ہمارے ہاں کی جمہوریت

یہ بات تو تقریباً غیر متنازع ہے کہ آمریت (dictatorship ) میں قوم کا مزاج بگڑجاتا ہے اور ریاست کی اولین ترجیح زیادہ اور “اندھے” فالورزپیدا کرنا قرار پاتی ہے جس کی وجہ سے بظاہر بہتر سڑکیں اور پل (physical infrastructure )کی بہترین ترقی کے باوجود قوم ذہنی افلاس اور فکری بانجھ پن کا شکار ہو جا تی ہے- یہی عرب بہار کے بعد والے لیبیا، سعد برے کے بعد والے صومالیہ اور صدام حسین کے بعد والے عراق کا مسئلہ ہے- آمریت کے ہوتے ہوئے بظاہر اقتصادی اور سماجی اعشاریے، ڈکٹیٹروں کے مجسمے زمین بوس ہوتے ہی زیر زمین انار کی ابل پڑتی ہے جو کہ اصل میں متبادل قیادت کے موجود نہ ہونے کا اعلان کرتی ہے۔

مملکت خداداد میں بظاہر جمہوریت ہوتے ہوئے بھی تقریباً عملی طور پر نتائج آمریت والے ہی ہیں اور چند استشنائی صورتوں کوچھوڑکر اکثر سیاسی پارٹیوں میں نظریات کی جگہ افراد سے وفاداری ہی سیاسی کیرئیر کے لوازمات ہیں۔ جب حالت یہ ہو تو سیاسی جماعتوں کو کارکن کم اور مقلد، بلکہ اندھے مقلدین کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے اور غیر مشروط اطاعت ہی “جمہوری ثمرات” سمیٹنے کےلیے لازمی سیڑھی تصور کی جاتی ہے۔خدارا،نوجوان نسل کو سوچنا چاہیے کہ ہمیں اس معاشرےکو کس سمت لے کر جا نا ہے ۔۔کیونکہ ریاست معاشرے کی ہی ارتقائی شکل ہے اور جمہوری رویوں کے بغیر جمہوری اور باہمی برداشت والے معاشرے کی تشکیل دیوانے کا خواب ہی ہے جس کے عملی مظاہر ہم اپنے اردگرد روز دیکھتے ہیں۔

سیاسی پارٹیوں میں دوسرے لیڈروں کو گالیاں دینا، اپنی پارٹی میں ترقی کا زینہ سمجھی جاتا ہے جس کی چند مثالیں PTI کے ووٹر اور ورکر کے لیے یہ لازمی criteria ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی تنقیص کرے اور باچہ خانی کے “عدم تشدد” پرچارکوں کے لیے سید مودودی کے نام لیواؤں اور جماعتیوں کے لیے سرخوں پر طنز و تشنیع واجب ٹھہرا ہوا ہے۔ نون اور جنون کے آپسی سوکناپے کا تو نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔نتیجتاً، یہ صورتحال چار بنیادی مسائل کا منطقی حاصل ہے۔

1- سیاست میں نظریات کےفقدان نے عوام کے کردار کو محض نعرہ بازی تک محدود کر دیا ہے۔ اور بد قسمتی سے یہ امر روز بہ روز مزید بڑھ رہا ہے۔اکثر اوقات نعرہ بازی میں وقفے کے طور پر دوسرے لیڈروں پر تبّرابھی ضروری نتیجہ ہے۔
2- سیاسی رہنماؤں کی صرف اور صرف کرسی تک پہنچنے کی جلدی ،چاہے قوم کے اخلاقی بگاڑ کی قیمت پر ہی کیوں نہ ہو، نے تنزل کی طرف سفر کو مزید تیز کیا ہے- حالانکہ اچھے رہنما کے لیے قوم کی فکری تطہیر، سیاسی تربیت، اخلاقی اور تمدنی ارتقا بھی اساسی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے-
3۔ سیاسی پارٹیوں کے اندر جمہوری کلچر اور سپورٹسمین شپ کی ناپیدگی بھی ایک قابل توجہ امر ہے جس کی وجہ سے بیشتر سیاسی پارٹیوں میں اپنی فیملی انٹر پرائز (family enterprises)کے علاوہ کوئی اور کسی اہم جماعتی اور حکومتی منصب کے لیے اہل ہی نہیں سمجھا جاتا- دو ایک جماعتوں کے اندر، جہاں جمہوری انداز سے قیادت تبدیل ہوتی ہے، وہاں پر ضرورت سے زیادہ ڈسپلن/ نظم کے تقاضوں نے فیصلہ سازی میں وسیع تر شرکت عامہ کو نا ممکن نہیں تو از حد مشکل ضرور بنایا ہے۔
4۔ طلبہ یونین اور بلدیاتی انتخابات کے عدم تسلسل کی وجہ سے سیاست میں عملی تجربہ گاہوں سے ہو کر آنے والوں کا راستہ جب روکا گیا تو ڈرائنگ رومز کے مفکرین ، talk shows کے دانشور، حادثاتی سیاستدان یا کھیل اور کسی شعبہ زندگی میں خدمات کو بنیاد بنا کر کوچۂ سیاست کے مسافر ہی دستیاب مال کے طور پر حاضر بلکہ فائز ہیں۔ غیر تربیت یافتہ یا نیم حکیم سیاستدانوں سے آپ مروجہ flawed جمہوریت کی توقع ہی کر سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں اپنی سیاسی اور سماجی اجتماعیت میں درج بالا گزارشات کی طرف توجہ دینی چاہیے،تاکہ جمہوریت ادارہ سازی اور ریاست کی مضبوطی کا باعث بنے۔ نہ کہ جمہوریت جاری ہوتے ہوتے بھی آمریت والے اثرات کو سماج میں پھیلائے، جس کا حتمی نتیجہ آمرانہ سوچ والی پارٹی اور قومی قیادت، کمزور ادارے اور سب سے بڑھ کر leadership crisis/ قحط الرجالی ہے۔

Facebook Comments

افتخارشاہین
میرا رہائشی تعلق ایبٹ آباد اور صوابی سے ہے- دور طالبعلمی میں کبھی کبھی لکھ لیتا تھا- افریقہ کے مختلف ممالک میں انٹر نیشنل ڈویلپمنت سے وابستہ ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply