جنابِ حسین علیہ سلام کی آفاقیت۔۔ انعام رانا

صاحبو علما کی صحبت میں کئی بار آپ کا جہل بھی باعث رحمت بن جاتا ہے۔ ایسا ہی ہوا جب محترم مبشر زیدی کی وال پہ میں نے موقف دیا کہ جناب حسین رض اسلام سے باہر حسین نہیں رہتے کیونکہ ہماری ان سے عقیدت کا منبع مذہب اور مذہبی روایات ہی ہیں۔ استاذ الاساتذہ ڈاکٹر اختر علی سید نے فورا ٹوکا اور بعد ازاں فون پر کہا کہ جناب حسین ع کو مذہب سے جدا کر کے بھی دیکھئیے تو وہ اسی بڑے قد سے کھڑے ہیں۔ ڈاکٹر اختر کی گفتگو نے ذہن کو کربلا اور جناب حسین ع کو اک مختلف زاویہ سے دیکھنے پر اکسایا اور یہ موقف مضبوط ہوا کہ جناب حسین ع مذہبی عقیدت سے باہر بھی استعارہ حریت و آزادی ہیں۔ خدا مبشر بھائی اور ڈاکٹر اختر کو خوش رکھے۔

بات بڑھانے سے قبل سابقہ موقف کو بیان کرنا بھی بہتر ہو گا کہ وہی مزید مطالعہ کی بنیاد ہے۔ امام حسین ع کا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آل وسلم کا نواسہ ہونا، جناب عثمان رض کی شہادت کے بعد سے اسلامی دنیا میں فتنہ کا برپا ہونا، جناب علی سلام اللہ علیہہ کی خلافت و شہادت، جناب حسن سلام اللہ علیہہ کی صلح، یزید کی بادشاہت اور امام کا اسکی بیعت سے انکار، اس سب کے پس منظر کے ساتھ جب ہم جناب حسین رض کی کربلا کے ریگ زار پہ اپنے خاندان کے ساتھ اٹھائی مصیبتیں اور شہادتیں دیکھتے ہیں تو بطور مسلمان یقینا کلیجہ کٹ کر رہ جاتا ہے اور آنکھ آنسووں سے بھر جاتی ہے۔ میرا یہ ماننا تھا کہ اگر یہ پس منظر اور اسلام کے ساتھ وابستگی نا ہوتی تو شاید جناب حسین ع ویسے حسین ع نا ہوتے جیسے ہمارے لئیے اب ہیں۔

اگر ہم مذہب کو کچھ دیر کیلئیے اس تمام معاملے سے علہدہ کر کے دیکھیں تو منظر کچھ یوں ہے کہ حسین بن علی مدینہ میں موجود ہیں جنکو خبر ملتی ہے کہ بادشاہ کے تخت پر اک شخص یزید بن معاویہ براجمان ہوا ہے، ان اصولوں پر جو ان کے اپنائے ہوے اصولوں سے متصادم ہیں۔ وہ اسکی نامزدگی یا بادشاہت کو ناجائز خیال کرتے ہیں۔ کیا حسین اعلان بغاوت کرتے ہیں؟ نہیں۔ مگر حسین سے بیعت یعنی اطاعت کا مطالبہ کیا جاتا ہے مگر حسین انکار کرتے ہیں۔ جب اصرار حد سے بڑھتا ہے تو حسین مدینہ چھوڑتے ہوے مکہ جاتے ہیں، جب وہاں بھی انکے انکار کی آزادی برقرار نہیں رہتی تو وہ محفوظ مقام کیلئیے اک ایسے علاقے کی جانب بڑھتے ہیں جہاں انکو یقین ہے کہ وہ اپنے انکار کی آزادی برقرار رکھ سکیں گے۔ یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا اپنے مداحوں میں پہنچ کر بھی حسین مسلح بغاوت نا کرتے؟ جواب ہاں اور نا دونوں میں دیا جا سکتا ہے مگر  جناب مسلم بن عقیل کی مداحوں کے ہاتھوں یا انکی موجودگی کے باوجود موت بھی حسین کو مزید بڑھنے سے نہیں روکتی تو کہا جا سکتا ہے کہ حسین اپنے حرف انکار کی حرمت قائم رکھنے کیلئیے مداحوں کے بھی محتاج نا رہے تھے۔ یہ بے نیازی نظر آتی ہے جب عین جنگ کی رات خیمے کا دیا بجھا کر ساتھیوں کو جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ رستے میں انکو کربلا کے مقام پہ روکا جاتا ہے اور پھر بیعت کا اصرار ہوتا ہے مگر حسین اپنے انکار کی آزادی پہ بضد ہیں۔ یہاں اک اہم نکتہ ہے کہ کسی بھی موقع پر حسین اقتدار کا مطالبہ یا خواہش کرتے نہیں ملتے، وہ فقط ایک ایسی حکومت کی بیعت یا allegiance سے انکار کرتے ہیں جسکی اطاعت انکا ضمیر قبول نہیں کرتا۔ جب جنگ سامنے نظر آنے لگتی ہے تو حسین کچھ مطالبات رکھتے ہیں:
۱- مجھے واپس جانے دو
۲- مجھے جہاد کیلئیے بھیج دو
۳- مجھے ملک کی سرحدوں سے نکل جانے دو
(کچھ روایات میں ہندوستان کہا گیا ہے۔ تصور مشتاق ہے کہ اگر حسین ہندوستان چلے آتے تو تاریخ عالم شاید اک مختلف رنگ لئیے ہوے جانے کیسی ہوتی)
4- مجھے یزید کے پاس لے چلو کہ اسکے ہاتھ میں ہاتھ دے لوں(یعنی اپنا معاملہ خود طے کر لوں)

یہ شرائط کسی صورت اک ہارے ہوے، ڈرے ہوے یا اقتدار کے طالب کی سیاسی چال نہیں ہیں جو فقط کچھ مردوں اور گھر کی عورتوں، بچوں کے ساتھ اک بڑی فوج کے نرغے میں ہے۔ اسکے باوجود حسین سے بلا مشروط اطاعت طلب کی جاتی ہے جسکے جواب میں وہ اپنی اور ساتھیوں کی جان اپنے ضمیر، اپنے اصولوں اور اپنے انکار کی آزادی پہ قربان کر دیتے ہیں۔ یہ اسلامی تاریخ کی پہلی اور انسانی تاریخ کی ایک بڑی سول نافرمانی کی ایسی مثال ہے جس نے تاریخ پہ گہرا اثر چھوڑا۔

آگے بڑھنے سے قبل آپکو کچھ دیر کیلئیے تصورِ آزادی، تصورِ انکار اور سول نافرمانی پہ روکنے کی جسارت کرتا ہوں۔ ارسطو سے لے کر نوم چومسکی تک آپ کو تصور آزادی کی تعریف و محاسن ملتے ہیں۔ اسایا برلن نے اپنے مضمون “آزادی کے دو تصوارت (two concepts of freedom) میں کہا کہ تصور آزادی کیلئیے سب سے اہم سوال اطاعت و جبر کا ہے۔ مشہور فلسفی ژاں پال سارت نے “حرف انکار کی آزادی” کو حقیقی آزادی قرار دیا۔ بلکہ یہاں تک کہا کہ جرمن قبضہ کے دوران ہم سب سے زیادہ آزاد تھے کیونکہ ہم ہر پل “انکار کی آزادی” کے حامل تھے۔ مشہور فلسفی ڈیوڈ تھور کا کہنا ہے کہ “انقلاب حکومت کی اطاعت سے انکار اور مزاحمت کی آزادی ہے جب اس حکومت کی نااہلیت اور جبر ناقابل برداشت ہو جائے۔” حکومتی نافرمانی یا سول نافرمانی کی سب سے پرانی کہانی ہمیں سوفوکلس کے یونانی ڈرامے “انٹیگون” میں ملتی ہے جہاں سابقہ بادشاہ اوڈپس کی بیٹی انٹیگون موجودہ بادشاہ کریون کی اطاعت سے انکار کرتے ہوے موت قبول کرنے سے قبل کہتی ہے کہ “وہ اک انسان کے قانون کے بجائے اپنے ضمیر کی اطاعت کرے گی۔ وہ موت سے خوفزدہ نہیں بلکہ ایسی اطاعت کے نتیجے میں اپنے ضمیر کی ملامت سے خوفزدہ ہے”۔

تصور آزادی، آزادی انکار، سیاسی اختلاف، ضمیر کی اطاعت اور سول نافرمانی کے ان اصولوں پر جب ہم جناب حسین ع کو پرکھتے ہیں تو فقط مسلم دنیا کا ہی نہیں بلکہ انسانیت کا مشترکہ سرمایہ بن کر سامنے آتے ہیں۔ جناب حسین ع کی شہادت مذہبی سے زیادہ انسانی اقدار کے تخت پر براجمان ملتی ہے۔ بقول ڈاکٹر اختر، “حسین ع نے کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ میں یزید کی بیعت نہیں کروں گا کیونکہ وہ اچھا مسلمان نہیں ہے۔ بلکہ فقط اس پر اصرار کیا کہ میں اپنے اصولوں کی پاسداری میں بیعت نہیں کروں گا۔” امام حسین رض کی کربلا کچھ اصول مرتب کرتی ہے؛
۱- فرد کو اختیار حاصل ہے کہ وہ حکومت سے بغاوت نا کرتے ہوے اصولی بنیاد پر اسکی اطاعت سے انکار کرے۔
۲- حکومت فرد یا گروہ کو جبری اطاعت پہ مجبور نہیں کر سکتی۔
۳- جابر یا نا اہل حکومت کی اطاعت سے انکار حق ہے۔
4- ضمیر کا اطمنان، وقتی زندگی یا ضمیر کے خلاف اطاعت سے بہتر ہے۔
4- جب کوئی راہ نا رہے تو اپنے حق کیلئیے، حرف انکار کی آزادی کیلئیے جان پہ کھیل جانا چاہیے۔
۵- کم تعداد یا کمزور گروہ بھی حکومتی جبر سے ٹکرا سکتا ہے اگر اسے اپنے حق پہ ہونے کا مکمل یقین ہو۔
6- موت ایسی جنگ میں شکست نہیں بلکہ فتح تصور ہوتی ہے کیونکہ آپ نے جان دے کر جبر کو شکست دیتے ہوے اپنی آزادی کو برقرار رکھا۔

یہ ہی وہ اصول ہیں جنہوں نے جناب حسین سلام اللہ علیہہ کو آفاقیت دی اور وہ فقط اک گروہ یا مذہب کے بجائے تمام انسانیت کیلئے رول ماڈل بن گئے۔ ہم دیکھتے ہیں انکار کی آزادی کا یہ علم بھائی کی شہادت کے فورا ہی بعد سیدہ زینب سلام اللہ علیھا اٹھا لیتی ہیں اور جابر حکمران کو اطاعت کی شرط سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ بلاشبہ شیعان علی رض کی سیاسی تحریک اور پھر اسکا رفتہ رفتہ ایک مذہبی مسلک بن کر اس یاد کو اک مذہبی رتبہ دے دینا کربلا کی یاد کو برقرار رکھنے میں اک اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ مگر مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئیے کہ حسین رض شیعہ ازم کے بنا بھی تاریخ انسانی کا اک ایسا کردار رہتے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ کئی بار دوست بطور طنز یا مزاح کہتے ہیں کہ ملحد و لبرل و کامریڈ ذکرِ کربلا یا محرم آتے ہی شیعہ بن جاتے ہیں۔ اگر وہ اسے گہرائی سے دیکھیں تو انکو اندازہ ہو گا کہ اسکی وجہ شیعت نہیں بلکہ جناب حسین ع کی آفاقیت ہے۔ چنانچہ جن اصولوں کی خاطر جناب حسین ع اور انکے ساتھیوں نے جان دی، ان ہی اصولوں کو لے کر رہتی دنیا تک آزادی کی، جبر کی مخالف، ضمیر کی پیروکار، حرف انکار کی ہر انفرادی اور اجتماعی کوشش و تحریک جناب حسین ع کو اپنا فکری رہنما بنانے میں فخر محسوس کرے گی۔ مذہب سے باہر بھی جناب حسین علیہ سلام حریت و جرات کا آفاقی استعارہ حسین بن کر تاریخ انسانی کے آسمان پر جگمگاتے رہیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کرب و بلا میں دیکھئیے شبیر کی “نہیں”
ہر دور کے یزید کو جڑ سے مٹا گئی
سورج سنگھ سورج

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”جنابِ حسین علیہ سلام کی آفاقیت۔۔ انعام رانا

  1. کب اور کونسے جبر کو کیا چیز کس طرح” مٹا” گئی؟
    یہ مذہبی شیزو فرینیا عرب سے عجم کا بدلہ ہے!

Leave a Reply to ادریس بابر Cancel reply