيمٌ} [النحل: 110] «وَهُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ الَّذِي كَانَ عَلَى مِصْرَ كَانَ يَكْتُبُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَزَلَّهُ الشَّيْطَانُ، فَلَحِقَ بِالْكُفَّارِ، فَأَمَرَ بِهِ أَنْ يُقْتَلَ يَوْمَ الْفَتْحِ، فَاسْتَجَارَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، فَأَجَارَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ابن عباس رضی الله عنہ  سے روایت ہے کہ قرآن کریم کی سورت نحل میں جو آیت کریمہ ہے (مَنْ کَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُکْرِهَ إِلَی قَوْلِهِ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ) یعنی جس کسی نے ایمان قبول کرنے کے بعد کفر اختیار کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ کا غصہ ہے اور اس کے واسطے بڑا عذاب ہے یہ آیت کریمہ منسوخ ہوگئی اور اس آیت کریمہ کے حکم سے کچھ لوگ مستثنی کر لئے گئے جن کو کہ بعد والی آیت کریمہ ( اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيْنَ هَاجَرُوْا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰهَدُوْا وَصَبَرُوْ ا اِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ)   میں بیان فرمایا گیا یعنی پھر جو لوگ ہجرت کر کے آئے فتنہ میں مبتلا ہونے کے بعد اور ان لوگوں نے جہاد کیا اور صبر اختیار کیا تو تمہارا پروردگار بخشش فرمانے والا اور مہربان ہے یہ آیت کریمہ عبداللہ بن ابی سرح کے بارے میں نازل ہوئی جو کہ ملک مصر میں تھا اور وہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کاتب تھا پھر اس کو شیطان نے ورغلایا اور وہ مشرکین میں شامل ہوگیا جس وقت مکہ مکرمہ فتح ہوگیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو قتل کرنے کا حکم فرمایا (اس کے مرتد ہونے کی وجہ سے) پھر حضرت عثمان نے اس کے واسطے پناہ کی درخواست فرمائی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو پناہ دیدی۔

(سنن نسائی ، حدیث نمبر ٤٠٦٩ ، و سندہ صحیح )

اس کے بعد   حضرت عثمان رضی الله عنہ  کے دور میں یہی  عبداللہ بن سعد بن ابی السرح  مصر کے گورنر رہے  اور انہی کے دور میں  ہوئی بغاوت حضرت عثمان رضی الله عنہ کے خلاف بغاوت کی شکل اختیار کر گئی – حضرت عثمان کی شہادت کے بعد یہ خلوت نشین ہو گئے اور اسی حالت میں وفات پا گئے – نہ تو انہوں نے حضرت علی رضی الله عنہ کے خلاف بغاوت میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کا ساتھ دیا نہ ہی صلحِ حسن کے بعد ان کی بیعت کی –  امام ابن الاثیر رحمتہ الله علیہ نے اسد الغابہ میں اسی بات کی تصریح کی ہے –

اپنے اقرباء کے معاملے میں  اسی  غیر معمولی ہمدردی کی ایک دوسری مثال ولید بن عقبہ رضی الله عنہ کی گورنری ہے یہ حضرت عثمان کے ماں شریک بھائی تھے  – اور یہی گورنر حضرت عثمان رضی الله عنہ کے خلاف ہونے والی بغاوت کی بنیادی وجہ بھی بنے – واقعہ کچھ یوں ہے کہ ولید بن عقبہ رضی الله عنہ ان لوگوں میں شامل ہیں جو فتح مکہ والے دن معافی پاکر مسلمان ہوۓ –  صحبت و تربیت حضور صلی الله علیہ وسلم میں زیادہ وقت نہ گزرا –  اپنی گورنری کے زمانے میں ایک دن شراب پی کر فجر کی نماز پڑھاتے ہوۓ پکڑے گئے اور اسی کی سزا میں ان پر شرعی حد بھی جاری کی گئی –  صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق اس کی تفصیل کچھ یوں ہے :

“حَدَّثَنَا حُضَيْنُ بْنُ الْمُنْذِرِ أَبُو سَاسَانَ، قَالَ: شَهِدْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ وَأُتِيَ بِالْوَلِيدِ قَدْ صَلَّى الصُّبْحَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: أَزِيدُكُمْ، فَشَهِدَ عَلَيْهِ رَجُلَانِ أَحَدُهُمَا حُمْرَانُ أَنَّهُ شَرِبَ الْخَمْرَ، وَشَهِدَ آخَرُ أَنَّهُ رَآهُ يَتَقَيَّأُ، فَقَالَ عُثْمَانُ: إِنَّهُ لَمْ يَتَقَيَّأْ حَتَّى شَرِبَهَا، فَقَالَ: يَا عَلِيُّ، قُمْ فَاجْلِدْهُ، فَقَالَ عَلِيٌّ: قُمْ يَا حَسَنُ فَاجْلِدْهُ، فَقَالَ الْحَسَنُ: وَلِّ حَارَّهَا مَنْ تَوَلَّى قَارَّهَا، فَكَأَنَّهُ وَجَدَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: يَا عَبْدَ اللهِ بْنَ جَعْفَرٍ قُمْ فَاجْلِدْهُ، فَجَلَدَهُ وَعَلِيٌّ يَعُدُّ حَتَّى بَلَغَ أَرْبَعِينَ، فَقَالَ: أَمْسِكْ، ثُمَّ قَالَ: «جَلَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعِينَ»، وَجَلَدَ أَبُو بَكْرٍ أَرْبَعِينَ، وَعُمَرُ ثَمَانِينَ، ” وَكُلٌّ سُنَّةٌ، وَهَذَا أَحَبُّ إِلَيَّ”

حضرت حصین بن منذر ابوساسان سے روایت ہے کہ میں حضرت عثمان بن عفان رضی الله عنہ  کے پاس حاضر ہوا۔ ان کے پاس ولید بن عقبہ کو لایا گیا کہ انہوں نے صبح کی نماز دو رکعتیں پڑھائیں پھر کہا میں تمہارے لئے زیادہ کرتا ہوں اور اس کے خلاف دو آدمیوں نے گواہی دی۔ ان میں سے ایک حمران نے گواہی دی کہ اس (ولید) نے شراب پی ہے۔ دوسرے نے گواہی دی کہ اس نے اسے قے کرتے دیکھا ہے تو حضرت عثمان نے کہا کہ اس نے شراب پیئے بغیر قے نہیں کی۔ اے علی! اٹھو اور اسے کوڑے لگاؤ۔ حضرت علی رضی الله عنہ  نے حسن رضی الله عنہ  سے کہا اٹھو اور کوڑے مارو۔ حضرت حسن نے کہا خلافت کی گرمی بھی اسی کے سپرد کریں جو اس کی ٹھنڈک کا والی ہے۔ علی رضی الله عنہ  نے اس بات کی وجہ سے حسن رضی الله عنہ  سے ناراضگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا اے عبداللہ بن جعفر اٹھو اور اسے کوڑے مارو۔ پس انہوں نے اسے کوڑے مارے اور حضرت علی رضی الله عنہ  شمار کرنے لگے۔ یہاں تک کہ چالیس تک پہنچے تو فرمایا ٹھہر جاؤ۔ پھر فرمایا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چالیس اور حضرت ابوبکر رضی الله عنہ  نے بھی چالیس اور حضرت عمر رضی الله عنہ  نے اسی کوڑے لگوائے اور سب سنت ہیں اور مجھے یہ (چالیس کوڑے) زیادہ پسندیدہ ہیں-

(صحیح مسلم، حدیث نمبر ١٧٠٧)

اسی طرح حضرت عثمان رضی الله عنہ نے السابقون  الاولو ن  اور کبائر اصحاب نبی صلی الله علیہ وسلم کی موجودگی کے باوجود اپنے خاندان کے لوگوں کو اہم ترین صوبوں کا گورنر مقرر کیا – اس کی تفصیل کچھ یوں ہے :

  • بحرین میں مروان بن حکم کو عامل مقرر کیا – جو ان کے چچا کا بیٹا اور شدید فتنہ صفت انسان تھا-حضرت عثمان رضی الله عنہ نے اس کو اپنا سیکرٹری بنا لیا –   اسی نے حضرت طلحہ رضی الله عنہ کو شہید کیا اور اسی کا لکھا  ہوا جھوٹا خط حضرت عثمان رضی الله عنہ کی شہادت کی وجہ بنا  (اس کی تفصیل بعد میں آتی ہے )
  • حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ اپنے بھائی یزید بن ابو سفیان رضی الله عنہ کی وفات کے بعد شام کے ایک محدود علاقے کے گورنر تھے – حضرت عمر رضی الله عنہ کسی کو ایک ہی جگہ پر چار سال سے زیادہ تک گورنر نہیں رہنے دیتے تھے تاکہ اسے ایک جگہ پر رہ کر اپنا گروہ بنانے کی مہلت نہ ملے- حضرت عمر رضی الله عنہ حضرت معاویہ رضی الله عنہ کے چار سال مکمل ہونے سے پہلے ہی شہید ہو گئے – بعد میں حضرت عثمان رضی الله عنہ نے اس محدود علاقے کی بجاۓ حمص، فلسطین  اور پورا شام ان کے حوالے کر دیا –  یہ حضرت معاویہ رضی الله عنہ بھی حضرت عثمان رضی الله عنہ کے رشتہ دار اور فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کرنے والوں میں سے تھے –
  • عبداللہ بن سعد بن ابی السرح : حضرت عمر رضی الله عنہ کے دور میں حضرت عمر و بن العاص رضی الله عنہ مصر کے گورنر  تھے جبکہ عبداللہ بن سعد بن ابی السرح   ان کے ماتحت کی حثیت سے کام کرتے تھے – حضرت عثمان رضی الله عنہ کے دور میں دونوں میں اختلاف ہوا اور حضرت عمرو بن العاص رضی الله عنہ نے عبداللہ بن سعد بن ابی السرح   رضی الله عنہ کو معزول کرنے کا مطالبہ کیا – حضرت عثمان رضی الله عنہ نے ان کے مطالبہ کو منظور کرنے کی بجاۓ خود ان کو معزول کر دیا – اور عبداللہ بن سعد بن ابی السرح   کو پورے مصر کا گورنر مقرر کر دیا – عبداللہ بن سعد بن ابی السرح  کے قبول اسلام کی روداد اوپر گزر چکی ہے – یہ بھی حضرت عثمان رضی الله عنہ کے رشتہ دار  تھے –
  • عبدالله بن عامر رضی الله عنہ :حضرت عمر رضی الله عنہ کے دور میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی الله عنہ بصرہ کے گورنر تھے – حضرت عثمان رضی الله عنہ نے ان کو ہٹا کر عبدالله بن عامر رضی الله عنہ کو وہاں کا گورنر مقرر کر دیا – یہ بھی حضرت عثمان رضی الله عنہ کے ماموں کے بیٹے تھے –
  • ولید بن عقبہ رضی الله عنہ : حضرت عمر رضی الله عنہ کی شہادت کے وقت حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کوفہ کے گورنر تھے – حضرت عثمان رضی الله عنہ نے ان کے بعد ، حضرت عمر رضی الله عنہ کی وصیت کے مطابق، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کو ان کی جگہ گورنر مقرر کیا – بعد میں ان کو معزول کر کے اپنے ماں شریک بھائی ولید بن عقبہ رضی الله عنہ کو وہاں کا گورنر لگایا –  جو بعد میں شراب پی کر نماز پڑھاتے ہوۓ پکڑے گئے اور ان کو سزا دی گئی – اس سے پہلے کوفہ کے اموال کا محکمہ حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ کے پاس تھا – جب ولید کو وہاں مقرر کیا گیا تو یہ محکمہ بھی اسی کے حوالے کر دیا گیا اور حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا –
  • سعید بن العاص رضی الله عنہ : جب ولید شراب کے جرم میں سزا پا چکے تو ان کو عہدے سے ہٹا دیا گیا اور ان کی جگہ سعید بن العاص رضی الله عنہ کو مقرر کیا گیا – یہ بھی حضرت عثمان رضی الله عنہ کے قرابت دار تھے – بعد میں کوفہ کی عوام نے ان کو بھی شدید ناپسند کیا اور خود ہی ان کو ہٹا کر حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی الله عنہ کو گورنر مقرر کر دیا – جس کی توثیق حضرت عثمان رضی الله عنہ نے مجبوراً کردی –

اپنے رشتہ داروں کو یہ عہدے دینا  حضرت عمر رضی الله عنہ کی اس نصیحت کے خلاف تھا جو انہوں نے حضرت عبدالرحمن  بن عوف، حضرت عثمان اور حضرت علی کو کی تھی – آپ نے فرمایا تھا :

فَإِنْ كُنْتَ عَلَى شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ يَا عُثْمَانَ , فَلَا تَحْمِلَنَّ بَنِي أَبِي مُعَيْطٍ عَلَى رِقَابِ النَّاسِ , وَإِنْ كُنْتَ عَلَى شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ , فَلَا تَحْمِلَنَّ أَقَارِبَكَ عَلَى رِقَابِ النَّاسِ , وَإِنْ كُنْتَ عَلَى شَيْءٍ يَا عَلِيُّ , فَلَا تَحْمِلَنَّ بَنِي هَاشِمٍ عَلَى رِقَابِ النَّاسِ , ”

تو اے عثمان اگر تمہیں یہ ذمہ داری ملے تو لوگوں پر ابو محیط کے خاندان کو مسلط نہ کرنا ! اور اے  عبدالرحمن اگر تمہیں لوگوں کی ذمہ داری ملے تو دیکھنا لوگوں کی گردنوں پر اپنے اقارب کو نہ لادنا ! اور اے علی اگر یہ ذمہ داری تمہیں ملے تو بنو ہاشم کو لوگوں کی گردنوں پر مسلط نہ کرنا – ”

(سنن الکبری ٰٰ للبہیقی  ، حدیث نمبر ١٦٥٨٠، و سندہ صحیح )

آپ رضی الله عنہ کا یہ طرز عمل نہ صرف حضرت عمر رضی الله عنہ کی نصیحت کے خلاف تھا بلکہ حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ، حضرت ابو بکر رضی الله عنہ  اور خود حضرت عمر رضی الله عنہ کے طریق ِ حکمرانی کے مخالف تھا –ان تینوں حضرات نے اپنے اپنے ادوار حکومت میں اپنے قریبی رشتہ داروں کو عہدوں سے دور رکھا-  حضور صلی الله علیہ وسلم کے دور میں اس اصول میں صرف ایک حضرت علی رضی الله عنہ کا استثناء ملتا ہے – جب حضرت عثمان رضی الله عنہ نے عظیم اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم کو ہٹا کر اپنے خاندان کے ، فتح مکہ کے موقع پر معافی پا کر ایمان لانے والوں کو مقرر کر دیا تو عوام میں ان کے خلاف جذبات ابھرے – اور انہی علاقوں میں آپ رضی الله عنہ کے خلاف بغاوت ہوئی جو مدینہ منورہ کے معاصر ے اور آپ رضی الله عنہ کی شہادت کا سبب بنی –  آپ کے خلاف اٹھنے والی ان تحریکوں میں خود اصحاب نبی رضی الله عنہم بھی شامل تھے – جن میں حضرت عبدالرحمٰن بن عدیس رضی الله عنہ سر فہرست ہیں، آپ رضی الله عنہ اصحاب شجرہ میں سے ہیں – یہ مصر سے آنے والے باغی گروہ کے سربراہ تھے –

حضرت عثمان رضی الله عنہ کے خلاف اٹھنے والوں کے سامنے کوئی بھی وجوہات ہوں، ان کو ایک خلیفہ راشد، جس کو عام عوام نے اپنی آزاد مرضی سے منتخب کیا ہو، کے خلاف یوں اٹھنا نہیں چاہیے تھا – احتجاج اور اختلاف اپنی جگہ مگر ایک ایسے انسان کے قتل کا کوئی جواز نہیں جس نے ساری عمر اسلام اور نبی اسلام صلی الله علیہ وسلم سے اپنے مکمل اخلاص کا مظاہرہ کیا ہو – چند انتظامی غلطیوں کی وجہ سے ان کی تمام خدمات ختم نہیں ہو جاتیں –

یہاں ہم خلاصے کے طور پر فتنہ مقتل عثمان بن عفان رضی الله عنہ  کے دوران پیش آنے والے واقعات کو نقات کی شکل میں  تحریر کرتے ہیں – تفصیل سے طوالت کا خوف ہے –

  • نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی حیات میں حضرت عثمان رضی الله عنہ کو اس فتنہ کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا اور ان کو کسی صورت بھی منصبِ خلافت سے دستبردار نہ ہونے کا حکم دیا تھا –

(سنن الترمذی، حدیث نمبر ٣٧٠٥ ، سند ہ صحیح )

  • حضرت عثمان رضی الله عنہ کی شہادت کی خبر خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دی تھی –

(سنن الترمذی، حدیث نمبر ٣٦٩٦ ، سند ہ صحیح )

  • مصر سے آنے والے وفد کے اعتراضات کا حضرت عثمان رضی الله عنہ نے تسلی بخش جواب دیا اور ان کے مطالبات کو منظور کیا – آپ نے ابن ابی سرح رضی الله عنہ کو معزول کر کے حضرت محمد بن ابی بکر رضی الله عنہ کو گورنر بنا کر ان کے ہمراہ روانہ کیا اور وفد کے لوگ  واپس چلے گئے- راستے میں ایک مشکوک  آدمی کو انہوں نے پکڑا ، جس کے پاس سے حضرت عثمان کی طرف سے لکھا گیا ایک خط ملا – اس میں عامل مصر کو پورے وفد کے قتل کر دینے کا حکم درج تھا- اس خط پر حضرت عثمان کی مہر بھی لگی ہوئی تھی – یہ سب ہونے کے بعدوہ لوگ راستے سے ہی  واپس آگئے –  اور حضرت عثمان رضی الله عنہ نے  اس خط سے اعلان براءت کیا – جس پر انہوں نے اصل مجرم (آپ کے کاتب، مروان بن حکم )  کو ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا – جب حضرت عثمان نے ایسا نہیں کیا تو ان کے گھر کا معاصرہ کیا گیا اور بعد میں ایک مصری شخص جس کا لقب “کالی موت ” تھا  ان کے گھر کے اندر داخل ہوا اور ان کو حالت ِروزہ میں ، تلاوتِ قرآن کے دوران شہید کر دیا –

(مصنف ابن ابی شیبہ  حدیث نمبر ٣٧٦٩٠ ، سند ہ صحیح ، الاصابہ فی تمیز الصحابہ ، ذکر عثمان بن عفان رضی الله عنہ )

  • حضرت عثمان رضی الله عنہ کا ان کے خلاف اٹھنے والے گروہ کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ان لوگوں کو مسلمان سمجھتے تھے اور ان باغیوں میں کوئی یہودی یا غیر مسلم نہیں تھا – ان کا اختلاف کفر و اسلام کا نہیں صرف انتظامی و سیاسی تھا –

(بخاری ، حدیث نمبر 695  )

  • حضرت عثمان رضی الله عنہ کے قاتل کا اصل نام اور اس کی تفصیلات کسی کو معلوم نہیں – بس اتنا معلوم ہے کہ اس کو کالی موت کے لقب سے پکارتے تھے اور وہ مصری تھا –

( فتنہ مقتل عثمان بن عفان رضی الله عنہ   از محمد بن عبدالله الغبان صفحہ نمبر ٢٠٥ )

  • مالک اشتر، حضرت عبدالرحمٰن بن عدیس رضی الله عنہ، حضرت محمد بن ابی بکر رضی الله عنہ ان کے خلاف اٹھنے والوں میں ضرور شامل تھے مگر ان کے قتل میں ان کا کوئی حصہ نہیں تھا  –

( فتنہ مقتل عثمان بن عفان رضی الله عنہ   از محمد بن عبدالله الغبان )

ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے حضرت عثمان رضی الله عنہ اپنی تمام تر خدمات اور ایمان میں کاملیت کے باوجود اپنے اقرباء کے حق میں نرم گوشہ رکھتے تھے اور ان کے ساتھ کیے جانے والے خصوصی سلوک کو قرابت داری کا حق سمجھتے تھے – اسی لیے ان کی تالیفِ قلب کی خاطر ، ان کے نو مسلم ہونے کے  باوجود انھیں  اہم ترین عہدوں پر فائز کیا – ان کے اقرباء کو فتح مکہ کے بعد اسلام لانے کی وجہ سے تربیت رسول صلی الله علیہ وسلم میں زیادہ رہنے کا موقع نہیں ملا – اسی وجہ سے ان میں پائی جانے والی اخلاقی کمزوریوں نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں کو بنیاد فراہم کی  اور  یہی  بغاوت ان کی شہادت کی وجہ بنی –

محترم محقق محمد بن عبد الله بن عبد القادر غبان الصبحي اپنی مشہور کتاب ” فتنة مقتل عثمان بن عفان رضي الله عنه” میں جناب عثمان رضی الله عنہ کی تاریخ شہادت کے بارے میں کتبِ اسلامی میں موجود مختلف اقوال کو نقل اور ان کی اسانید پر بحث کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

“والذي ترجح لديَّ من هذه الأقوال؛ القول الثالث الذي فيه أنه استشهد في أوسط أيام التشريق لصحة نقله عن أبي عثمان النهدي، المعاصر للحادثة. وما سواه من أقوال لم يصح إسناد شيء منها، وكل ما جاء به من أسانيد فهي ضعيفة، وبعض منها صدر ممن لم يعاصر الحادثة”

میرے نزدیک ترجیح اس قول کو حاصل ہے  جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ شہادت ایام تشریک کے درمیانی دن (یعنی ١٢ ذالحجہ ) کو وقوع پذیر ہوئی، اس کی سند ابی عثمان النھدی سے صحت کے لحاظ سے ثابت ہے، اور وہ اس واقعہ کے زمانہ میں موجود بھی تھے، اس تاریخ کے علاوہ جتنے اقوال ہیں سب کے سب اپنی سند کے لحاظ سے صحیح نہیں ہیں، اور جو بھی نقل ہوا ہے اس میں ضعف ہے، اور ان کے نقل کرنے والے محاصر بھی نہیں ہیں-

( فتنہ مقتل عثمان بن عفان رضی الله عنہ   از محمد بن عبدالله الغبان صفحہ نمبر ١٩٨)

Advertisements
julia rana solicitors

الله تیسرے خلیفہ ، حضرت عثمان رضی الله عنہ سے راضی ہو اور ان کو اس جنت میں داخل فرماۓ جس میں داخلے کی بشارت خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان کو اپنی حیات مبارکہ میں دےدی تھی –

Facebook Comments

حسنات محمود
سائنس و تاریخ شوق، مذہب و فلسفہ ضرورت-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply