• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس: آئی جی کی رپورٹ مسترد، طلبی پر وزیراعلیٰ پنجاب پیش

ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس: آئی جی کی رپورٹ مسترد، طلبی پر وزیراعلیٰ پنجاب پیش

سپریم کورٹ نے ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس میں آئی جی پنجاب کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور دیگر کو آج دوپہر 2 بجے طلب کرلیا جب کہ طلبی پر وزیراعلیٰ پنجاب عدالت پہنچ گئے۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے سابق ڈی پی پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔چیف جسٹس پاکستان نے سابق آئی جی پنجاب موجودہ آئی جی سندھ کلیم امام پر شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے ان کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ مسترد کردی۔چیف جسٹس نے سینیئر پولیس افسر خالد لک کو ڈی پی پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے کے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا اور وزیرعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور احسن اقبال جمیل کو 2 بجے پیش ہونے کا حکم دیا۔یاد رہے کہ سابق آئی جی پنجاب کلیم امام کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی مداخلت انکوائری کے دائرہ اختیار سے باہر قرار دی گئی اور کسی کو قصور وار نہیں ٹہھرایا گیا۔چیف جسٹس نے انسپکٹر جنرل پولیس کلیم امام پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم نے آپ پر اعتماد کر کے رپورٹ تیار کرنے کا حکم دیا تھا لیکن آپ نے بدنیتی سے رپورٹ بنائی، ہم نے لکھ دیا تو آپ پولیس میں نہیں رہیں گے’۔چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ میں سب اچھا کہا گیا، ہم نے معاملے کے سیاسی پہلو کی تحقیقات آپ پر بھروسہ کر کے سونپی لیکن آپ نے ہمارا اعتماد توڑا۔چیف جسٹس نے آئی جی کلیم امام سے استفسار کیا ‘خود بتائیں آپ آئی جی بننے کے اہل ہیں، ایک شخص کو بچانے کے لیے آپ نے پوری پولیس فورس کو تباہ کردیا، احسن جمیل نے کس حیثیت میں ڈی پی او سے وضاحت مانگی، آپ کو رپورٹ لکھتے ہوئے شرم کیوں نہیں آئی’۔چیف جسٹس نے کلیم امام کو بیج اتارنے کا حکم دیا اور کہا کہ ڈی پی او پاکپتن کا رات ایک بجے مشکوک انداز میں تبادلہ ہوا اور آپ کہتے ہیں کچھ ہوا ہی نہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا ‘آپ نے کیا تحقیقات کی، آر پی او اور ڈی پی او کے بیانات آپس میں نہیں ملتے، آپ نے پولیس افسران کو وزیراعلیٰ پنجاب سے ملنے سے کیوں نہیں روکا’۔ اس موقع پر آئی جی پنجاب نے کہا کہ جب مجھے پتہ چلا تو میں اسلام آباد میں تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ اسلام آباد میں تھے کسی دوسرے ملک میں تو نہیں تھے، وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے اپنے سامنے پولیس افسران کو زلیل کروایا، بلوائیں وزیر اعلیٰ پنجاب کو۔چیف جسٹس نے آئی جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کلیم امام آپ کو موقع دیا تھا لیکن آپ نے گنوا دیا، کام ایمانداری سے کیا یا نہیں یہ تعین عدالت کرے گی، اپنے دفاع کے لیے وکیل بھی کرلیں۔جس کے بعد عدالت نے سماعت دوپہر 2 بجے تک کے لیے ملتوی کردی۔

کیس کا پس منظر

Advertisements
julia rana solicitors london

وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا کو ناکے پر روکنے والے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) پاکپتن رضوان گوندل کا تبادلہ کردیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق پولیس نے جمعرات 23 اگست کو خاور مانیکا کو ناکے پر رکنے کا اشارہ کیا مگر وہ نہ رکے، لیکن جب پولیس نے ان کی کار کو روکا تو انہوں نے غلیظ زبان استعمال کی۔ذرائع کے مطابق واقعے کے بعد حکومت پنجاب نے ریجنل پولیس افسر (آر پی او) اور ڈی پی او رضوان گوندل کو جمعہ 24 اگست کو طلب کیا۔پولیس ذرائع کے مطابق اس موقع پر ڈی پی او رضوان گوندل کو خاور مانیکا کے ڈیرے پر جاکر معافی مانگنےکا حکم دیا گیا، تاہم ڈی پی او رضوان نے یہ کہہ کر معافی مانگنے سے انکار کردیا کہ اس میں پولیس کا کوئی قصور نہیں۔ذرائع کے مطابق ڈی پی او رضوان کا ٹرانسفر خاور مانیکا کے ڈیرے پر جاکر معافی نہ مانگنے پر کیا گیا۔اس معاملے پر حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے آر پی او اور ڈی پی او کو طلب کرکے دونوں افسران کو معاملہ ختم کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی، تاہم رپورٹ نہ دینے پر انہیں عہدے سے ہٹایا گیا۔معاملہ خبروں کی زینت بننے لگا تو چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس پر ازخود نوٹس لیا اور آئی جی پنجاب کو واقعے کی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی تاہم آئی جی کی رپورٹ میں کسی کو قصور وار نہیں ٹہھرایا گیا۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply