تھر ایک پکنک پوائنٹ

تھر ایک پکنک پوائنٹ
نعیم الدین جمالی
تھر کانام آپ نے ٹی وی چینلز اور اخبارات میں بہت سنا ہوگا، جس میں تھر کے قحط اور بچوں کی اموات کی خبریں بار بار سنی ہوں گی، تھر کی خوبصورتی موروں پر ہونی والی بیماری کی نسبت سے بھی تھر کا تذکرہ آپ کی سماعتوں کی ٹکرایا ہو گا۔ گذشتہ دنوں تھر کی سیاست میں ذرا سی تبدیلی بھی آئی تھی جس میں تیر نے مقابلہ جیت لیا تھا ـ ایک ایسے خاندان کے فرد نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی جس پر پی پی والوں نے جوتے برسائے تھے ـ خیر ہم بہت دور نکل گئے ـ میں آپ کو اب اس تھر کی سیر نہیں کروانا چاہتا جہاں بچوں کی اموات نے آپ کے تصوراتی خاکے میں ایک قحط زدہ علاقہ تصور کیا ہوا ہے، جہاں بیماریوں اور بھوک افلاس سے انسان جانور یکساں موت کو گلے لگاتے ہیں، اس تھر میں آپ کو نہیں لیجانا چاہتا جہاں ایک ہی گدلے تالاب سے انسان اور مال مویشی پیاس بجھاتے ہیں، اسی تالاب کے پانی سے کپڑے اور جسم دھوئے جاتے ہیں.
ہاں! لیکن اب میں تمہیں اس تھر لے جانا چاہتا ہوں،
جہاں مور رقص کرتے ہیں،
جہاں کے باشندے روایتی لباس اجرک پہن کر رات کو عمر ماروی کے قصے سناتے ہیں،
جہاں بچیاں اپنے روایتی گیت گاتی ہیں،
جہاں نوخیز لڑکی کی مانند تھر کی جوانی کا موسم جوبن پر ہے.
جہان رات گئےتک آپ کو پرندوں کی چہچہانے کی آواز سننے کو ملتی ہے.
جہان گھنگھرو کی جھنکار کے سائے میں شادیاں رچائی جاتی ہیں.
جہاں پائل کی آواز صحرا میں عجیب مستی پیدا کردیتی ہے.
جہاں درختوں کے پتے اپنے دیس کی خوشی مناتے دِکھتے ہیں.
جہاں اب بھوک افلاس نہیں.
جہاں اب خوشیاں ہی خوشیاں ہیں.
جہاں اب پردیسی اپنے گھروں کو لوٹ آئے ہیں.
جہاں اب چرواہوں کی سریلی مدہم آواز جانوروں کو مست کردیتی ہے.
جہاں انسانوں کی طرح جانوروں کو بھی پیار ملتا ہے.
جہاں ہندو مسلم اتفاق سے رہتے ہیں.
جہاں اب بادل برستے ہین.
جہاں اب سبزہ ہی سبزہ دکھتا ہے.
جہاں شیخ ایاز کا کہا ہوا ” چمن ہی چمن “نظر آتا ہے.
جہاں اب سبزہ کی چادر پہنے ریت ایک عجیب کیفیت طاری کردیتی ہے.
جہاں آنکہیں سبزہ ہی سبزہ دیکھتی ہیں.
جہاں اب سیاح دور دراز سے آنے لگے ہیں.
جہاں گاؤں دیہات کے لوگوں کی مہمان نوازیاں عروج پر ہیں.
جہاں اب مور اور تیتر اپنی سریلی آواز سے سیاحوں کو خوش آمدید کہتے ہیں.
جہاں جانوروں کی گلے کی گھنٹیاں پورے صحراء کو سازندے کے سر کی مانند بنا دیتی ہے.
جہاں لطیف کا درس ملتا ہے.
جہاں سندھ سے محبت کرنے والوں کو تسکین ملتی ہے.
جی ہاں! اب تھر بارش کے بعد جنت کی وادی معلوم ہوتا ہے.
لیکن تھر جتنی توجہ چاہتا تھا اتنی توجہ اس کو نہ مل سکی.
جہاں ہر چیز سیاست کی نذر ہوتی ہو، وہاں سندھ دھرتی کی توجہ کو؟ تھر بھی سیاست کی نذر ہوگیا.
بارش کے بعد سیاحوں کےقافلے ہی قافلے تھر کو روانہ ہیں ـ یہ قافلے تو صرف سندھ اور پورے ملک سے آتے ہیں ـ ان کو بھی سہولتیں میسر نہیں. دور کے سیاح خاک آئیں گے.
ملک کے سیاحتی مقامات ملک کی عزت اور نیک نامی ہوتے ہیں.
سندھ حکومت سے مطالبہ ہے کہ تھر کو پکنک پوائنٹ بنانے میں اپنا کردار ادا کرے.
تھر پر تعارفی کتابچے شائع کروائے، جس میں تھر کی تاریخ، رسم ورواج اورآثار قدیمہ کا تفصیلی جائزہ پیش ہو.
ایسے مقامات پر حفاظتی اقدام کرے.
کارونجھر، مٹھی مشہور قلعے اور گوٹھوں کی تعمیراتی کام پر توجہ دے .
سندھ حکومت اپنی اس پکنک پوائنٹ پر توجہ دے کر ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکتی ہے، جس سے سندھ اور پورے ملک کی عزت اور ترقی ہے.

Facebook Comments

نعیم الدین
لکھنے پڑہنے والا ایک ادنی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”تھر ایک پکنک پوائنٹ

Leave a Reply to Engineer Uzair Abbas Cancel reply