پانی کی قلت اور ہماری ترجیحات

پانی قدرت کی عطاء کردہ عظیم ترین نعمت ہے۔پانی زندگی کی علامت ہے۔زندگی کا وجود برقرار رکھنے کے لیے بنیادی نعمت اور زمین پر تمام مخلوق کی بقاء کا ضامن ۔اللہ تعالی ٰنے فرمایا میری نعمتوں کا شکر ادا کرو۔قدرت نے ہمارے ملک پاکستان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ۔ہماری ضروریات زندگی کی ہر شے وافر مقدار میں موجود ہے۔مگر اپنی کوتاہ بینی اور نا عاقبت اندیشی کی بناء پر وسائل کو ضائع کرنے میں مصروف ہیں ۔ہمارے دین کی تعلیمات کے مطابق اللہ کی عطاء کردہ نعمتوں کے بے جا اسراف سے منع کیا گیا ہے۔فرمان نبوی ؐہے کہ وضو کے وقت بھی پانی کے بے جا اسراف سے اجتناب برتنا چاہیے ۔مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں لاکھوں کیوسک میٹر پانی ضائع ہو رہاہے ۔اور ہم لاپرواہی سے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں ۔
پانی کے نئے ذخائر تعمیر کرنا ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں ۔جبکہ وافر پانی موجود ہونے کے باوجود تحریر اور چولستان میں جانور اور انسان ایک ہی جگہ پر پانی سے پیاس نبھاتے ہیں ۔مضرصحت پانی کے کارن معصوم بچے زندگی کی بازی ہار رہے ہیں ۔اور ہم محض تماشائی بن کر تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔صاف پانی کی شدید قلت ہے طرفہ تماشا دیکھئے کہ لوگ پانی کے لیے ترس رہے ہیں ۔اور ہم قدرت کا عطا کردہ بیش قیمت پانی سمندر میں نیا کر ضائع کرنے میں مصروف ہیں ۔حکمرانوں کی ترجیحات کا تعین رائے عامہ طے کرتی ہے۔ہمارے ملک میں آمریت کے دور میں پانی کے ذخائر تعمیر ہوئے جن سے نا صرف لاکھوں ایکڑ رقبہ سیراب ہوا بلکہ سستی ترین بجلی بھی حاصل ہوئی ۔ملک میں بجلی کی پیداوار کا سستا ترین ذریعہ بھی پانی کے ڈیمز کی تعمیر کا مرہون منت ہے۔اس کے بعد عشرے گزر چکے کسی حکمران کی ترجیحات میں ڈیمز کی تعمیر شامل نہ ہو سکی ۔کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے پرویز مشرف کی حکمرانی کے دوران ایک کثیر المقاصد ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ 2006 میں پیش ہوا۔دیامیر بھاشا ڈیم جوکہ 4500 Me بجلی کی پیداوار کے ساتھ ساتھ 85 لاکھ ایکڑ فیٹ پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کا حامل تھا۔اس وقت اس منصوبے کی لاگت 14بلیں ڈالر تھی اور 12 سال کی مدت میں یہ عظیم منصوبہ مکمل ہونا تھا۔بدقسمتی سے ابھی تک اس منصوبے پر کام کا آغاز ابھی تک نہیں ہو سکا۔جبکہ دو بار اس کا سنگ بنیاد رکھا جا چکا ہے۔2011 میں یوسف رضا گیلانی بھی اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ چکے ہیں ۔
جبکہ زمینی حقائق کے مطابق یہ منصوبہ بھی ترجیحات میں شامل نہیں ۔پانی کی زیر زمین سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے۔زرعی ملک ہونے کے ناطے ہماری معیشت کا تمام دارومدار پانی کی وافر دستیابی پر ہے۔ملک کے تمام دانشور طبقات بھی پانی کی کمیابی سے غافل لایعنی مسائل میں الجھے ہیں ۔مذہبی طبقے اپنے فروعی مسائل اور مسلک کی جنگیں لڑنے میں مصروف ہے ۔آج تک مذہبی رہنماؤں نے عوامی مسائل کے حل کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا۔لبرل طبقہ کے دانشور بھی ڈولفن مچھلی کے جنسی استحصال اور ناں ایشوز پر اپنی دانش کے موٹی بکھیر رہے ہیں ۔جبکہ مستقبل میں پانی کےحصول کے لیے جنگیں لڑی جائیں گی۔انسانیت کی بقاء ملکی معیشت اور اقتصادیات کی ترقی کے لیے تمام طبقے کے دانشوروں کو ڈیمز کی تعمیر کو اپنی ترجیحات میں اولین جگہ دینی ہو گی ۔حکمرانوں کی ترجیحات کا تعین عوامی رائے عامہ سے کرنا ہو گا۔
قوم کے ہر فرد کو پانی کی قلت کو دور کرنے کے لیے شعور اور آگاہی کی مہم کا آغاز کرنا ہو گا۔اسی میں ہماری اور آئندہ آنے والی نسلوں کی بقاء ہے۔ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ آج کے دن سے حکمرانوں کو مجبور کرنا ہو گا ۔دیامیر بھاشا ڈیم جیسے منصوبے حکمرانوں کی ترجیحات میں سرفہرست ہونے چاہیے ۔اس کے لیے سب کو ایک ساتھ مل کر جدوجہد کرنی ہو گی ۔سوشل میڈیا پر بھر پور آگاہی مہم کا آغاز آج ہی سے کیا جائے تا کہ ہمارا آنے والا کل ہمارے آج سے بہتر ہو۔

Facebook Comments

مرزا شہبازحسنین
علم کا متلاشی عام سا لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”پانی کی قلت اور ہماری ترجیحات

Leave a Reply