اقوام متحدہ ہر سال بارہ جون کو چائلڈ لیبر کے خلاف عالمی دن مناتا ہے۔ اس کا مقصد دنیا بھر میں 168 ملین بچوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی طرف دھیان مبذول کرانا ہے۔ عالمی ادارہ محنت کے رکن ممالک نے 1999 میں ایک کنوینشن منظور کیا تھا، جس میں چائلڈ لیبر کی انتہائی بری اقسام کی شدید مذمت کی گئی تھی۔ اس کنوینشن کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر کا ہر فرد بچہ تصور کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک میں پانچ سے سترہ برس کی عمر کے بچوں کی دس فیصد تعداد باقاعدہ بنیادوں پر چائلد لیبر کرتی ہے۔ عالمی ادارہ محنت کی 2013 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق چائلڈ لیبر کرنے والوں میں سے پچاس فیصد سے زائد کو انتہائی برے حالات کا سامنا ہوتا ہے۔ انہیں رات گئے تک لمبے اوقات تک کام کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے بہت سے بچے بغیر کسی کانٹریکٹ اور ملازمین کو ملنے والے فوائد کے بغیر ہی مزدوری کرتے ہیں۔
آئی ایل او کے تخمینوں کے مطابق دنیا کی سب سے بڑے جمہوری ملک بھارت میں 78 ملین بچوں سے ناجائز مزدوری کا کام لیا جاتا ہے جبکہ بھارتی حکومت کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق جنوبی ایشیا کے اس اہم ملک میں 12.6 ملین بچے چائلڈ لیبر کرتے ہیں۔ یہ بچے سڑکوں میں ٹھیلے لگانے کے علاوہ درزی، باورچی خانوں، ریستورانوں میں صفائی ستھرائی اور وزن اٹھانے کے علاوہ بھٹیوں میں بھی کام کرتے ہیں۔ بالغوں کے مقابلے میں ان بچوں کو اجرت بھی کم دی جاتی ہے یعنی اگر ایک کام کا معاوضہ ایک بالغ کو ایک روپے دیا جاتا ہے تو اسی کام کے ایک بچے کو صرف 33 پیسے دیے جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں بھی چائلڈ لیبر کی شرح انتہائی بلند ہے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے مطابق جنوبی ایشیا کی اس ریاست میں تقریباﹰ پانچ ملین بچے ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ انتہائی برے حالات میں تیار کیے جانے والے یہ کپڑے ترقی یافتہ ممالک میں فروخت کیے جاتے ہیں۔اگرچہ سال 2000 کے بعد عالمی سطح پر مشقت کرنے والے بچوں کی تعداد کم ہوئی ہے تاہم کئی ایشیائی ممالک بالخصوص بنگلہ دیش، افغانستان، نیپال، کمبوڈیا اور میانمار میں ان معصوم بچوں کی صورتحال تاحال خستہ ہی ہے۔ مختلف ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے فنڈز فراہم کیے جانے کے باوجود ترقی پذیر ممالک میں بچوں کی جبری مشقت کا سلسلہ آج بھی جوں کا توں ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بچوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 20 کروڑ کی آبادی والے ملک پاکستان میں ایک کروڑ سے زیادہ بچے چائلڈ لیبر ہیں(ان ایک کروڑ بچوں میں وہ بچے شامل نہیں ہیں جو گھریلو ملازم کہلاتے ہیں)۔ چائلڈ لیبر بچوں کی ایک کثیر تعداد ملک کے مختلف شہروں کے مختلف مقامات میں ہوٹلوں، کارخانوں، ورکشاپوں، گھروں اور صنعتی مراکز پر کام کرتی ہوئی پائی جاتی ہے۔ یہ بچے مستقبل کے معمار ہیں جنہیں ان کے والدین معاشی مجبوریوں کے وجہ سے گروی رکھ کر رقوم وصول کرتے ہیں۔ موثر قانون نہ ہونیکے باعث جبری مشقت لینے کےلیے بچوں پر تشدد بھی کیا جاتا ہے۔
بھٹوں پر بچوں کی مشقت کے خلاف قانون موجود ہے اس پر عملدرآمد نہیں کرایا جاتا۔ اکثر بھٹے دور دراز مقامات پر واقع ہیں جہاں ہونے والے ظلم و تشدد کے واقعات کا کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا۔ غریب لوگ معاشی حالات سے مجبور ہو کر امیر اور اثرورسوخ رکھنے والے لوگوں اور بھٹہ مالکان کے پاس اپنے بچے فروخت کردیتےہیں۔انسانیت کی سوچ سے عاری یہ خریدار نہایت سنگدل ہوتے ہیں اور پولیس کی زبان بندی بھی ان کیلئےکوئی مشکل کام نہیں ہے۔
چائلڈ لیبر پر ہونے والے ایک سیمینار میں ایک اعلیٰ عہدیدار نے اپنے خطاب میں اقرار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک مافیا سرگرم ہے جو کہ یتیم اور لاچار بچوں سے جبری طور پر بھیک منگوانے کا کام لیتا ہے جو کسی بھی تہذیب یافتہ معاشرے کے لیے انتہائی شرم ناک عمل ہے ۔آمنہ بھٹی صرف دس برس کی تھی جب اس نے اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنا شروع کیا، اسے کام کرتے ہوئے پچاس برس گزر چکے ہیں، اس کے والدین نے اینٹوں کے بھٹے کے مالک سے رقم ادھار لی تھی اور وہی بوجھ اتارتے اتارتے اسے نصف صدی گزر چکی ہے۔ اس پر ڈھائی لاکھ روپے کا قرضہ تھا اور ابھی تک وہ صرف ایک لاکھ روپے واپس کرپائی ہے۔ بارہ برس قبل اس کے شوہر کا انتقال ہوا تب پھر اس نے اپنے آجر سے مزید رقم ادھار لے لی۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ دس سال کی عمرسے جبری مشقت کرنے والی آمنہ بھٹی شاید زندگی بھر قرضے سے نجات نہ پاسکے گی۔
اقوام متحدہ کی عالمی تنظیم کے 1989 کے کنونشن کے تحت پاکستان اس بات کا پابند ہے کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک کمیشن تشکیل دے، ان کی شکایت کے ازالے کے لیے علیحدہ محتسب بنائے، بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے سرمایہ کاری میں اضافہ کرے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک میں بچوں کی جبری مشقت کے حوالے از سرنو قانون سازی عمل میں لائے، 18 سال سے کم عمر کے بچوں کی جبری مشقت پر فوری طور پر پابندی عائد کرتے ہوئے ملک میں بیروزگاری اور غربت کے خاتمے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات اٹھائے۔ بچوں کے بنیادی حقوق اور ان کی بہتر تعلیم و تربیت یقینی بنانا ریاست کی زمہ داری ہوتی ہے۔ غریب عوام اپنے بچوں کو جبری مشقت کے ہاتھوں دینے پر مجبور ہیں۔ جس کی سب بڑی وجہ ملک میں غربت اور بیروزگاری ہے، بدقسمتی سے اس ملک کے حکمرانوں کو بچوں سے جبری مشقت لیے جانے پر کوئی پشیمانی نہیں ہے، اس لیے ہی بچوں سے جبری مشقت لیے جانے کو ختم کرنے میں ان کو کوئی دلچسپی نہیں ہے جبکہ ان بچوں کو لکھنے پڑھنے کےلیے اسکول جانا چاہیے۔
بچے کسی بھی معاشرے میں انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ بچوں کے بہتر مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی تعلیم و تربیت اور صحت مندانہ ماحول کی فراہمی ریاست کا اہم اور پہلافریضہ ہے۔ بچوں کے روشن مستقبل کا حصول اسی صورت ممکن ہے جب حکمران اپنی ذمہ داریوں کا احساس رکھتے ہوئے نئی نسل خصوصاً بچوں کے مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے پالیسیاں مرتب کریں۔اب چونکہ پوری دنیا میں چائلڈ لیبر یعنی بچوں سے جبری مشقت کے خلاف بیداری آگاہی مہم پیدا ہوچکی ہے، اس کی وجہ سے لوگ اس اہم مسئلے پر ہر سطح پر آواز اٹھا رہے ہیں، لہٰذاپاکستان کےحکمرانوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان کو ملک سے چائلڈ لیبر یا جبری مشقت کوجلد از جلد ختم کرنا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں