وزیر اعظم کشمیر کا بیان اور اس پہ ردعمل

ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں ان نادانوں کو (اقبالؒ )
ایک جمہوری معاشرہ افراد کے اختلاف رائے کے حق کو پوری طرح نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ آزادی اظہار کی صورت میں افراد کے اختلاف رائے کے اظہار کو تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ افراد کے مابین اختلاف رائے معاشرے میں زندہ ضمیر افراد اور اہل رائے کے ہونے کی علامت ہے لیکن اختلاف رائے کا قطعا ًیہ مطلب نہیں کہ اختلاف کو نظری حدود سے نکال کر ذاتی تنقید، حسد اور با قاعدہ دشمنی میں بدل دیا جائے اور نہ اختلاف رائے کا یہ مطلب ہے کہ فریق ثانی کی تذلیل کی جائے ۔
اس وقت پاکستان اور کشمیر بھی ایسی ہی صورت حال سے گزر رہے ہیں بلکہ باقاعدہ لفظی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے اور دونوں اطراف سے برابر وار کیے جا رہے ہیں۔پاکستان اور کشمیر کے مابین اس تازہ تنازع کی وجہ آزاد جموں و کشمیر کے منتخب وزیراعظم کا وہ بیان ہے جس میں کہ انہوں نے کہا کہ بحثیت کشمیری یہ سوچنا ہوگا کہ کس ملک سے الحاق کیا جائے اور ان کے ساتھ پر یس کانفرنس میں موجود وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے نواز شریف کے خلاف فیصلے کو نا صرف فکسڈ قرار دیا بلکہ اس فیصلہ کو آئین پاکستان کے آرٹیکل باسٹھ کی آڑ میں بغاوت قرار دیا۔چنانچہ ان بیانات کو نہ صرف پاکستانی عوام نے مسترد کیا اورمذمت بھی کی بلکہ پاکستان اور کشمیر کی تقریبا ًتمام بڑی سیاسی جماعتوں نے بھی مسترد کیا اور مذمت کی۔پاکستانی عوام اور پاکستانی جماعتوں کی جانب سے بیان کی مذمت اور مسترد کی وجہ، یہ ہے کہ پاکستانی بحثیت مجموعی کشمیر کو اپنے خیر خواہوں میں شمار کرتے ہیں ۔لہٰذا راجہ فاروق حیدر اور محترم حفیظ الرحمان صاحب کا بیان نہ صرف پاکستانیوں کی دل آزاری کا باعث بنا بلکہ پاکستان کی کشمیر کے متعلق ریاستی پالیسی سے بھی مطابقت نہیں رکھتا تھا۔
یہاں ایک سوال یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ جب کشمیر کی عوام کا حق خود ارادیت تسلیم کر لیا گیا ہے تو پھر کشمیر کی جانب سے آزادی کی خواہش یاالحاق کی خواہش پر اعتراض کیوں کیا جا تا ہے؟ اس سوال کے جواب میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جہاں تک محض خواہش یا رائے کا تعلق ہے یعنی کوئی شخص خود مختار کشمیر کا قائل ہے یا الحاق کا قائل ہے تو میرے نزدیک محض ایک رائے کے یقیناًوہ اس بات کا اختیار رکھتا ہے کہ وہ اس رائے کا اظہار کرے اور نہ اس رائے کی بنیاد پر اس کے خلاف کوئی مقدمہ قائم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اعتراض کیا جا سکتا ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ اسکی اس رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور اس کے سامنے اپنی متبادل رائے مع دلائل پیش کی جا سکتی ہے، لیکن المیہ یہ ہے ہمارے ہاں پاکستان کے ساتھ بعض کو خود مختار کشمیر کا لازم جز سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ یہ طرز عمل قطعی نا درست اور غیر مناسب ہے۔ میرے نزدیک پاکستان اور کشمیر کے مابین تعلقات کی حقیقی بنیاد مذہب، جو نہ صرف پاکستان اور کشمیر بلکہ دنیا بھر کے سینکڑوں اسلامی ممالک کے مابین تعلقات کی حقیقی بنیاد ہے۔ لہٰذا اس بات کا لحاظ لازمی ہے نیشنلزم اسلام پر حاوی نہ ہونے پائے ۔
جہاں تک راجہ فاروق حیدر صاحب کے بیان کا تعلق ہے تو قطع نظر اس بحث سے کہ میری الحاق پاکستان کے بارے میں کیا رائے ہے،بحثیت ایک نظریاتی اور اصولی ہونے کے اس بیان پر مجھے بھی حیرت ہوئی، اسلیے کہ کشمیر نے ا لحاق اگر کرنا ہے تو پاکستان سے کرنا ہے نہ کے نواز شریف یا کسی دوسرے شخص کی ذات سے، اور ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہےکہ کیا پاکستان اور کشمیر کے مابین تعلقات کی بنیاد کوئی فرد واحد ہے، کیا کشمیر اور پاکستان میں نکتہ اتحاد و الحاق کوئی فرد ہے؟اسکے علاوہ راجہ فاروق حیدر صاحب سے ایک اور غلطی ہوئی انہوں نے اسی پریس کانفرنس میں عمران کے بارے میں کہا وہ طلاق فیڈریشن کا چئیر مین ہے اور دو دفعہ طلاق دے چکا ہے حالانکہ اس وقت ایسے کسی تنازع کی کوئی صورت حال نہ تھی۔ لہٰذا اگر انتہائی نیک نیتی اور پورے انصاف سے دیکھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک ریاست کے وزیر اعظم کو اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے چاہئیں؟ میرے نزدیک یہ قطعی مناسب اور معقول بات نہیں کہ ایک شخص سے سیاسی اختلاف کی بنیاد پر اس کی ذاتی زندگی پر اس طرح تنقید کی جائے اور پھر طلاق جیسے معاملے پر جو کسی بھی شخص کے لیے نہ صرف ایک مشکل فیصلہ ہوتا ہے بلکہ زندگی کا ایک کڑا دور بھی ہوتا ہے چاہے وہ کوئی لیڈر ہو یا ایک عام آدمی ہو اور کیا عجب کہ عمران خان صاحب کو اس کا بھی غصہ ہوا ہو۔
جہاں تک وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کا تعلق ہے تو محترم کا بیان بھی بلائے فہم ہے اسلیے کہ جب محترم یہ کہتے ہیں یہ فیصلہ فکسڈ ہے تو گویا بادی النظر میں وہ یہ کہہ رہے ہیں پاکستان کی سپریم کورٹ، پاکستان کے ادارے یعنی ایس ای سی پی، آئی ایس آئی، ایم آئی، اسٹیٹ بنک، نیب اور ایف آئی اے یعنی وہ تمام ادارے جن کو ملک کے مجموعی نظم و نسق کو چلانے میں نہایت اہم مقام حاصل ہے وہ سب بکے ہوئے ہیں یا کسی اور کے اشارے پہ چلتے ہیں ۔حالانکہ جے آئی ٹی کی تشکیل پر جس میں کہ انہی اداروں کے نمائندے بطور ممبران شامل تھے لیگی کارکنان اور لیڈران نے نہ صرف جشن منایا تھا بلکہ مٹھائیاں تقسیم کی تھیں؟ اور آرٹیکل باسٹھ کے عدالتی فیصلہ میں آخر کونسی بغاوت ہوئی، اس بغاوت کی نوعیت کیا تھی اور اس بغاوت کی کیا تعریف ہوگی؟
فاروق حیدر کے بارے میں ایک بات تو ان سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ وہ پاکستان مخالف نہیں ہیں بلکہ انکا تعلق اب جس جماعت سے ہے وہ بھی الحاق پاکستان کی علمبردار ہے اور اس سے پہلے محترم جس جماعت میں تھے (مسلم کانفرنس) وہ بھی الحاق پاکستان کی علمبردار جماعت ہے اور اس سارے معاملے کے سامنے آنے کے بعد فاروق حیدر نے نہ صرف اپنے بیان کا سیاق و سباق بیان کیا بلکہ اپنے پہلے سے تسلیم شدہ نظریے کا بھی اعادہ کیا ہے۔اس ساری صورت حال کا اگر غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو ظاہر ہوتاہے کہ یہ کوئی سنجیدہ بیانات نہیں ہیں بلکہ محض ایک شخص اور ایک جماعت سے وفاداری ، سیاسی تقلید، سیاسی مخالفین پر وار اور پانامہ فیصلے کے نتیجے میں پہنچنے والے صدمے کے نتائج ہیں ۔
ان دونوں حضرات کے بیانات پر جناب عمران خان اور شیخ رشید نے بھی تبصرہ کیا بلکہ مذمت کی لیکن حسب روایت سیاست کی وہ اخلاقی حدود سے نکل گئے اور دونوں حضرات کے بارے میں نہایت نا مناسب الفاظ استعمال کیے۔ چئیر مین عمران خان نے فاروق حیدر کے لیے گھٹیا اور ذلیل کے الفاظ استعمال کیے تو شیخ رشید احمد نے اپنی آخری حدوں کو چھوتے ہوئے وزیر اعظم آزاد کشمیر اور وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کو جوتیاں مارنے کی بات کی جو نہایت مذموم اور قابل مذمت ہے۔کسی شخص پر تنقید کرنے اور اختلاف کرنے کا یہ اصول قطعی معقول نہیں ہے کہ آپ اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں اور جائز و نا جائز اور صحیح و غلط کے استعمال سے بے نیاز ہو جائیں۔ میرے نزدیک یہ الفاظ ایک عام شخص کو بھی زیب نہیں دیتے کجا کوئی ایک پارٹی کا سربراہ یا کسی ملک کا نمائندہ ہو۔ اگرچہ یہ واقعہ انتہائی نا خوشگوار ہے لیکن اس واقعہ پر تمام تر بحث حقائق کے بجائے جذبات کی بنیاد پر کی جارہی جو قطعی درست نہیں ہے۔
دوم یہ کے یہ بیانات بھی پاکستانی سیاست کے اس مجموعی طرز عمل کا نتیجہ ہیں جو ہم صبح و شام ٹی وی،اخبارات میں خبروں، بیانات، پریس کانفرنسز اور ٹی وی شوز میں دیکھتے ہیں جہاں یہی سیاست دان خود ا یک دوسرے کے بارے میں انتہائی غیر مہذب اور غیر اخلاقی بیانات دیتے ہیں بلکہ انتہائی سنگین الزامات لگانے سے بھی پرہیز نہیں کرتے ، یہاں تک کہ سیاسی مخالفین کے گھر کی عزتوں یعنی عورتوں کی بھی تذلیل کرنے میں بھی کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے ۔اسکی سب سے تازہ مثال اسی جلسے میں موجود تھی جہاں سے یہ معاملہ شروع ہواجس میں شیخ رشید صاحب نے فاروق حیدر صاحب کی تذلیل کی ٹھیک وہیں انہوں نے محترم نواز شریف اور انکی اولاد کا بھی خوب تمسخر اڑایا ۔
المختصر یہ افراد کا اختلاف ہے اسے افراد تک ہی محدود رکھا جائے یہی مناسب بھی ہے، قوم و ملک کے حق میں بھی بہتر ہے اور حقائق بھی اسی جانب اشارہ کرتے ہیں مگر کچھ لوگ دانستہ اس سارے معاملےلے میں کشمیریوں کی تذلیل کررہے ہیں حالانکہ یہ حقائق کے بالکل خلاف ہے ۔
چنانچہ اس سارے معاملے میں پورے انصاف ، عدل اور دیانت پر مبنی طرز عمل تو یہ ہے کہ دونوں فریقین سے یعنی عمران خان شیخ رشید اور راجہ فاروق حیدر ایک دوسرے سے معافی کا مطالبہ کیا جائے۔میرے نزدیک بد اخلاقی اور بد تہذیبی کا جو بھی مرتکب ہوتا ہے اسکی مذمت کی جانی چاہئیے خواہ وہ جس جماعت سے تعلق رکھتا ہو۔ اسی طرح اس معاملے میں ہمیں چاہئیے کہ ہم کسی لسانی اور علاقائی عصبیت کا شکار ہوئے بغیر پورے عدل و انصاف اور نیک نیتی سے جس سے جو غلطی ہوئی اسکو تسلیم کریں اور اسکی پوری قوت سے مذمت کریں۔
خدا تعالیٰ ہمیں حق سننے، سمجھنے اور کہنے کی توفیق دے آمین۔

Facebook Comments

اعزاز کیانی
میرا نام اعزاز احمد کیانی ہے میرا تعلق پانیولہ (ضلع پونچھ) آزاد کشمیر سے ہے۔ میں آی ٹی کا طالب علم ہوں اور اسی سلسلے میں راولپنڈی میں قیام پذیر ہوں۔ روزنامہ پرنٹاس میں مستقل کالم نگار ہوں ۔ذاتی طور پر قدامت پسند ہوں اور بنیادی طور نظریاتی آدمی ہوں اور نئے افکار کے اظہار کا قائل اور علمبردار ہوں ۔ جستجو حق اور تحقیق میرا خاصہ اور شوق ہے اور میرا یہی شوق ہی میرا مشغلہ ہے۔ انسانی معاشرے سے متعلقہ تمام امور ہی میرے دلچسپی کے موضوعات ہیں مگر مذہبی وقومی مسائل اور امور ایک درجہ فضیلت رکھتے ہیں۔شاعری سے بھی شغف رکھتا ہوں اور شعرا میں اقبال سے بے حد متاثر ہوں اور غالب بھی پسندیدہ شعرا میں سے ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply