انعام رانا کے نام اک خط

پیارے انعام بھائی،
خط کے آغاز میں ہی ہم نے آپ کو پیارے بھائی کہہ ڈالا۔ آپ اس سوچ میں ہوں گے کہ آگے کی باتوں کی صداقت پر کیسے یقین کیا جائے؟ بس اس بات کا یقین کامل رکھیں کہ چھوٹے بھائی جیسے بھی ہوں بہنوں کو بہت پیارے ہوتے ہیں۔
آپ کا پیغام چند روز قبل موصول ہوا۔ اوپر کچھ ڈائیلاگ ٹائمز لکھا تھا اور لگتا تھا کہ متن میں ایک انگریزی تحریر ہے۔ ساتھ فرمائش تھی کہ
For your consideration and feedback
مشکل یہ آن پڑی کہ تحریر زبان غیر میں تھی اور وہ زبان غیر جو ہمیشہ سے ہمیں بہت ہی غیر لگتی ہے۔ پہلے تو لگا کہ شاید آپ کی تحریر رستہ بھول کر ہمارے انباکس میں آ گئی ہے۔ کافی دیر تک اس بات کے منتظر رہے کہ ابھی آپ کی جانب سے تردید آئی کہ آئی، کہ لفافہ غلطی سے آپ کی چوکھٹ پر آن گرا ہے، اس پر توجہ نہ دیں۔ پر تمام خواہش کے بعد یہ ہو نہ سکا۔ پھر ظاہر ہے چارہ یہی ہے کہ ہم زبان مانوس میں آپ کو جواب دے دیں۔
تو بھیا جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ انگریزوں کو گئے ہوئے زمانہ بیت گیا پر کم بخت انگریزی کو دیس نکالا نہ مل سکا۔ اگلوں کو کام پورا کرنا چاہیے تھا۔ ہمارے پرکھوں کی لاپرواہی کی سزا ہمیں کیوں ملے۔ اب ذرا کہیے یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ انگریزی میں لکھی تحریر کے بارے میں ہم سے ہماری رائے مانگی جا رہی ہے۔ واہ رے رب تیری قدرت، اور واہ رے انعام میاں، تیری غلط فہمیاں۔ ہم تو بمشکل الف اور ب کو ہی الٹا سیدھا جوڑ کر اردو میں کچھ لکھ پاتے ہیں۔ اور اہل زبان ہماری تحریر پڑھ کر آٹھ آٹھ اور بعض اوقات سولہ سولہ آنسو بہاتے ہیں۔ اس پر آپ کی ہمت کی داد دینی پڑے گی کہ اردو کے افق سے پرے انگریزی مضمون پر ہم سے نہ صرف رائے مانگی گئی بلکہ اس پر سوچ و بچار کرنے کو بھی کہا گیا۔ اس سے اور کچھ نہیں تو یہ ثابت ہو گیا کہ آپ کسی بھی خطرے میں آنکھیں بند کر کے کودنے کا حوصلہ رکھتے ہیں پر اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ آپ دیار فرنگ میں رہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ان سے آپ کو شکایات ہوں پر یہ طریقہ کار بھی ہمیں کوئی مناسب نہیں لگ رہا کہ اپنے بدلے نکالنے کے لیے سیدھا ان کی زبان پر حملہ آپ ہم سے کروانے کے متمنی ہیں۔ بھئی اپنی بندوق اپنے ہی کندھے پر رکھ کر چلائیں۔ ہم تو کہیں گے کہ اپنے جذبات ایک طرف رکھ کر اب پردیس کو ہی اپنا وطن سمجھیں اور اپنے دل میں فاسد خیالات نہ آنے دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ کے پیغام کا مدعا تو ہمیں یہی سمجھ آیا کہ آپ ایک نامعقول محاورے کے تناظر میں انگریز کی ہمشیرہ اور والدہ کو یکجا کرنے کے خواہاں ہیں۔ پر اس ضمن میں ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم تو لکھتے ہی ان دو کے حقوق کے لیے ہیں، ان پر ستم ڈھانے میں معاون کیسے ہوں۔ ہم پھر یہی مشورہ دیں گے کہ فرنگیوں کے خلاف اس جہاد کا بیڑا نہ ہی اٹھائیں۔ یوں بھی ہمارے یہاں یہ کام کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ آپ کون سا پاکستان میں ہیں کہ جو جی چاہے کہہ ڈالیں۔ اگر کسی انگریز کو زبان و بیان پر اس فوج کشی کی وجہ سے بغاوت کا شک پڑ گیا تو کہیں غدر کی یاد میں پھر سے توپیں چل جائیں۔ سنا ہے توپوں کے دہانے پر باغی رکھ کر توپ چلاتے تھے۔ اللہ جانے اس میں کیا حکمت تھی۔
بہرحال ہم نے اپنی سی سعی کی کہ کھود کر کہیں سے کوئی فیڈ بیک برآمد یا درآمد کر لیں پر یہ فیس بک، میسنجر وغیرہ بھی ان ہی کمبختوں کی ایجاد ہے۔ شاید انہیں نے خطرے کو دور سے بھانپ لیا تھا اس ہی لیے آپ کا پیغام سرے سے کھلا ہی نہیں ورنہ ہم کہیں فیڈ بیک دے ہی نہ دیتے ۔ بس آخر میں ہم یہ ہی کہیں گے کہ جب جب جو جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہی ہوتا ہے۔ پر ہمارا آپ سے وعدہ ہے جس دن یہ پیغام کھل گیا اس روز انگریزوں کا اور انگریزی کا خدا حافظ تو ہو ہی جائے گا۔
سدا خوش رہیے ۔
نوٹ: محترمہ لینہ حاشر معروف مصنفہ ہیں اور انکے لکھے خطوط انکی وجہ شہرت ہیں۔ ہماری انگریزی سائیٹ “ڈائلاگ ٹایمز” کے سلسلے میں ان سے لکھنے کی درخواست کی، جسکے جواب میں انھوں نے یہ خط بھیجا۔ ان کا یہ خط انکی بندہ پروری بھی ہے اور ایک اور شاہکار خط بھی۔ اردو ادب میں غالب کے خطوط معروف ہیں۔ ویسی ہی ندرت، نیرنگی خیال اور بذلہ سنجی لیے ہوے لینہ کے خطوط ہیں۔ اردو ادب میں اس بیش بہا اضافے پر لینہ کو ” لیڈی غالب” کہا جایے تو غلط نا ہو گا۔ بہرحال اس محبت پر اپنی بہن کا ممنون ہوں۔ یہ مضمون بشکریہ “ہم سب” شائع کیا جا رہا ہے۔ انعام رانا

Facebook Comments

لینہ حاشر
خوبصورت آنکھوں سے خوبصورت خواب دیکھتی ہوئی لینہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 4 تبصرے برائے تحریر ”انعام رانا کے نام اک خط

  1. انگریزی فرنگی لائے تو اردو بھائی صاحبان لائے ہیں تو دونوں باہر کی زبانیں اردو کی ضد نے ہی خیر سے آدھا ملک گنوایا

  2. بہت خوب الفاظ شاھد ہیں کہ لکھنے والی کمال کا ذوق دل میں چھپائے ہوئے ہے…..

Leave a Reply to Anwar Chaudhary Cancel reply