جنت میرے اجداد کا گھر ہے

انسان نے ہمیشہ اپنے سے برتر ہستی کاوجود تسلیم کیا ہے۔پھر اُس کے متعلق طرح طرح کی خیال آرائیاں کی ہیں۔جتنی زبانیں اتنے ہی اُس کے نام ہوئے۔وقت کے ساتھ ساتھ انسان کاخُدائی تصور ترقی کی منزلیں طے کرتا گیا۔مناجات کے علاوہ بے شمار منطقی سوالات بھی انسان نے اپنے خُدا سے اور خُدا کے لیے اُٹھائے ہیں۔ایک عام دماغ کے مقابلے میں ہمیشہ عالی دماغوں نے ہی اس بھاری پتھر کو اُٹھایا ہے۔انسان خُدا سے ہمکلام رہا اور خُدا انسان سے۔عدم سے پہلے کیاتھا؟کیاعدم کی سرحد کسی نے پار کی ہے۔؟غالب نے اس مسئلے کو مزید یوں سُلجھایا۔
نہ تھا کچھ تو خدا تھا،کُچھ نہ ہوتا تو خُدا ہوتا
ڈبویامُجھ کو ہونے نے ،نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا؟

خُدا ِواحد کا تصور سامی اقوام سے پہلے اور علاوہ کئی دوسری اقوام میں بھی موجود رہا۔انسان نفسیاتی اعتبار سے کمزور واقع ہوا ہے۔خداکے تصورنے اُسے حوصلہ اور راحت دی۔شدید کرب میں انسان نے خداہی کوپکارا اور اُلجھنوں میں اُسے یاد کیا۔ہزار کمزوریوں کے باوجود اس نے خود کو برتر ثابت کرنے کے لیے جہد مسلسل سے گُزرااور اس کوشش میں سُرخرو بھی ٹھہرا ۔۔یوں اشرف ہونے کااعزاز پایا۔اپنی اس عظمت کا احساس انسان کو ہمیشہ سے رہا ہے۔احمدندیم قاسمی نے اپنی ایک نظم ”انسان عظیم ہے خُدایا“میں عظمت انسانی کے اسی احساس کو زندہ کیا۔
اُس نے تجھے عرش سے بُلایا،
انسان عظیم ہے خُدایا،
تُو جیسا اَزل میں تھا سو اَب ہے،
وہ اِک مسلسل اِرتقاء ہے،
ہر شے کی پَلٹ رہا ہے کایا،
انسان عظیم ہے خُدایا،

اقبال کو انسان ملائک سے افضل لگا مگر منزل انسانیت محنت طلب ہے۔
فرشتوں سے بہتر ہے انسان ہونا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ۔
خُداکے عظیم تصور کے ساتھ ہی جنت اور دوزخ کا تصور بھی انسان کے ہاں قدیم ہے۔الہامی نصابوں کے مطابق انسان بُنیادی طور پہ جنت کا باسی تھا وہاں ہر طرح کی آسائشوں سے مُستفید تھا۔پھر وہاں اک غلطی کرنے کی پاداش میں سیارہ زمین پر اُتارا گیا۔جنت کا مُتضاد جہنم ہوا۔انسان کے تمام خُوبصورت ترین تخیل کی آخری حد جنت ہے اور بدترین جہنم۔نیکی کاتمام ترصلہ کوثر و تسنیم والی جنت ہے جبکہ بُرائیوں کانتیجہ جہنم کے گہرے غار جہاں گرم آگ،بدبُو اورگندگی ہے۔

کہاجاتا ہے دُنیا کی عیاشیوں میں مگن انسان دراصل اپنے لاشعور میں موجود جنت کی اُس حسین دُنیا کی تلاش میں ہے جو اُس کے دادا حضرت آدم کی تھی۔خُداکے انسانوں نے مجازی اور حقیقی ہر دو طرح کے رنگوں و اصطلاحوں میں اپنے قدیم مسکن (جنت) کو یاد رکھا۔
سُنتے ہیں جو ”بہشت“ کی تعریف سب درست
لیکن خُدا کرے وہ تیرا جلوہ گاہ ہو۔
کیاہی رضوان(داروغہ جنت) سے لڑائی ہو گی۔
گھرتیرا خُلد میں ،گریاد آیا!

غالب ہی کے نزدیک جنت کے باغات جنھیں آدم بھُول سے چھوڑ آئے تھے اور واعظ جس کی بار بار تعریف کر رہا ہے۔اَب ہمارے لیے کسی طاق میں رَکھے اُس گلدستے کی مانند جسے بھول سے ہم رکھ آئے مگر اب کبھی کبھی یاد آتا ہے۔
ستائش گر ہے زاہد اِس قدر جِس ”باغ رِضواں“کا
وہ اِک ”گُل دستہ“ہے ہم بے خودوں کے طاق نسیاں کا

کہتے ہیں جنت کے پاکیزہ ماحول میں آٓدم کی عظمت کو دیکھ کر ابلیس برداشت نہ کرسکا اور بہکا دیا۔ابلیس کی اس طاقت پہ حضرت انسان نے ہر طرح کی خامہ فرسائیاں کی ہیں۔مسئلہ جبر وقدر میں حضرت انسان کے نمائندوں نے اُس کی بے اختیاری اورمعصومی پہ اپنی بے گناہی کاسخت دعوی ٰکیااقبال نے بھی کہا۔
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا،
یااپنا گریباں چاک یادامن یزداں چاک!

کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے۔
بات کہنے کی نہیں تُوبھی تو ہرجائی ہے۔
آخر ابلیس کو خُدا کے عظیم بندوں کو بہکانے کی طاقت کہاں سے ملی؟کیا جنتوں میں ابلیسوں کا گُزر ہوتا ہے۔؟جاویدنامہ کی نظم زندہ رُود میں ابلیس اس کی وضاحت یوں کرتا ہے۔
درگذشتم از سجود از سجود اے بے خبر
ساز کردم ارغنون ِخیر و شر!
یعنی اے بے خبر میں نے (انسان کو)سجدے سے انکار کیا اور یوں میں نے خیرو شر کے سازوں کو نغمہ نکالنے کے لائق بنا دیا۔تُو (انسان)مجھ پر اس انکار کا الزام لگا رہا ہے۔حالانکہ تو اس کی حقیقت سے بے خبر ہے۔اگر میں آدم کو گمراہ نہ کرتا تو وہ بھی فرشتوں کی طرح خیر ہی خیر ہوتا جس کے باعث دنیا اس رونق سے محروم رہتی جو آج اس خیر و شر کی باہمی تکرارکے نتیجے میں پیدا ہو رہی ہے۔

تانصیب از درد ِآدم داشتم
قہر ِیار ازبہر او نگذاشتم
مراد چونکہ میں آدم کے درد کا حصہ دار ہوں یعنی دردسے آگاہ ہوں،اس لیے میں نے یار(خدا)کاغضب آدم کے لیے نہ چھوڑا،خود اپنے سر لے لیا۔

زشتی ِ خود را نمودم آشکار
باتو دادم ذوق ِ ترک و اختیار
میں نے اپنی بدی کو واضح طو ر پہ ظاہر کردیا۔اس طرح میں نے انسانوں کو اختیار اور ترک کاذوق دے دیا۔میری اس سرکشی نے تجھے (انسانوں کو)کسی چیز کے ترک کرنے یا اختیار کرنے کا شعور دیاہے۔
اقبال کو اپنے جد اعلیٰ حضرت آدم کا جنت سے حکم سفر یاد ہے۔
باغ بہشت سے مُجھے حکم سفر دِیا تھا کیوں؟
کار جہاں دراز ہے اَب میرا نتظار کر!

روز حساب جب میرا پیش ہو دفتر عمل،
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر!
حضرت انسان نے جنت کی خُوبصورت فضا میں بھُول کر ڈالی ۔۔جنت ہمیشہ معمور اور بھرپور زندگی کا نام ہے۔مگر انسان دُنیا میں زندگی کی سخت و پُر تعیش زندگی کے لیے ابھی تک جہد مسلسل میں مصروف ہے۔کیا انسان کے بے چین وجود اورتخیل میں جنت بھی کوئی اُکتا دینے والی جگہ ہو سکتی ہے؟۔
تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دُنیا نہ وہ دُنیا
یہاں مرنے کہ پابندی وہاں جینے کی!

آدم حضرت انسان کے جد اعلی ٰ تھے اور وہ دادا کی وراثت کا دعویدار ہے۔
چلاجاؤں جنت میں مگر،یہ سوچ کر چُپ ہوں
میں آدم ذات ہوں مُجھے بہک جانے کی عادت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بہک کر باغ جنت سے چلا آیا تھا دُنیا میں ،
سُنا ہے اُسی جنت کی پھر سے دعوت ہے،
بروز محشر بے خوف چلاجاؤں گا جنت میں،
وہاں سے آئے تھے آدم،وہ میر ے باپ کا گھر ہے!

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply