رودادِ سفر:اشرف و افجر۔۔۔۔۔۔ایڈووکیٹ محمد علی جعفری/قسط3

نے، اور جف مل کر یہ لفظ بنا ہے، معنی ہے پانی اور بلندی، شائد عبرانی ہے،واللہ اعلم۔ دجلہ کا کنارہ ہے اور علماء کا شہر ہے جسے اسد اللہ نے عزت بخش کر باب العلم کی ایکسٹینشن کردی ہے۔۔۔

ہماری بس بالکل وہیل مچھلی کی ہیئت کی تھی اور اسے فندق(ہوٹل) کے سامنے رکنا تھا لیکن عزاداری کے مراسم شروع ، روڈ بند اور سپاہ چاق و چوبند!!!

“ہیّا، تحرکو،یا حاجی”, نیچے اتر کر دس منٹ چلے تو ہوٹل آیا، لیکن اس کے برابر شاہراہِ رسول پر بازار کی اس اور وصیِ رسول،پوری تمکنت اور جلال کے ساتھ جلوہ نما ہیں،

علیُٗ حبہ الجنہ،
قسیم النار والجنہ،
وصی المصطفی حقا،
امام الانس والجنہ۔۔۔

رات ہے، آسمان پر چاند اور زمین پر علی مولا کا سورج اپنی تابانی سے عالم کو منور کر رہا ہے، ہم نے بے اختیار پیشانی پر ہاتھ رکھ دیا اور بازار کی طرف مڑے،اور بقول شاعر

کوسوں اس کی اور گئے،پر سجدہ ہر ہر گام کیا۔۔۔۔۔

جن مختلف ابواب سے داخل ہوا جاتا ہے، ان میں باب الساعہ، المسلم بن عقیل وغیرہ شامل ہیں لیکن، کیا کہنے کہ ہم جہاں سے داخل ہوئے وہ بابِ قبلہ تھا، اور مقصود کون تھا؟؟؟؟

کعبہِ کون و مکاں،قبلہِ ایجاد و یقیں۔۔۔۔۔۔!!

دیوار پر آیت کندہ تھی
“ادخلو الباب سجدا”
یعنی در پر سجدہ کرکے داخل ہونا!!

دربار میں کورنش بجا لائے اور لرزیدہ قدم جانبِ ضریح بڑھے۔۔۔۔۔
امیر المومنین کا دربار ہے! ہوشیار باش!!!

رودادِ سفر،اسیرِبغداد۔۔۔۔محمد علی جعفری/حصہ اول

امام نے فرمایا،
“ہر انسان کی قیمت اس کے ہنر میں پوشیدہ ہے،”

“کوئی غنٰی عقل سے بڑھ کر نہیں ہے،
اور کوئی فقر،جہل سے زیادہ نہیں ہے،
کوئی میراث ،ادب سی نہیں۔
اور کوئی بھی شے،مشاورت سے زیادہ مددگار نہیں!!”

آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ،”لوگ اس شے کے دشمن ہوجاتے ہیں جسے جانتے نہیں ہیں”، اور ہوا بھی یہی،

خدا کے علم کے مظہر،ابوالحسن علی ابن ابی طالب کو لوگوں نے اتنا پریشان کیا کہ انہیں کہنا پڑا کہ الہی!!!
“انہیں مجھ سے بدتر دےدے، اور مجھے ان سے بہتر۔”

تو میں نجف الاشرف میں ہوں!!!!
پیر و ولی و مرشد و مسترشدِ کامل کی بارگاہ میں!!!

آج یہ مصرعہ سمجھ میں آیا،

ہزار جانِ گرامی،فدائے نامِ علی۔۔۔۔۔۔

جو ہے،جہاں سے آیا ہے، علی کے دربار میں ادب سے ہاتھ سمیٹے کھڑا ،
صاحبِ منبرِ سلونی کے سحر سے مبہوت۔۔۔۔
عبدِ ربِ الکعبہ کی عبدیت کے نظارے میں گم۔۔۔۔
امام العالمین،۔۔۔۔اروٰحنالک الفداء۔۔۔۔۔۔
صلی اللہ علیک یا علی ابن ابی طالب،
اسلام علیک یا امیر المومنین۔۔۔۔

اس مزار،اور اس کے صحن اور ابواب کے اطراف میں علماء ربانی و شہداء محوِ خواب ہیں، کہیں آیت اللہ خلخالی اور خانوادہ،
کہیں شیخ مرتضیٰ انصاری،
کہیں خمینی صاحب کے شہید فرزند،
کہیں امام کی ضریح سے گفتگو کرنے والے محمد مقدسِ اردبیلی،
اور کہیں حاکمِ وقت اور سلطانِ جائر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے آیت اللہ ابو القاسم الخوئی،

اور ہاں ، یہاں14 سال پہلے ہوئے جمعے کی نماز میں ہوئے دھماکے سے شہید ہونے والے حکیم خاندان والے سید باقر الحکیم کو کون بھول سکتا ہے،جس کی تختی حرم کے باہر لگی ہے۔

اب آئیے ہوٹل،
فندق الہادی کی صورت میں اس سبزے کو کائی بننے سے پہلے روئے آب مل گیا، سب ہی اس ہوٹل کو کاظمین پر قیاس کر رہے تھے لیکن یہ تو بالکل ایسا ہی تھا،
جیسے آدم کو زمین پر اتار دیا گیا ہو، اور کھانا ہماری امید پر بالواقع پورا پورا اترا!!!
یعنی کہ بالکل ٹیسٹ لیس،
مرغی کی حالت ایسی جلی ہوئی کہ لگتا تھا

میں خود آئی نہیں لائی گئی ہوں۔۔۔
تو میں نے،
ہاتھ دھویا،منہ دھویا، کھانا کھا کے سوگیا۔۔۔۔۔

صبح تڑکے اٹھے تو منادی آئی کہ اصیب الیمنی کے مزار اور وادی السلام جانا ہے، اصیب الیمنی حضرت علی کے جلیل القدر صحابی تھے جنہوں نے وصیت کی تھی کہ انہیں نجف میں دفنایا جائے، آپ کا جنازہ اونٹ پر یہاں پہنچایا گیا، حضرت علی بنفس نفیس خود آپ کے لئے تشریف لائے، یہاں کنواں بھی ہے، مقامِ سید سجاد بھی ہے اور ایک مقامِ جنابِ امیر جسے مقام نبی موسی کلیم اللہ بھی کہتے ہیں۔

اس کے پیچھے ہی دریائے دجلہ کا حسین منظر ہے جہاں من موجی پکنک منانے بھی جاتے ہیں، لیکن ماہِ عزا میں کوئی پکنک نہیں منائے گا۔

مگر وادی السلام ہے کیا؟؟

ہم جب ضریحِ معظمہ کے پاس بیٹھے تھے توحرمِ جنابِ امیر میں بلا مبالغہ، ہر تیسرے چوتھے منٹ ایک جنازہ،چار کاندھے(بعض دفعہ فقط دو) کلمہ شہادت کی گردان کرتے ہوئے ضریح کے پاس آتے اوران کے آگے چلتا ہوا فرد،ہٹو بچو کرتا ہوا آگے آتا،مبادا روضے کاکوئی سلامی ٹکراجائے۔۔۔
تو ہم یہ سوچتے کہ اتنے سارے جنازے جاتے کہاں ہیں۔۔۔۔۔جواب درست ہے۔۔۔۔وادی السلام۔۔۔
یہ دنیا کا سب سے بڑا قبرستان ہےاور انتہائی برگزیدہ ہستیوں سے لبریز بھی،
نبی ہود و صالح یہاں دفن ہیں، ان گنت صالحین ہیں اور ان کی زیارت کرنے والے آئمہ ، ان کے آثار،اور کنواں جو تازہ دم ہونے کے کام آتا۔۔۔۔۔
سب رک رک کر زمین پر ہاتھ سے لکیریں کھینچ رہے تھے، استفسار پر جواب آیا کہ یہاں جو ہاتھ سے اپنی قبر اس زمیں پر بنائے گا وہ یہیں سے محشور کیا جائے گا۔۔۔۔واہ۔۔۔۔۔۔

گیارہ بج رہے تھے اور منہ پر لو کے تھپیڑے پڑ رہے تھے۔۔۔ واپس آتے آتے دن کا ایک بج گیا، ۔۔۔۔۔۔۔باجی میری شکل دیکھ کر کہتی ہیں، “تمہیں تو سن برن ہوگیا ہے”,

رودادِ سفر: باپ، بیٹے اور بہو ۔۔۔۔ ایڈووکیٹ محمد علی جعفری/قسط 2

” ہاں کوئی بات نہیں۔
لایا ہے تیرا شوق مجھے حجرے سے باہر!!!”

پھر نہا دھو کر سستائے اور مغرب کے وقت واپس حرم اور روٹین کی چیکنگ کے بعد میرے ساتھی نے عورتوں کی کفش برداری کی جگہ جوتے رکھنے کی کوشش کی تو متولی نے تقریباً ہنس کر اسے آگے جانے کا اشارہ کیا، کہنے لگا، “ابے یار اب یہ لکھ نہ دینا تم”, میں کھسیا گیا اور ہوں ہاں کر کے ہم حرمِ مطہر میں دوبارہ وارد ہوئے۔۔۔

راز و نیاز کا دور گزرا اور بج گئے رات کے گیارہ۔۔۔۔۔۔۔ واپسی پر سبیل سے عرب گاوہ(قہوہ) پیا،جو چائے کے مقابلے اتنا برا بھی نہیں تھا،
میرے دوست کے بھائی کو انگوٹھی چاہیے تھی، اپنے لیے اس نے کچھ نہ لیا البتہ بھائی نے اس کے وہی عقیق و درِ نجف کی انگوٹھی منگوائی تھی وہ بھی مخصوص ڈیزائن کی،
کہنے لگا یار اب تو انگوٹھی کے کر جاؤں گا۔۔۔۔۔۔۔میں نے پہلے تو پس و پیش کیا مگر جب وہ مصر ہوا تو کچھ نہ بولا، بس ساتھ ہولیا۔
تو جناب اس نے مزعومہ اصلی انگوٹھی خریدی دو ہزار روپے (23 ہزار عراقی دینار) میں، وہاں جا کر جب سب چیک کیا تو معلوم ہوا کہ عراقی دکاندار اس پر خنجر آزمائی کر چکا ہے۔ نا تو پتھر اصل ہے، نا چاندی!!لیکن اس نے کہا، :”میں نے جس دم یہ انگوٹھی مولا کی جالی سے مس کی ہے تو یہ انمول ہوچکی ہے”

14 کے ماننے والے، 14 ستمبر بتاریخ 4 محرم الحرام،نجفِ اشرف سے آگے بڑھے۔۔۔۔۔
اگلی منزل،
مسجدِ سہلا،مسجدِ حنانہ، مزارِ میثم التمار،حضرت علی کا گھر،مسجدِ کوفہ اور اس سے ملحق زیارات۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔۔۔۔۔

Facebook Comments

محمد علی
علم کو خونِ رگِِِ جاں بنانا چاہتاہوں اور آسمان اوڑھ کے سوتا ہوں ماسٹرز کر رہا ہوں قانون میں اور خونچکاں خامہ فرسا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply