ٹرمپ سے خوف زدہ نہ ہوں

طاہر یاسین طاہر
خوف انسا ن کی ظاہری و باطنی صلاحیتوں کو زنگ آلودہ کر دیتا ہے۔یہ کلیہ ایک فرد سے لے کر کسی قوم ،ملک اور معاشرےتک پہ یکساں لاگو ہوتا ہے۔خوف زدہ کوئی فر دہو یا معاشرہ،کوئی قوم ہو یا ملک،دوسروں کا دست نگر ہو کر رہ جاتا ہے۔دنیا امریکہ کے نئے صدر ٹرمپ سے خوف زدہ ہونے کے بجائے اس کی سیاسی جارحیت کا سیاسی تدبر سے سامنا کرے۔ایسا ہو جائے تو ٹرمپ امریکی تاریخ کا غیر مقبول ےترین صدر ہو گا۔یہ پیش گوئی نہیں تجزیہ ہے۔
امریکہ اپنے عہد کے انتہائی ہنگامہ ساز صدارتی انتخابات سے گذر کر بالآخر وائٹ ہاوس کے لیے ایک ’’فری سٹائل باکسر‘‘ صدر منتخب کر چکا ہے۔اس پہ سالوں بحث ہوتی رہے گی کہ ٹرمپ نے تعداد میں کم ووٹ لے کر بھی سیٹ کیسے جیت لی؟ہیلری بھی ایف بی آئی کو اپنی شکست کا ذمہ دار قرار دیتی رہیں گی مگر تسلیم شدہ حقیقت یہی ہے کہ ہیلری نے ٹرمپ کو صدر منتخب ہونے پر نہ صرف مبارک باد پیش کی بلکہ امریکہ کے مفاد اور مضبوطی کے لیے مل کر کام کرنے کا عہد بھی کیا۔یہ امریکی سیاست کا روشن پہلو ہے جسے نظر انداز کر نا زیادتی ہوگی۔دنیا نے مگر یہ بھی دیکھا کہ مطلوبہ الیکٹورل ووٹ لے کر منتخب ہونےو الے ٹرمپ کے خلاف پر تشدد مظاہرے بھی ہوئے ،جن کے بارے ٹرمپ نے کہا کہ یہ نا انصافی ہے اور عوام کو ٹرمپ مخالفت پر میڈیا اکسا رہا ہے۔ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جو جارحانہ بیان بازی کی تھی غالب امکان ہے کہ وہ اس حوالے سے عملی اقدامات بھی اٹھائیں گے۔،خبر ہے کہ ٹرمپ حلف اٹھاتے ہی 30لاکھ غیر قانونی تارکین وطن کو امریکہ بدر کر دیں گےاور کئی ایک کوجیل میں ڈال دیں گے۔ یہ درست ہے کہ امریکی معاملات صرف وائٹ ہاوس ہی نہیں چلاتا بلکہ واشنگٹن،نیویارک،کانگرس اور وائٹ ہاوس پر اثر انداز ہونے والی یہودی لابی سمیت امریکی تھینک ٹینکس کی رپورٹس مل کر حکمت عملی طے کرتے ہیں اور وائٹ ہاوس کا مکین ان فیصلوں پر تصدیقی مہر ثبت کرتا ہے۔
امریکہ ایک تسلیم شدہ عالمی طاقت ہے،دوسرے ملکوں،اور خطوں میں اس کے عیاں و پنہاں،سیاسی،معاشی اور عسکری مفادات ہیں۔کوئی بھی طاقت ور اپنی طاقت کو کم ہوتا یا اسے چیلنج ہوتا برداشت نہیں کر سکتا۔امریکہ بھی اسی عمومی نفسیات کا شکار ہے اور وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ اسے معاشی،سیاسی یا عسکری حوالے سے دنیا کا کوئی ملک چیلنج کرے۔یہاں تک کہ اقوام عالم کے حوالے سے ہونے والے فیصلوں میں بھی کلیدی کردار امریکہ کا ہی ہوتا ہے۔بارہا ایسا ہوا کہ امریکہ نے ایسے فیصلوں کو ویٹو کر دیا جو اس کے یا امریکہ کے اتحادیوں کے مفادات کے خلاف ہیں۔یہ طاقت کے اظہار کا ایک طریقہ ہے جو سیاسی ہے۔
افغانستان،لیبیا،عراق،شام میں امریکہ اپنی عسکری طاقت کا اظہار کسی اور طریقہ سے کر رہا ہے اور دنیا کے کئی ایک ممالک پر معاشی پابندیاں عائد کر کے امریکہ اپنی معاشی طاقت کو ظاہر کر چکا ہے۔ان معاشی و سیاسی پابندیوں کا پاکستان بھی شکار ہوا ہے۔ایران بھی امریکہ اور اس کے یورپی و دیگر اتحادی ممالک کی معاشی پابندیوں کا شکار رہا ۔یمن اور پاکستان پر ڈرون حملوں کے ذریعے امریکہ اپنی عسکری طاقت کو یہاں بھی ظاہر کر چکا ہے۔ایبٹ آپریشن اس کی ایک اور بھیانک مثال ہے۔اتنی طاقت اور دبدبہ کے باوجود امریکہ کو یہ خوف ہے کہ چین نہ صرف خطے،بلکہ دنیا کی ایک ایسی ابھرتی ہوئی طاقت ہے جو آگے چل کر امریکہ سے اس کا سپر پاور کا سٹیٹس چھین لے گا۔دنیا میں امریکہ مخالف جذبات میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے،جبکہ امریکہ اپنی پالیسیوں کے باعث جن دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جنگ کے لیے نیٹو اور پاکستان کو لے کر نکلا ہوا ہے،دنیا کے بعض خطوں میں ان ہی دہشت گرد تنظیموں کو نہ صرف مضبوط کر رہا ہے بلکہ داعش جیسی نئی دہشت گرد تنظیمیں بھی امریکی اولاد ہی ہیں۔مجھے اس امر میں کلام نہیں کہ دنیا کے ممالک ہمیشہ اپنے مفادات کو ہی دیکھتے ہیں،عالمی سیاست کا یہ اصول کمزور و طاقت ور،سب کو اپنے تابع کیے ہوئے ہے۔
مجھے اس امر میں بھی کلام نہیں کہ سفارت کاری اور عالمی و مقامی سیاست و تعلقات کا میں ماہر نہیں ،نہ ہی میں کوئی دفاعی و ’’جارحانہ‘‘ تجزیہ کار ہوں۔مگر قوموں اور ملکوں کے تعلقات کا تاریخی مطالعہ ہر صاحب فکر کو نئے زاویے سمجھاتا ہے۔ٹرمپ کے صدر بنتے ہی عالمی سطح پر محکوم ممالک تو ایک طرف،اچھے خاصے ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایک طرح کی خودترحمی کی سی کیفیت ہے۔تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک قدرے زیادہ خوف زدہ ہیں۔بھارت میں البتہ ٹرمپ کی جیت پہ جشن منایا گیا ،جبکہ روس اور شام بھی امریکہ سے ’’پر امید‘‘ ہیں۔ امریکہ کے ڈیموکریٹس،اور ری پبلکن کا اپنا اپنا عالمی سیاسی انداز ہے۔دونوں کے پیش نظر مگر امریکہ کو عسکری،سیاسی اور معاشی و سائنسی حوالے سے مضبوط تر کرنا ہے۔عالمی سیاست کے کسی طالب علم کو اس پر ضرور لکھنا چاہیے۔ وہ خوش فہم اور خوابوں کے سوداگر جو سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کے آتے ہی امریکہ کے ٹکڑے ہو جائیں گے ان کے پاس اپنی خواہش کے حق میں کوئی دلیل اس کے سوا نہیں کہ داعش،القاعدہ اور طالبان ہیں نا!!!امریکہ ہو یا کوئی اور،ہر عروج کو زوال ہے،مگر یہ زوال تدریجی ہوتا ہے۔تاریخ یہی بتاتی ہے۔ہاں البتہ تیسری عالمی جنگ شروع ہو سکتی ہے کیونکہ یہ تدریجی عمل کئی دھائیوں سے جاری ہے۔اس آفت کو سوائے بہترین عالمی سیاسی فیصلوں کے اور کسی طرح نہیں ٹالا جا سکتا۔خوف یا اضطراب اس دکھ کو مزید قریب کر دے گا۔ ہمیں پھر بھی پر امید رہنا چاہیے کہ دنیا بھر کے عدل پسند اور امریکہ کے فیصلہ ساز کوئی انہونی نہیں ہونے دیں گے۔ یہ یاد رہے کہ دنیا کے اضطراب کی وجہ ٹرمپ کی جارحانہ اور غیر متوازن شخصیت ہے،اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ حالانکہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اکیلا ٹرمپ دنیا کو فتح نہیں کر سکےگا جب تک کہ کانگرس ،اقوم متحدہ اور نیٹو کی مکمل حمایت حاصل نہ ہو۔ہاں اس امر میں کلام نہیں کہ ٹرمپ کے وائٹ ہاوس آتے ہی دنیا میں اضطرابی تبدیلیاں ضرور آئیں گی۔امریکی انہدام اور عالمی جنگ شاید اگلی نسلیں دیکھ پائیں ہم نہیں۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply